جواب:نیرنگِ خیال ایک تدبیر نامہ:
نیرنگِ خیال“کے مضامین نوآبادیاتی نظامِ حکومت کے شکنجے سے نجات کے لیے حقیقت میں وہ تدبیر نامہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس سے ہندوستانی مسلمان تعلیم اور محنت کے بل بوتے پر اپنی دنیا آپ پیدا کر سکتے تھے۔ ایسے اخلاقی و تربیتی مضامین لکھنے کا رجحان اس لیے بھی پرورش پا گیا کیونکہ یہ سرزمینِ ہندوستان میں مسلمان قوم کے سیاسی، معاشی و معاشرتی استحصال کا دور تھا۔ اس سیاسی، سماجی و معاشی استحصال میں ہندوستانی مسلمانوں کا اپنامنفی کردار بھی شامل تھا۔ صورتحال کچھ یْوں بھی مخدوش تھی کہ جن کے حالات و وسائل قدرے بہتر تھے وہ بھی سائنس، آرٹ، معیشت و سیاست میں اپنی نفسی توانائیاں اور طبعی وسائل صرف کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ اکثریت تو ایسے علم کے حصول کو بدعت اور انگریز کی مزید غلامی متصّور کیے ہوئے تھی۔ سر سیّد جیسے دور اندیش مصلح نے اسے اپنی دوربیں نگاہ سے جان لیا تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے طاقتور ریلے کا مقابلہ جواباً طاقت کا زور نہیں بلکہ ذہانت و فطانت کے حربے میں پنہاں ہے۔ تو ہم پرستی، جہالت اور سماجی بے راہ روی کی سیاہ راتوں میں امیدِ صبح کی خواہش و بیداری کا مثبت عمل انشائی مضامین کی صورت سر سیّد تحریک کے تقاضوں سے میل کھاتا حالات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اصلاحی خیالات کی شدت ملا و ادیب دونوں کی تقریرو تحریر کا خاصہ تھی۔محمد حسین آزاد نے اپنے نظریات کو ایسے تقلیدی عمل سے بچایا۔ آزاد کی انشا پردازی نظری وعملی حقائق کی غماز ہے یہی وجہ ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے زیادہ تر مضامین کی عمومی فضا مجردپیکروں سے جن مجسموں (concrete) کی تراش خراش پر بحث کرتی ہے وہ سب سر سیّد احمد خاں کے بطور میرِ کارواں شخصیت کو مجسّم بنانے اور نو آبادیاتی نظام سے نجات کا اخلاقی درس و سبق ہے۔ یہ مضامین ہندوستانی مسلمان میں حبِ وطن کے جذبات، اخلاقیات کے اصول و قاعدے نئے سرے سے ترتیب دینے کا باعث بنتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے انشائیہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں ماضی کی شاندار روایات کی جدید تناظر میں بازیافت کا شعور بھی بیدار کیا ہے۔
سحرانگیزی:
”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ کے مضمون سے شروع ہونے والا تمثیلی انشائیہ کا شاہکار اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے آخری مضمون ”سیر ِ عدم“ تک آزاد نے نہ صرف اپنے خیال سے سحر انگیزی کا کام لیا ہے بلکہ ”نیرنگِ خیال“کی نثر رنگین بیانی کا ایک دل فریب مرقع ہے۔ جس میں اخلاقی اور تمدنی اصلاح کے پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے محمد حسین آزاد نے سرسیّد کی مقصدیدیت کی مشعل جلائے رکھی۔ ”نیرنگِ خیال“کے مضامین کی وسعت ِ خیا ل اور بلند پرواز فکر قابلِ شتائش ہے۔ آزاد نے پہلے مضمون ”آغاز آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کا جو شاندار نقشہ کھینچا ہے وہ قابلِ دید ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ آزاد نے اس عہد کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی پستی اور اس کے علاج کی بطور معالج نشاندہی کی ہے۔ برطانوی سامراج کی نوآبادی بننے کی بجائے معاشرتی اصلاحات کی طرف استعارا تی،تشبیہاتی، تلمیحاتی و علامتی پیراے میں اشارہ کیا ہے جس سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ محنت پسند خرد مند یقینا ً سر سیّد احمد خاں کی ذات ہی مراد ہے جو اپنی قوم میں سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کے لیے کوشاں رہتا ہے اور قوم کو محنت کی عظمت کا درس بھی دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ محمد حسین آزاد کے پیشِ نظر تمثیلی پیرائے میں سر سیّد تحریک کی مقصدیت کوسراہنے کا عمل بھی کارفرما تھا۔بقول پروفیسر سحر انصاری ”آزاد کی خوبء نگارش یہ ہے کہ انہوں نے تمثیلی مرقعوں میں بات بین السطور بھی کہی ہے اور ذیلی سرگرمیوں کے ذریعے مقصدیت کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔“
عملی و اخلاقی تدابیر:
یہ بجا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے تمام مضامین مبنی بر عصری تقاضا تھے اور سماجی تقاضوں سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھنا بھی سر سیّد احمد خاں کی اولیات میں سے تھا۔ ”نیرنگِ خیال“کو حساس معاشرے کو نو آبادیتی نظام کی شر انگیزیوں سے بچاؤکے لیے عملی و اخلاقی تدابیر بھی کہا سکتا ہے بقول فرزانہ سیّد ”ان کا مجموعہ مضامین نیرنگ خیال اپنے اندر پوری پوری علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی توانائیوں لیے ہوئے ہے۔“
”نیرنگِ خیال“کے مضامین انیسویں صدی کے ربع ثالث کے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی نیز معاشی منظر نامے کے عکاس ہیں۔ مضامین کے عنوانات اسمِ بامسمیٰ ہیں اور ہندوستانی معاشرت کے تمام اوہام و خدشات کے پر آشوب دور کے ترجمان بھی ہیں۔ بھلے یہ رنگارنگ مضامین کا مرقع محمد حسین آزاد کی طبع زاد تصنیف نہ تھے بلکہ انگریزی کے بعض مشہور مضمون نگاران کے مضامین سے اخذ و ترجمہ تھے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسّلمہ حقیقت ہے کہ آزاد نے انہیں انگریزی زبان سے اردو کے ادبی قالب میں ڈھال کر اْردد و انشا پردازوں کے لیے مثال قائم کر دی۔ڈاکٹر انور سدید اس ضمن میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
”محمد حسین آزاد نے بھی زیادہ تر انگریزی مضامین ہی سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے اپنی مشرقیت کو بہرحال قائم رکھنے کی کوشش کی۔ گلشن امید کی بہار، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ، سیر زندگی، علوم کی بدنصیبی اور خوش طبعی جیسے مضامین میں آزاد نے اپنی شگفتہ انشاء سے خوبصورت لفظی مرقعے بنائے ہیں اور انشا نگاری میں اپنی انفرادیت کا پختہ نقش قائم کیا۔“
نیرنگِ خیال کے پانچ مضامین کا مختصر تعارف:
سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ:
یہ جانسن کے انگریزی مضمون Truth,Falsehood and Fiction an allegoryکا آزاد ترجمہ ہے۔ لیکن اس عنوان کو آزاد نے اپنے خاص سلیقے سے پیش کیا ہے۔ تمہید کے بعد وہ تمثیل کے لیے کردار تخلیق کرتے ہیں۔ سچ ملکہ صداقت زمانی ہے جب کہ اس کا باپ سلطانِ آسمانی ہے۔ یہ ملکہ صداقت زمانی ملکہ دانش خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ جھوٹ دروغ دیوز ادنانی ایک سفلہ نابکار ہے۔ باپ کا نام احمق تیرہ دماغ ہے اور اُس کی ماں ہوس ہوا پرست ہے۔ باقی مضمون اُن کی کش مکش سے عبارت ہے اور آخری فتح سچ کے حصے میں آتی ہے۔
گلشن امید کی بہار:
یہ بھی جانسن کے انگریزی مضمون The Garden of Hope a Dreamکا آزاد ترجمہ ہے اور آزاد کی خاص زبان اور لغت کا عمدہ نمونہ بھی۔ یہاں باغ امید کے وہ دربان ہیں۔ ایک داروغہ دانش اور دوسرا داروغہ خیال۔ داروغہ دانش تند مزاج اور شکوک شبہات میں مبتلا شخص ہے جب کہ داروغہ خیال خلیق اور ملنسار شخص ہے۔ انہی کی طرح اور بھی کردار ہیں جو تمثیل میں رنگ بھرتے ہیں۔ یہاں کردار نگاری پر توجہ نہیں، جب کہ مقصد کے حصول کی طرف دھیان ہے۔
سیر زندگی:
یہ جانسن کے انگریزی مضمون The Voyage of Lifeسے ماخوذ ہے۔ بیانیہ نثر کا عمدہ نمونہ ہے۔ آزاد کے اُسلوب کے جملہ رنگ اس مضمون میں مل جاتے ہیں۔ تخیل کی کار فرمائی، تمثیل نگاری، مرقع نگاری زندگی کی مختلف حالتوں کی اثر انگیز تصویریں بنانے میں آزاد نے فلسفیانہ تدبر سے کام لیا ہے۔
انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا:
یہ ایڈیسن کے مضمون The endeavour of mankind to getred of their bindens a dreamسے مترجم ہے۔ اِس میں بھی آزاد ایک خواب دیکھتے ہیں۔ خواب میں سے ایک تمثیل اُبھرتی ہے۔ سلطان افلاک، شیطان نابکار جس کا نام آزاد نے اس تمثیل میں ”وہم“ رکھا اور تیسرا کردار صبر و تحمل نامی فرشتہ رحمت اور ان تین کرداروں کے بیچ مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک انبوہ پر آفات۔آزاد ایک اخلاقی سبق دے رہے ہیں اور اِس کے لیے وہ اپنے انداز نگارش کے جملہ عناصر کو بروئے کار لاتے ہیں۔
شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار:
آزاد کا یہ شاہکار مضمون ایڈیسن کے مضمون The Vision of the Table of Fame سے اخذ کیا گیا۔ اس مضمون کو آزاد کے اُسلوب کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے توجہ سے پڑھنے پر شستہ اُردو زبان کا لطف ملتا ہے۔ اس میں آزاد کے اُسلوب کے تمام عناصر اپنی بہترین صورت میں موجود ہیں۔ آزاد مضمون میں خطابیہ انداز اپناتے ہیں۔ اس مضمون کا آغاز ہی ”اے ملکِ فنا والو!“ سے ہوتا ہے۔ آزاد اپنے مضامین میں پہلے تمہید باندھتے ہیں۔ یہ گویا اس مضمون کا تعارف ہوتا ہے، جس کی صراحت کے لیے آگے جا کر آزاد خواب و خیال کی ایک جمال آفریں فضا تیار کریں گے۔ اس مضمون کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجیے:
”بقائے دوام دو طرح کی ہے۔ ایک تو وہی جس طرح روح فی الحقیقت بعد مرنے کے رہ جائے گی کہ اس کے لیے فنا نہیں۔ دوسری وہ عالم یادگار کی بقا جس کی بدولت لوگ نام کی عمر سے جیتے ہیں اور شہرت دوام کی عمر پاتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اچھے سے اچھے اور بُرے سے برے کام، جن جن سے ہوئے ثواب آخرت کے لیے یا دنیا کی نام وری اور شہرت کے لیے ہوئے لیکن اس دربار میں انہی لوگوں کو لاؤں گا جنھوں نے اپنی محنت ہائے عرق فشاں کا صلہ اور عزم ہائے عظیم کا ثواب فقط دنیا کی شہرت اور ناموری کو سمجھا۔ اسی واسطے جو لوگ دین کے بانی اور مذہب کے رہنما تھے، ان کے نام کی شہرت کی فہرست سے نکال ڈالتا ہوں مگر بڑا فکر یہ ہے کہ جن لوگوں کا ذکر کرتا ہوں، اُن کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ کیوں کہ جن بے چاروں نے ساری جان فشانی اور عمر بھر کی محنتوں کا اجر فقط نام کو سمجھا، اُن کے حصے میں کسی طرح کا نقصان ڈالنا سخت ستم ہے۔“
اس تعارف کے بعد اصل بیان کیے گئے آزاد خواب کی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مضمون نگاری کی یہ ترتیب اور ترکیب آزاد نے خود وضع نہیں کی بلکہ آزاد نے ترجمہ کرتے وقت انگریزی مضامین کے اسٹرکچر کو بھی اپنایا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں:
”آزاد کے تمام مضامین کو ترجمہ کہنا ہی درست ہو گا۔ عام طور پر آزاد اصل متن سے تجاوز نہیں کرتے اور اس کا بامحاورہ یا آزاد ترجمہ کر یتے ہیں۔ کہیں کہیں تصرفات اور اضافے بھی ملتے ہیں لیکن ان کی نوعیت محض تشریحی یا توضیحی ہے یا پھر زیب داستان کے لیے برمحل تفاصیل کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ صرف ایک مضمون یعنی شہرت عام بقائے دوام کا دربار دراصل مضمون سے صرف اس حد تک مختلف ہے کہ آزاد نے تمہیدی اور آخری اجزا کو برقرار رکھتے ہوئے انگریزی مضمون کے مغربی مشاہیر کی جگہ مشرق کے نامور اشخاص کی مثالیں دی ہیں۔“ (نیرنگ خیال، مرتبہ ڈاکٹر اقبال محمد صادق، ص10)
……٭……٭……٭