جواب: مزاحیہ/طنزیہ اردو شاعری کی پاکستانی روایت:
پاکستان کا قیام برصغیر کی بے کس و مظلوم عوام کی جدوجہد کا نتیجہ اور خوابوں اور امیدوں کا مرکز تھا۔لوگوں کو یقین تھا کہ ایک آزاد اور اپنا کہلانے والے وطن میں ان کی صدیوں سے قائم مصیبتیں اور تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔انہوں نے سہانے سپنوں کے سہارے فسادات تو ہجرت کی خون آشام یو کو برداشت کیا تھا۔لیکن پاکستان کی افسر شاہی اور جاگیرداروں نے مل کر استحصالی نظام کو جوں کا توں جاری رکھا۔عوام پھر لوٹ کھسوٹ کی چکی میں پس کر رہ گئے۔جس کے ساتھ ہی ان کے خواب چکنا چور ہوگئے۔
پاکستانی ادب:
پاکستان میں تشکیل پانے والے نظام کے نتیجے میں جن مسائل نے جنم لیا اس کے ردعمل اس دور کے تمام پاکستانی ادب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تو پھر کیسے ممکن تھا کہ طنزیہ و مزاحیہ شاعری اسے بچ جاتی۔لہٰذا طنز و مزاح کے تمام روئے جن میں سماجی ناہمواریوں اور عالمگیر انسانی حمایتوں کا مذاق اڑانا یا خارجی سماجی اثرات کا تمسخر اڑانا وغیرہ شامل ہیں نہیں شدتوں سے آشنا ہوئے،جس کے نتیجے میں نئے لہجوں نے جنم لیا۔تقسیم اور دوسری جنگ عظیم سے پیداشدہ رجحانات نے طنز کی ایک نئی صورتحال کو جنم دیا اقتصادی بدحالی ہجرت قرۃ العین منٹ قومی و بے اعتدالی علی علی سردار جنگل سیاسی زیرو بم معروض اور شعور کو نہیں صورت حال سے دوچار کر دیا۔یہ طنز و مزاح کے لئے نئی تحریک اور نیا کام تھا۔قیام پاکستان کے بعد مزاح گو شعراء کی ایک کھیپ وہ تھی جو تقسیم سے پہلے ہی یہ تخلیقی عمل جاری رکھے ہوئے تھے۔بھارت کے پاکستانی شعراء کے ساتھ مل کر ظریفانہ شاعری کی تاریخ رقم کی۔
حاجی لق لق:
حاجی لق لق شاعر اور نثر نگار دونوں حیثیتوں سے معروف ہوئے۔ان کا اصل نام ابوالاعللاعطا محمد عطاء چشتی تھا۔ان کا مزا ح عوام انداز کا ہے۔انہوں نے ماڈرن غزل کے نام سے جدید شاعری کا بھی مضائقہ اڑایا ہے۔لیکن ان کی شاعری میں سماجی تنقید بھی کی ہے وہ تمام عمر صحافت سے وابستہ رہے۔راجہ مہدی علی خان کی کتاب گجرات شگفتگی کی حامل رومانیت نظموں کے باعث معروف ہوء۔اس مجموعہ میں طنز و مزاح کی حامل نظمیں بہت ذوق و شوق سے پڑھی گئی۔ یہ کتاب تقسیم سے قبل شائع ہوئی تھی اس کے علاوہ اس کی دو اور کتابیں انداز بیاں اور اور آخری نظمیں آزادی کے کافی عرصہ بعد شائع ہوئی۔
راجہ صاحب تصویر کشی کے ذریعے ایسی صورتحال کو مانتے ہیں کہ ایسی بے اختیار پھوٹ پڑتی ہیں وہ ایک بچے کسی معصومیت کے ساتھ سماجی ریاکاری اور نہ ہماری و کو دیکھتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ مزاح نگار کے طور پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ جس نے طنز کی ایک خفیف سی لہر جاری رہتی ہیں وہ نہ مسلمان بنے ہیں نواز بلکہ ایک مصور کی طرح محض تصویریں بناتے ہیں یا کہ نقاب الٹتے چلے جاتے ہیں۔ان کی تحریف بہت زور دار ہے مثلاً دیکھیے مثنوی قہرالبیان:
ادھر پائل بجے چھم چھم چھما چھم
ادھر مکے چلے دھم دھم دھما دھم
میرا منہ آگے بڑھ کر اس نے نوچا
ادھر سے ٹینٹوا میں نے ڈبو دبوچا
جو میں نے ہاتھ زلفوں پہ بڑھایا
تو اس نے ہاتھ میرا کاٹ کھایا
قیامت کی ہوئی وہ مارا ماری
گیا تہمد میرا اور اس کی ساری
مجید لاہوری:
مجید لاہوری نے قیام پاکستان کے بعد کی سماجی صورتحال کو ایک سخت ناقد کی طرح دیکھا۔ انہوں نے موقع پرست نو دولت طبقے پر خاص طور پر تنقید کی۔ اسی طرح انہوں نے مفاد پرست سیاستدانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے الائٹمنٹ، کوٹا پرمنٹ، رشوت وغیرہ کے رجحانات پر طنز کی اور موہوم ترین ناہمواریوں کو بھی محسوس کئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے ٹائر جی ٹیوب جی سیٹ جی مولوی گلیشیئر جیسے کئی کردار تخلیق کیے۔ اپنی نظم”منکہ ایک منسٹر ہوں“میں حکمرانوں کی ذہنیت کو وہ یوں چاک کرتے ہیں۔
مرغیوں پر بھی میں کر سکتا ہوں اظہار خیال
اورسانڈو پربھی ہوں محفل میں سرگرمی مقال
اس کے گھوڑوں پربھی تقریرکر سکتا ہوں میں
اکبر اقبال کی تفسیر کر سکتا ہوں میں
بات پھولوں کی ہویا قومی ترانے کا بیان
چاٹ ہو بارہ مسالے کی کہوں اردو زبان
مثلا آدمی نامہ کی تحریف دیکھیے بعنوان ماڈرن آدمی نامہ:
وہ بھی ہیں آدمی جیسے کوٹھی ہوئی الاٹ
وہ بھی ہیں آدمی کیملا جس کو گھرنہ گھاٹ
نازش کشمیری:
نازش کاشمیری کے تحفظ کی خصوصیت گہری جبکہ مزاح کا عنصر انتہائی دھیما ہے وہ اپنے قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں مگر کہہ لگوانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ان کے ہاں غصے کی کیفیت اور ناصحانہ انداز مزا کی تخلیق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ نمونہ کلام دیکھیے۔
ملے کے چہرے میں اک روز شیخ شبراتی
ہے ایک زمانے سے ان کی میری علیک سلیک
نہیں ہے جھوٹی گواہی سے اجتناب انہیں
کیا نہ آج تک اس پر مگر کسی نے اٹیک
ہو جس میں فائدہ وہ کام کر گزرتے ہیں
کبھی فرنٹ میں جاکر نہیں ہوتے بیک
یہ حج کے دن بھی ہیں لبیک کے عوض کہتے
خدا کے گھر میں فقط ربنا بلیک بلیک
خضر تمیمی:
خضر تمیمی کی شہرت دراصل ان کی تحریفوں کے باعث ہیں۔جو کہ شرازہ اور نمک دان میں چھپتی رہی ہیں۔ان نظموں میں وہ مہنگائی غربت سماجی کونج رویوں اور ناہمواریوں کو مذائقہ خیز انداز میں پیش کرتے ہیں۔
ظریفانہ جبل پوری:
ظریف جبل پوری نے ظریفانہ شاعری میں اکبر الہ آبادی کے انداز کو اپنایا اور اسے سماجی تنقید کے طور پر استعمال میں لائے۔ معاشرے کی بے اعتدالیوں اور تغیرات پر طنز آمیز نظمیں ان کے فن کا ثبوت ہیں۔ ان میں انہوں نے مقامی بولیوں کے لفظوں کو خوبی سے برتا ہے۔انہوں نے انگریزی لفظوں اور مکالماتی انداز کو خوب پڑتا ہے۔
دیکھ کہ صورت کون کی اس طرح کہنے لگے
آئی ایم ویری بزی میک ہیٹ جلدی بولیے
پھر کہا یو آر کنڈی ڈیٹ بٹ نو بولڈ مین
تم کو اپنی ووٹ کیسے دے گا صاحب اولڈ مین
مزاح کے حربے:
سید محمد جعفری کے ہاں اسلوب کی توانائی اور نکھار بہت نمایاں خصوصیات ہیں۔ وہ نظمیں اور تصرف کو مزاح کے حربوں میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ سیاسی بے اعتدالیوں اور سماجی ناہمواریوں کو موضوع بناتے ہیں۔ ان کا طنز شائستہ اور مہذب ہوتا ہے جب کہ مرزا میں شوخی و خندہ دلی رہتی ہے۔ غالب و اقبال کی شاعری تغمین وتحریف میں انہوں نے مہارت کا ثبوت دیا مثلاً اقبال کی نظم شکوہ کے تحریف باعنوان وزیروں کی نماز دیکھیے:
عطر میں ریشمی رومال بسایا ہم نے
ساتھ لائے تھے مسلہ وہ بچایا ہم نے
دور چہرہ وزیروں کو دکھایا ہم نے
ہر بڑے شخص کو سینے سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
کون کہتا ہے کہ ہم لائق دربار نہیں
مذاق کی دریافت:
ضمیر جعفری نے نثر سے زیادہ مزاحیہ شاعری میں نام کمایا۔ان کے مجموعہ کلام عام معافی ازمیر اور ولایتی زعفران کے نام سے چھپے انسان کی حماقتوں، محرومیوں اور ٹیڑھے پن سے انہوں نے مذاق کو دریافت کیا۔لیکن اپنا انداز ہمیشہ مہذب اور متوازن رکھا ان کی زبان چست اور منجھی ہوئی ہے۔ان کے ہاں مجید لاہوری اور سید محمد جعفری کی شاعری کی خصوصیات یکجاں ہوگئی ہیں۔ان کا مشاہدہ تیز اسلوب نکھرا ہوا اور طنز شدید ہے وہ کبھی بھی اس بات کو نہیں بھولتے کہ وہ مزا لیتے ہوئے دراصل ایک ادبی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ان کی نظم دیکھیے:
لوکل مہاجرین یہ تازہ نکھار دیکھ
مونچھوں کے تو دیکھ نظر کی بہار دیکھ
موڑ پہ اڑ رہا ہے وہ تلاکمہار دیکھ
ہیں دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
دلاور فگار:
ظریفانہ شاعری میں دلاور فگار کا نام بہت اہم ہے۔وہ اخباری خبروں سے مضائقہ خیز پہلوؤں کو اجاگر کرکے اور انگریزی الفاظ کا تڑکا مزاح پیدا کرتے ہیں۔انگلیاں فگار اپنی اور مطلع عرض ہے ان کی معروف کتابیں ہیں ان کی نظم کراچی کی بس کے دو اشعار پڑھیے:
ٹھانی کی دل میں اب نہ دبیں گے کسی سے ہم
تنگ آگئے ہیں روز کی کنڈیکٹر ی سے ہم
ایک اچھا خاصا مرد زنانے میں گھس گیا
گویا کہ ایک چور خزانے میں گھس گیا
رئیس امروہی:
طنز و مزاح کے حوالے سے رئیس امروہی کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے قطعات بہت اہم ہیں جو سالہا سال تک اخبار کی زینت بنتے رہے۔ اسی طرح مجھے لاہوری ضمیر جعفری اور دیگر متذکر شعراء کے علاوہ کنہیا لال کپور پروفیسر محمد عاشق فرقت کاکوروی نے تغمین اور تحریف کے زمن میں ظریفانہ شاعری میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
نذیر احمد شیخ کو دریافت کرنے کا سہرا وزیر آغا کے سر ہے جو ہر مشاش جیسی خوبصورت کتاب دے کر بھی گمنامی میں رہے۔انہوں نے المرگ جیسی صنف کو اردو میں روشناس کرایا۔ انہوں نے طنزیہ مزاحیہ یہ شاعری کے علاوہ تحریر کو بھی قابل قدر کوششیں کیں۔
شبنم رومانی کی مثنوی سیر کراچی اور مسٹر دہلوی کی چشم دید بھی شگفتہ مزاح کی اچھی کاوشیں ہیں۔اُردو مزاحیہ قطعہ نگاری مرزا محمود سرحدی کا نام بہت اہم ہے۔لیکن اس میدان میں جو شہرت و عزت انور مسعود کے حصے میں آئی ہے وہ جدید شعراء کو میسر نہیں شہری زندگی کے مسائل کو طنز کی شدید کاٹ اور مزاح کی آمیزش پیش کرنے کا جو فن ان کو آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں ہیں اسی کی حد تک چست مصرع اور الفاظ کی دروبست میں انہیں کمال حاصل ہیں۔ قطع کلامی کا معروف مجموعہ کلام ہے۔
جدید دور:
گزشتہ سالوں میں طنز و مزاحیہ شاعری میں جو اور نام سامنے آئے ہیں ان میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک نمایاں نام ہے جبکہ سرفراز شاہد نے ڈش انٹینا میں اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔نیاز سواتی نے مزاحیہ شاعری کے ذریعے سرعت کے ساتھ شہرت حاصل کی کی لیکن زندگی نے ان سے وفا نہ کی ورنہ ان کا مزید کلام سامنے آتا وہ عنایت علی خان اور عبید ابوذری کو دیر سے شہرت نصیب ہوئی لیکن انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ فنی حوالے سے باکمال ہے اردو ظریفانہ شاعری میں خالد مسعود کی آمد بلکل نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنے اچھوتے انداز سے سب کو فوری طور پر متوجہ کرلیا انہوں نے پنجابی الفاظ کے استعمال اور حالات و کیفیات کی پیشکش سے مزاح کو نئے انداز متعارف کروایا ہے اگر وہ سنجیدگی سے شاہی پر توجہ دیں تو اپنے لہجے اور تجربے کی تازگی سے ظریفانہ شاعری میں اضافہ دے سکتے ہیں۔
……٭……