ہارون کو گاؤں کی پکی سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے اپنے بچپن کے دن یاد آ رہے تھے۔ وہ بے لوث رشتے ،بے غرض دوستیاں ، یاد آ رہی تھیں۔ جو شہر کی رونق بھری زندگی میں کہیں کھو گئی تھیں لیکن جب آج بہت دل گھبرایا تو اس نے اپنا بچپن پھر سے جینے کے لیے گاؤں کا رخ کیا۔ گاؤں میں اب زیادہ رشتہ دار تو باقی نہیں رہے تھے کیوں کہ اکثر نے ہارون کی طرح رنگین زندگی گزارنے کے لیے شہر کا رخ کر لیا تھا۔ لیکن آج بھی ہارون کا جگری دوست جمشید، گاؤں میں ہی رہتا تھا اور سادہ زندگی گزار کر بہت خوش تھا۔
ہارون کو دیکھ کر جمشید کی آنکھیں بھر آئیں۔ دونوں دوست کتنی دیر تک ایک دوسرے کے گلے لگے رہے۔
”یار سے مل کر دل کو سکون مل گیا۔“ہارون نے اپنی دلی کیفیت بیان کی۔
”جبھی تو تُو اتنی جلدی دوست سے ملنے آگیا۔“جمشید نے شکوہ کیا۔
”بس کیا کہوں، شہر کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں وقت کیسے گزرتا ہے پتا ہی نہیں چلتا۔“
”آج بھی ایک بے ایمانی، ایک جرم یہاں مجھے گھسیٹ لایا ہے۔“
”کون سا جرم؟ کون سی بے ایمانی؟ میں سمجھا نہیں ہارون!“
”شاید تو بھول گیا ہے بچپن کی چوری، لیکن مجھے ابھی بھی یاد ہے۔“
جمشید نے دماغ پر زور دیا تو ایک کے بعد ایک تصویر اس کے سامنے آنے لگی۔
دو نٹ کھٹ سے لڑکے جن کے اسکول کے باہر چچا شکور کی مٹھائی کی دکان تھی، دیسی گھی سے بنی مٹھائی کی خوشبو ان کی بھوک میں اضافہ کردیتی تھی۔ لیکن سوائے جمعرات کے ان کی جیب میں اتنے پیسے نہ ہوتے تھے کہ وہ دونوں ایک لڈو، جلیبی یا پھر قلاقند کا ایک ٹکڑا ہی خرید پاتے۔
ایک دن ان کی کلاس میں ایک لڑکا جاوید نقلی نوٹ لایا جو اس کا ماموں اس کے لیے شہر سے لایا تھا لیکن وہ بالکل اصل جیسے دکھائی دیتے تھے۔
”یہ دو روپے لے اور ہمیں سارے نوٹ دے دے۔“
ہارون نے اسے پیشکش کی۔
”ہاں ہاں لے لو، نقلی روپیوں کا میں کیا کروں گا۔ دو روپے سے کچھ مل تو جائے گا۔“جاوید نے خوشی خوشی پیسے دونوں لڑکوں کے حوالے کردیے۔
”دیکھ جمشید! تُو چچا شکور سے بات نہیں کرنا ورنہ تیرے لہجے سے چچا شکور ہماری چوری پکڑ لیں گے۔“
”ٹھیک ہے میں چپ رہوں گا۔“
پھر تو ان دونوں کا روز کا معمول بن گیا۔ وہ روز سیدھے سادے چچا شکور کو بے وقوف بناتے اور نقلی پیسے دے کر اصلی مٹھائی خرید لیتے اور مزے مزے لے لے کر کھاتے۔
”کیا چچا شکور کی اب بھی وہیں دکان ہے؟“ہارون نے تجسس سے پوچھا۔
”دکان تو وہیں ہیں لیکن اب چچا شکور دکان پر نہیں آتے، ان کابیٹا دکان چلاتا ہے۔“
”چل جمشید، چچا شکور کے پاس چلتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں۔“
”چچا شکور پہچانا مجھے؟“ہارون نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”اب اتنا بھی بوڑھا نہیں ہوا کہ اپنے روزانہ کے گاہک کو بھول جاؤں۔“
ہارون مزید شرمندہ ہوا۔
”آج ہم آپ کے سامنے ایک بات کا اعتراف کرنے آئے ہیں۔“ہارون اور جمشید نے سنجیدگی سے کہا۔
”اعتراف بعد میں کرنا پہلے میرے پاس تمہاری ایک امانت ہے وہ لے لو۔“
امانت کا سن کر ہارون اور جمشید ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔
شکور چچا نے الماری سے ایک بوسیدہ سی تھیلی نکالی جس میں بہت سارے نوٹ تھے۔
”یہ لو تمہاری امانت، اب اسے تم رکھو۔ کافی عرصے سے اسے میں نے سنبھال کر رکھا ہے لیکن اب میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔“
”چچا آپ جانتے تھےہم آپ کو دھوکا دے رہے ہیں، اس کے باوجود آپ ہمیں مٹھائی دیتے رہے۔ کیوں؟“ہارون اور جمشید نے یک زبان ہو کر پوچھا۔
”اس لیے کہ میں تم دونوں بچوں کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ تم دونوں کے چہرے پر مٹھائی کا ایک ٹکڑا پا کر جو خوشی ہوتی تھی، اسے میں ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔“
”چچا آپ ہمیں معاف کر دیں، ہم اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہیں۔“
”بچو! میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا، کبھی اپنے نفس کی بات نہ ماننا۔ وہ جس چیز کی طلب کرے کبھی اسے وہ مت دینا ورنہ تم نفس کے غلام بن جاؤ گے اور پھر تم اپنے نفس کو سکون پہنچانے کے لیے صحیح، غلط کسی کا بھی خیال نہیں رکھو گے۔“
ہارون اور جمشید کو رنجیدہ دیکھ کر چچا شکور کہنے لگے:
”اتنے عرصے بعد آئے ہو،مٹھائی نہیں کھاؤ گے؟“
”چچا نیکی اور پوچھ پوچھ…!“
تینوں کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔