سوال: میر کے تصور غم کی تشکیل پذیری میں ان کے ذاتی غم و آلام کا کس قدر حصہ ہے؟ بحث کریں۔

جواب: میر کا تصورِ غم:
میر کی شاعری میں غم کا مضمون بکثرت وارد ہوا ہے۔ اس لیے انھیں غم و الم کا شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ قدرت سے درد مند دل لے کر آئے تھے۔ بچپن کے حالات و واقعات نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہمیں ان کی زندگی گود سے لے کر گور تک مسلسل دکھوں اور تکلیفوں سے گھری نظر آتی ہے۔ میر رنج والم کے حوالے سیاردو کے معروف نقاد مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں کہ
”میر الم کو ایک نشاط اور درد کو ایک سرور بنا دیتے ہیں۔“
یتیمی کا اثر:
بے وقت کی یتیمی، بے روزگاری، فاقہ کشی، در بدری اور دیگر مصائب نے اُن کی شخصیت میں درد و غم بھر دیے تھے۔ در اصل میر کی شاعری میں جو درد ہے، وہ اس کی حقیقی زندگی کا عکس ہے۔ میر نے جس دور میں آنکھ کھولی اس زمانہ میں ہندوستان شورشوں و فتنوں کے دور سے گزر رہا تھا۔ یعنی جہاں ایک طرف مغلوں کی سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا وہیں دوسری طرف فرنگیوں کی حکومت ملک کے چاروں اطراف اپنے پاؤں پسار رہی تھی۔ دراصل میر کی شاعری انکی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک میں ہو رہی معاشی اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں کی بھی عکاس ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد آب حیات میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے۔“
اسی طرح ایک جگہ ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی مشہور تصنیف ”نقد میر“ میں لکھتے ہیں:
”اگر میر زمانے کی تاریخ نہ لکھی جاتی تو میر کی شاعری پڑھ کر ایک گہری نظر رکھنے والا اس زمانے کی تاریخ مرتب کر سکتا ہے۔“ چند اشعار آپ بھی دیکھیں جن میں میر نے سیاسی افرا تفری ملک کی کمزور ہوتی معیشت اور زوال پذیر ہورہی سلطنت کے حالات کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھا میے دستار
مرثیے دل کے کئی کرکے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں سب پاس ہے نشانی اس کی
ابتدائی تعلیم:
آگرہ میں پیدا ہونے والے میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی۔ میر ابھی نو برس کے تھے کہ ان کے استاد انتقال فرما گئے جس کے بعد میر کے والد نے خود انکی تعلیم و تربیت کرنا شروع کر دی۔ لیکن افسوس کہ چند ماہ بعد انکے والد محمد علی بھی انتقال فرما گئے۔ بس میر کے سر سے انکے والد کا سایہ اٹھتے ہی انکی زندگی میں رنج و الم کا ایک ایسا طویل باب شروع ہوا جس کا اختتام میر کی موت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔والد کی موت کے بعد ان کے سوتیلے بھائی نے ان پر بے تحاشہ ظلم ڈھائے۔ جس کے چلتے میر دل برداشتہ ہو کر تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچ گئے۔ یہاں دہلی میں ایک نواب کی ملازمت اختیار کر لی مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ نواب موصوف بھی ایک جنگ میں مارے گئے تو میر نے ایک بار پھر آگرہ کا رخ کیا۔ تلاش معاش میں وہاں کافی جدو جہد کے باوجود بھی جب گزر بسر کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا تو آپ دوبارہ دہلی روانہ ہوگئے۔جہاں اپنے خالو سراج الدین خان آرزو کے یہاں سکونت اختیار کی۔ چنانچہ سوتیلے بھائی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور آرزو کے کان بھرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں خان آرزو نے بھی آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ان تمام حالات یعنی غم دوراں، غم جاناں سے میر کی طبیعت میں ایک جنوں کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ میر خود ایک جگہ کہتے ہیں:
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا۔
لا تعلقی:
میر نے مذکورہ تنگدستی و مشکلات سے دل برداشتہ ہو کر بالآخر گوشہ عافیت اختیار کرنے کے لیے لکھنؤ کے راستے پر گامزن ہوئے۔ چنانچہ آپ کے لکھنؤ کے سفر کے حالات و واقعات کے بارے میں محمد حسین آزاد اپنی کتاب ”آب حیات“ میں لکھتے ہیں:
”میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھے مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔ حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔“
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح!
وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بے زار کہتے ہیں
ناقدری کا احساس:
میر کی بے اطمینانی کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ وہ بڑے شاعر ہیں لیکن زمانے کے دگرگوں حالات کی وجہ سے ان کی حسب حال پذیرائی نہیں ہو رہی۔ انھیں اپنی انفرادیت کا گہرا احساس تھا۔ ان کے ہاں ایک طرف اپنے کمال اور عظمت کا توانا احساس موجود تھا تو دوسری طرف انھیں اپنی بے کسی اور لاچاری مغلوب کیے رکھتی تھی۔
اجتماعی کرب اور دکھ کی کیفیت:
میر کا غم محض ذاتی نہیں ہے کیوں کہ جہاں سارا عالم زیر زبر ہو رہا ہو وہاں حساس شاعر محض اپنے ذاتی دکھوں کا ماتم نہیں کر سکتا۔ چناں چہ میر کا غم ان کے پورے دور کا غم بن جاتا ہے۔
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا
اے حب چاہ والو! جو آج تاجور ہے
کل اُس کو دیکھیو تم، نہ تاج ہے نہ سر
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
”میر ایک مضطرب روح کے مالک اور منتشر زمانے کے نمایندہ فرد تھے۔ وہ آلام و مصائب، جنھوں نے میر کو اپنے زمانے میں نا مطمئن کیا، خود زمانے کے پیدا کیے ہوئے تھے۔“
طنز و نشتر:
میر جنھیں ادبی دنیا میں آہ کے شاعر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے آپ کے اشعار کو نشتر کہا جاتا ہے کیونکہ میر کی تمام شاعری ان کے دل سے نکلتی ہے اور پڑھنے والے کے سیدھا دل پر اثر کرتی ہے۔ایک چھوٹی بہر کی دلکش غزل کے چند اشعار دیکھیں۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھِیے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اِک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
یے نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
میر کی ایک اور مشہور غزل کے چند اشعار دیکھیں۔ کس خوبصورت انداز میں اپنی بے بسی و لاچاری کا اظہار کیا ہے۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارء دل نے، آخر کام تمام کیا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں، ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کی، یا دن کو جوں توں شام کیا
شعر شور انگیز:
میر کے دیوان کو جہاں سے بھی پڑھنا شروع کر تے ہیں وہیں سے گویا اک شعر شور انگیز نکلتا دکھائی دیتا ہے۔اسی لیے وہ ایک جگہ خود کہتے ہیں:
جہاں سے دیکھیے یک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
تغزل کا ایک اور خوبصورت رنگ دیکھیں کہ
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق میر اک بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
سوز وگداز:
میر کے کلام میں جو تڑپ و کسک، ناکام عشق و محرومیاں اور ناکامیوں کا ایک تسلسل ملتا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کے ساتھ ہی جو خلوص وصداقت اور سوزوگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس نے میر کے غم کو ایک آفاقیت بخشی ہے۔ تبھی تو وہ کہتے ہیں:
سرہانے میر ؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
عشق کا جذبہ:
میر کا عشق عظیم تر و بے حد وسیع ہے اور عشق کا جذبہ ان کے سنیے میں حقیقتاً رچ بس گیا ہے۔ میر قلندر و صوفیا کی برادری میں ایسے چنندہ لوگوں میں شامل ہیں جو اس تمام کائنات کوہی عشق کا مظہر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ خود کہتے ہیں:
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اک درد جگر میں ہوتا ہے
ہم راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے
میر کی بد دماغی:
جب میر احساس بے کسی کے دباؤ میں آتے ہیں تو پھر ہر ایک سے الجھتے ہیں اور اپنے زمانے سے ٹکراتے ہیں اور یوں اُن کے ہاں بے دماغی اور بد دماغی کا رویہ جنم لیتا ہے۔ انھیں اس کا خود بھی احساس تھا:
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
تھا میر بے دماغ کو بھی کیا ملا دماغ
یاس کا رنگ:
میر کے ہاں یاس کا رنگ قدرے تیکھا ہے تاہم ان کے غم انگیز اشعار پڑھ کر طبیعت یاسیت کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اُن کا غم انتہائی پُر لطف معلوم ہوتا ہے اور ان کے غم میں شریک ہونے کو جی چاہتا ہے۔ ان کے لہجے کا دھیما پن اور پُر سوز انداز قارئین کے دلوں میں یاسیت کے بجائے نرماہٹ پیدا کرتا ہے۔ ان کے غم میں خلوص اور سچائی ہے۔ ان کے غم میں جی مار کر بیٹھ جانے کی بجائے حرکت و ہنگامہ اور زندگی کی حرارت پائی جاتی ہے۔
بے قراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے
کچھ تو ہے میر کہ اک دم تجھے آرام نہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بے کار پھرا کرتے ہیں
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور نگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر میرے دیواں کا
……٭……٭……٭……

Leave a Comment