جواب: میر تقی میر:
میر تقی میر کی پیدائش 1773ء میں آگرہ میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا اور اپنے زہد و تقویٰ کی بنا پر علی متقی سے مشہور تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان اللہ سے حاصل کی۔ ان کے انتقال کے بعد خود اُن کے والد نے ان کی تعلیم و تربیت کی۔ جب میر گیارہ برس کے قریب پہنچے تو ان کے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہاں سے میر کی دنیا اندھیری ہوگئی اور ان کی حیات میں حزن و ملال اور درد و الم کے طویل باب کی شروعات ہوئی۔ ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے باپ کے کل ترکہ پر قبضہ کرلیا۔ گیارہ برس کی عمر جو کھیلنے، کودنے،گھومنے،ہنسنے اور اسکول و مدرسہ جانے کی عمر ہوتی ہے، اس وقت میر غم کا پہاڑ اٹھائے پھرتا رہا۔ بے آسرا،بے سہارا اور تحفظ سے محروم تلاش معاش کے لیے آگرہ سے نکلا اور تن تنہا قافلوں کے ساتھ سفر کرتا،صعوبتیں جھیلتا، بد وضع سراؤں میں قیام کرتا اور بچتا بچاتا 1734ء میں دلی پہنچا۔ اس وقت دلی کی تخت پر محد شاہ بیٹھا تھا۔ ہر طرف عیش و عشرت اور شباب و کباب کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں۔ حسینوں اور جمال کی کثرت تھی۔ دلی کے لال قلعہ میں تاج پوشی اور گردن تراشی کے تماشے نے سلطنت مغلیہ کا حال بہت پتلا کر رکھا تھا۔ گویا بادشاہ دلی کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ دلی کی رنگینیوں اور تخت و تاراج کو دیکھ کر میر دنگ رہ گیا۔ اجنبی شہر،اجنبی لوگ، بے یار و مددگار داغ یتیمی سے رنجور،عدم تحفظ اور بے سروسامانی کے احساسات سے تھکا ہارا میر محمد شاہی عہد کی دلی میں تلاش معاش کے لیے گھومتا پھرا لیکن جلد ہی ایک نواب کے پاس ملازم ہوگئے۔ نواب صاحب نادر شاہی حملہ 1739ء میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے لیکن گزر اوقت کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے سوتیلے بھائی کے خالو سراج الدین آرزو کے یہاں ٹھہرے۔ سوتیلے بھائی کے اُکسانے پر خان آرزو بھی درپے آزار ہوگئے۔ ان پے در پے صدمات کی وجہ سے انھیں جنوں کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
ابتدائی تعلیم:
آگرہ میں پیدا ہونے والے میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی۔ میر ابھی نو برس کے تھے کہ ان کے استاد انتقال فرما گئے جس کے بعد میر کے والد نے خود انکی تعلیم و تربیت کرنا شروع کر دی۔ لیکن افسوس کہ چند ماہ بعد انکے والد محمد علی بھی انتقال فرما گئے۔ بس میر کے سر سے انکے والد کا سایہ اٹھتے ہی انکی زندگی میں رنج و الم کا ایک ایسا طویل باب شروع ہوا جس کا اختتام میر کی موت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔والد کی موت کے بعد ان کے سوتیلے بھائی نے ان پر بے تحاشہ ظلم ڈھائے۔ جس کے چلتے میر دل برداشتہ ہو کر تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچ گئے۔ یہاں دہلی میں ایک نواب کی ملازمت اختیار کر لی مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ نواب موصوف بھی ایک جنگ میں مارے گئے تو میر نے ایک بار پھر آگرہ کا رخ کیا۔ تلاش معاش میں وہاں کافی جدو جہد کے باوجود بھی جب گزر بسر کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا تو آپ دوبارہ دہلی روانہ ہوگئے۔جہاں اپنے خالو سراج الدین خان آرزو کے یہاں سکونت اختیار کی۔ چنانچہ سوتیلے بھائی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور آرزو کے کان بھرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں خان آرزو نے بھی آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ان تمام حالات یعنی غم دوراں، غم جاناں سے میر کی طبیعت میں ایک جنوں کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ میر خود ایک جگہ کہتے ہیں:
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا۔
گوشہ عافیت:
میر نے مذکورہ تنگدستی و مشکلات سے دل برداشتہ ہو کر بالآخر گوشہ عافیت اختیار کرنے کے لیے لکھنؤ کے راستے پر گامزن ہوئے۔ چنانچہ آپ کے لکھنؤ کے سفر کے حالات و واقعات کے بارے میں محمد حسین آزاد اپنی کتاب ”آب حیات“ میں لکھتے ہیں:
”میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھے مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔ حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔“
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح!
وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بے زار کہتے ہیں
وفات:
میر کا زمانہ بڑا پر آشوب زمانہ تھا ہر چہار جانب محتاجی و تنگدستی اور درد و الم کو سہنے کے بعد تھک ہار کر میر گوشۂ عافیت کی خاطر لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا اور میر راحت و آرام کی سانس لینے لگے لیکن کچھ اسباب و عوامل کی بنیاد پر ناراض ہوکر دربار کو خیر آباد کہہ دیا۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی اور شریک حیات کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کردیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87سال کی عمر پاکر 1810ء میں اپنے آبائی وطن سے دور لکھنؤ کے آغوش میں ہمیشہ کے لیے سوگیا۔ (تاریخ ادب اردو صفحہ 125)
ذکر میر:
میر کی حیات مبارکہ کے متعلق جان کاری کا سب سے اہم ذریعہ ان کی سوانح عمری“ذکر میر“ہے۔ یہ ان کی بچپن سے لکھنؤ میں قیام کے آغاز کی مدت پر محیط ہے۔ میر نے اپنی زندگی کے کچھ سال دلی میں گزارے۔ اس زمانے میں وہ جس محلہ میں رہتے تھے اسے“کوچہ چلم”کہا جاتا تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور زمانہ کتاب“آب حیات”صفحہ 289 پر رقمطراز ہے کہ میر تقی میر جب دلی سے لکھنؤ روانہ ہورہے تھے، اس وقت معاشی تنگ دستی اور غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس گاڑی کا کرایہ بھی نہ تھا۔ مجبوراً ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ لکھنؤ پہنچے تو انہیں جانکاری ملی کہ یہاں آج ایک شاندار مشاعرہ منعقد ہونے والا ہے۔ میر نے اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جاکر شریک ہوگئے۔ ان کی وضع قدیمانہ تھی جب وہ مجلس میں داخل ہوئے تو پورا مجمع ان کی ہیئت کو دیکھ کر کھلکھلا ہنسنے لگا۔ میر صاحب بے چارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف کبارے میں جاکر بیٹھ گئے۔ شمع جب ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی۔ کچھ لوگوں کے قلوب و اذہان میں یہ سوال پیدا ہورہے تھے کہ موصوف کا وطن کہاں ہے؟میر صاحب نے برجستہ یہ قطعہ کہہ کر غزل طرحی میں شامل کیا:
کیا بود باس پوچھو ہو پورب کیساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو حال معلوم ہوا، بہت معذرت کی۔ عفو تقصیر چاہی، کمال کے طالب تھے صبح ہوتے ہوتے پورے شہر میں ہنگامہ مچ گیا کہ میر صاحب تشریف لائے ہو ئے ہیں۔
میر کا سماج اور دلی کی بربادی:
ہر شاعر اپنے سماج اور ماحول کا پھل ہوتا ہے۔ ان کے سامنے وقوع پزیر ہونے والے واقعات، حادثات، ان کی ذاتی زندگی میں رونما ہونے والے تجربات اور اس متعلق اس کے تاثرات ہی حقیقت میں ان کی ادبی ذوق و شوق کی تربیت کرنے ان کی شاعری کو جلا بخشنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کی الٹ پھیر کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر شاعر اپنی افکار و نظریات کو مختلف رنگ میں رنگ کر ایک خوبصورت غزل تیار کرتے ہیں اور اس طرح ان کی شاعری وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ میر تقی میر کا وجود اس دنیا میں ایک ایسے زمانے کے اندر ہوا جو سیاسی، سماجی، ملکی اور معاشرتی اعتبار سے سخت انتشار اور افرا تفری کا دور تھا۔ مغل حکومت دن بدن کمزور ہو رہی تھی۔ جو شخص بھی اپنی ذاتی قابلیت اور ریشہ دوانیوں سے یا اپنے خلیفوں کی مدد سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہو جاتا۔ در اصل وہی حکمران وقت تھا، ہندوستان کے ڈھیر سارے صوبے خودمختار ہو چکے تھے، پورا ملک لوٹ مار کا شکار تھا۔ میر قیام دلی کے زمانہ میں لوٹ مار اور قتل و خون کے ایسے بے شمار مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی ذات پر سہے۔ لٹے پٹے شہروں،کاروانوں اور انسانوں کے یہ منظر میر کی شاعری میں ایک المیہ رنگ پیدا کردیا۔ اس رنگ کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ بعد ازاں وہ علم سے محبت کرتا ہوا نظر آنے لگا۔ اس کی شاعری میں ایک سوگ وار ماتمی لے مستقل طور پر سنائی دینے لگی۔ دلی کی بربادی، عزیزوں اور خاندانوں کی تباہی، آئے دن کے انقلاب، مرہٹوں، جاٹوں، درانیوں کی قتل و غارت گیری میر نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ میر کی شاعری میں خون کے یہ دھبے آج تک نمایاں ہیں۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اسے
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
مشاہدے کا اثر:
میر زندگی کے نہایت بھرپور تجربہ کا شاعر تھا۔ ایک ایسا شاعر کہ جس نے اپنے عہد کے کرب ناک مناظر دیکھے۔ وہ ہمارے تہذیبی اور تاریخی حافظے کا شاہد تھا۔ اس نے تاریخ کو نہایت تیزی سے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا۔ اس عذاب کو اس نے اپنی ہڈیوں سہا۔ وہ تہذیبی زوال اور آشوب کا مورخ بھی تھا اور نوحہ خواں بھی ان کے اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا ہر ایک شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔
میر کا درد و الم:
زندگی کے بارے میں میر کا نقطۂ نظریہ حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے درد و الم سے عبارت ہے جو اپنے اندر تفکر اور تخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ میر کا تصور زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں حزن و ملال کا وجود بہت زیادہ ہے مگر یہ حزن و ملال ہمیں زندگی سے نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ میر کا کمال فن یہی ہے کہ اس نے کانٹوں پر زندگی بسر کرنے کے بعد بھی زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس دلایا۔
میر کا تصور غم:
میر کا تصور غم تخلیقی اور فکری ہے یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط، سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ حزن و الم سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اسے فرحت و نشاط بنادیتے ہیں۔ میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمارے احساسات و جذبات اور افکار و نظریات میں وہ برداشت اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہا جاتا ہے۔
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ محلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کی دردمندی:
میر کی شعر و شاعری میں درد مندی حزن و الم کا دوسرا نام ہے۔ دردمندی سے مراد زندگی کے اندر درپیش آنے والے تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور حتی المقدور ان تلخیوں کو دور کرنے کی سعی و کوشش کا نام ہے۔ درد مندی ان کی حیات مبارکہ کے تضادات سے جنم لیتی ہیں۔ درد مندی کا منبع و مصدر قلب ہے۔ میر کہتے ہیں:
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ ہے
دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
درد مندی کے محرکات:
میر کا زمانہ قتل و خون ریزی کا زمانہ تھا۔ ہر طرف فتنہ و فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس چیز نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔ میر اس تباہی کے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہ خود اس تباہ کن معاشرہ کے ایک فرد تھے جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی تباہی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا اور اس کو جوڑنا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کے مترادف تھا۔ میر نے اس سماج کے اثرات شدت سے محسوس کیے ہیں۔ ان کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں۔ لٹے ہوئے نگروں،شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات، بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں،زمانے کے گرد و غبار کی دھندلاہٹیں،تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میر کے یہاں موجود ہیں:
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں آگ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہیں چراغ ایک
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گہا
میرکی بلند حوصلگی:
یہ ممکن ہی نہیں کہ میر کو زندگی سے بے زار شاعر کہا جائے کیونکہ ان کا غم دیگر شعرا کے غموں سے مختلف ہے۔ ان کا غم ایک مہذب اور درد مند آدمی کا غم ہے جو زندگی کے تضاد کو گہرے طور پر محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درد و الم کے ساگر میں غوطہ زن ہونے کے باوجود بھی میر بے حوصلہ نہیں ہوتے۔ وہ سپاہیانہ دم خم رکھتے ہیں۔ فوجی ساز و سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں جس میں بزدلی بہر حال ایک عیب ہے میر کہتے ہیں:
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی:
اردو شعر و شاعری کی دنیا میں بے ثباتی دنیا کا احساس بہت مشہور و معروف ہے۔ اس موضوع پر لگ بھگ تمام شعرا نے طبع آزمائی کی ہے لیکن خاص طور سے میر تقی میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بہترین اسلوب اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ملتا ہے۔ جس کی اصل وجہ اس عھد کے غیر یقینی اور ہنگامی صورت حال تھے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں دنیا سے بے ثباتی کے موضوعات پروان چڑھے۔
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
نمود کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بلبلا تھا پانی کا
جس سر کو ہے یاں غرور تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
خلاصہ کلام:
میر تقی میر نے ڈھیر سارے اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان تمام سخن کو یہاں پہ ذکر کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن ان کے مجموعہ کلام کو سامنے رکھتے ہوئے اتنی بات تو ضرور کہنا چاہوں گا کہ میر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں۔ اگر دنیا میں ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے، جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میں ضرور داخل ہوگا کیونکہ میر نے اپنی تخلیقی قوتوں سے زندگی کا رس نچوڑ کر اسے شاعری کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ اس لیے جب تک اردو زبان و ادب اس دنیا کے اندر پڑھی، لکھی اور بولی جائے گی، اس وقت تک لوگوں کے لسان و زبان پر میر کے اشعار رہیں گے۔
……٭……٭……٭……