سوال: کلام میر میں عروض و آہنگ کی کیا اہمیت ہے؟ تبصرہ کریں۔

جواب: کلامِ میر میں عروض و آہنگ کی اہمیت:
میر لفظوں کی آوازوں، بحر و وزن، قافیوں کی تکرار اور لفظوں کی خاص ترتیب سے ایک مخصوص لہجے کو تخلیق کرتے ہیں۔ میر کی غزلوں کاترنم بھی عوامی لب و لہجے سے قریب تر ہے۔ میر نے ردھم کو بڑی خوبی سے برتا ہے۔ وہ الفاظ کو اس طرح سے جوڑ دیتے ہیں کہ پڑھنے والا مصرع پورا پڑھنے سے پہلے اٹک ہی نہیں سکتا۔ وہ اس طرح کے الفاظ ایک دوسرے کے قریب رکھتے ہیں کہ ایک حرف کی آواز ختم ہونے نہیں پاتی کہ اس سے اگلے حرف کی صدا نکلنے لگتی ہے۔ یہ انتخابِ الفاظ کا زبردست ملکہ اور قدرتِ سخن کی بات ہے۔ وہ سادہ، بلیغ، پُر اثر اور ترنم سے بھرپور الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں دھیمی دھیمی موسیقی ملتی ہے۔ ان کے ہاں نہایت فن کارانہ نظم و ضبط ملتا ہے۔ بے ساختگی اور روانی اس درجہ بہتر ہے کہ شعر نشتر بن جاتا ہے۔ روانی نے اُن کی شاعری میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دی ہیں۔ میر خود بھی روانی کو شعر کی بنیادی خوبیوں میں شمار کرتے ہیں:
میر دریا ہے، شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

روانی سے مراد یہ ہے کہ شعر کا ہر لفظ ایک دوسرے سے اس طرح ہم آہنگ ہو کہ کوئی لفظ صوتی اعتبار سے اجنبی محسوس نہ ہو بلکہ ہر لفظ کا آہنگ ایک دوسرے لفظ کے آہنگ سے جڑا ہوا ہو۔ میر کا کلام روانی کے اعتبار سے کمال کے درجے تک پہنچا ہوا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر سید عبداللہ میر کے کلام میں لطف و اثر کا سرچشمہ ترنم کو قرار دیتے ہیں۔ میر ترنم پیدا کرنے کے لیے مترنم الفاظ کے علاوہ مترنم بحریں بھی استعمال کرتے ہیں۔ میر نے غزل کی تمام مروجہ بحور کا استعمال کیا ہے لیکن چھوٹی بحریں اور طویل بحریں اُن کے فنی کمالات کی بہتر ترجمانی کرتی ہیں۔ اُن کے ہاں چھوٹی بحر والی غزلیں جذبے کی شدت کا اظہار کرتی ہیں بقول محمد حسن عسکری:
”میر چھوٹی بحروں میں کوشش کرتے ہیں کہ ساری زندگی کا جوہر نچوڑ لیں، اس زندگی کا جو صرف ان کے نہیں بلکہ سبھی کے تجربے میں آتی ہے۔“
اس ضمن میں چند شعر دیکھیے:
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
نظر میر نے کیسی حسرت سے کی
بہت روئے ہم اُس کی رخصت کے بعد
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی
حال بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں! خوش رہو ہم دعا کر چلے
دیکھ سیلاب اس بیاباں کا
کیسا سر کو جھکائے جاتا ہے

احساسات کی آئینہ دار:
طویل بحروں والی غزلیں لطیف اور ہلکے احساسات کی آئینہ داری کرتی ہیں۔ میر کی طویل بحروں والی غزلوں کو ڈاکٹر سید عبداللہ گیت نما گزلیں کہتے ہیں۔ یہ غزلیں انتہائی مترنم اور پُر لطف ہیں۔ میر نے طویل بحروں سے اتنے غیر معمولی شغف کا اظہار اس لیے کیا کہ وہ ان کے ذریعے اپنے مخصوص اندازِ شاعری کو چمکا سکیں۔ میر سے زیادہ اُردو کے کسی شاعر نے طویل بحر کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ طویل بحر سے اُن کے انداز، ان کے لب و لہجہ اور ان کی آواز کو غیر معمولی مدد ملی ہے۔ ان کی طویل بحر والی غزلوں میں جذبات کسی قدر سہولت سے ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان غزلوں میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت ایک ایسے کھلے میدان میں آ نکلی ہے جس کی فضا کشادہ ہے۔
دل مضطرب سے گزر گئے شب وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا، نہ فراغ تھا، نہ شکیب تھا نہ قرار تھا
نہیں تازہ دل کی شکستگی، یہی درد تھا یہی خستگی
اسے جب سے ذوق شکار تھا، اُسے زخم سے سروکار تھا
دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھ طریق غزالوں کا
وحشت کرنا شیوہ ہے کچھ اچھی آنکھوں والوں کا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارا جانے ہے

ان طویل بحروں والی غزلوں میں عام لوگوں کی حقیقی زندگی کی فطری زبان قدرے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ غزلیں ہندوستانی مزاج سے ان کے تعلق خاطر کو ظاہر کرتی ہیں اور ان میں ولولہ انگیز موسیقی پائی جاتی ہے۔
گھر سے اٹھ کر کونے میں بیٹھا، بیت پڑھے وہ باتیں کیں
کس کس طور سے اپنے دل کو، اس بن بہلاتا ہوں
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے

بحر کا استعمال:
میر نے لکھنؤ کے زمانے میں اس بحر کو کثرت سے برتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے مختلف تجزیوں کے بعد یہ بات واضح کی ہے کہ یہ بحر نہ فارسی ہے نہ ہندی بلکہ خالص اُردو والوں کی اختراع ہے۔ اگرچہ میر سے پہلے علی عادل شاہ اور جعفر زٹلی نے اس بحر کو استعمال کیا لیکن میر کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسے غیر معمولی قوت اور حسن کے ساتھ کثرت سے استعمال کیا۔ میر نے جو بحر اختیار کی ہے وہ بہت سبک، شیریں، مترنم اورموسیقی کے مزاج سے مناسبت رکھنے والی اور لطیف جذبات کی ترسیل کرنے والی ہے۔ میر کی یہ بحر ”کلیات میر“ میں جس تنوع اور رنگا رنگی کے ساتھ ملتی ہے اس کی مثال نہ ہندی میں ہے اور نہ فارسی میں۔ اگرچہ میر کی بحر سے تھوڑی بہت مشابہت رکھنے والی بحریں ہندی اور فارسی میں موجود ہیں لیکن کوئی بحر ایسی نہیں جسے اس کی واحد شکل کہا جا سکے۔ چوں کہ اس بحر کو میر نے عام کیا اور اسے نہایت کامیابی اور تنوع کے ساتھ برتا لہٰذا علمائے عروض اسے ”بحر میر“ کا نام دیتے ہیں۔
دل تڑپے ہے، جان گھلے ہے، حال جگر کا کیا ہو گا
مجنوں مجنوں لوگ کہیں ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا
رات گزری ہے مجھے نزع میں روتے روتے
آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
گھر ہے کسو گوشے میں، تو مکڑی کا سا گھر ہے

لفظوں کی خاص ترتیب سے پیدا ہونے والی آوازیں، بحروں کا آہنگ، قافیوں کا استعمال اور ردیفوں کی تکرار سے ایک ایسی فضا بنتی ہے جو قارئین کو مسحور کر دیتی ہے۔
خوب صورت تخلص:
قدرت کی طرف سے میر کو جیسا خوب صورت تخلص عطا ہوا ہے وہ کسی اور اُردو شاعر کو نصیب نہیں ہو سکا۔ ان کے بہترین اشعار کا انتخاب کیا جائے تو ان میں ایسے اشعار کی خاصی بڑی تعداد ملتی ہے جن میں ان کا تخلص استعمال ہوا ہے۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
”جب وہ اپنے تخلص کے ساتھ خود کو مخاطب کرتے ہیں تو اُن کا تخلص زندگی کا استعارہ بن جاتا ہے۔ یہاں وہ اپنی ذات کی انتہائی بلندیوں کو پہنچ کر اس سے الگ بھی ہو جاتے ہیں۔ اور میر، میر صاحب، میر جی، میر جی صاحب، بن کر ایک الگ شخصیت بن جاتے ہیں۔ اس لیے اکثر مقطعوں میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد تقی، میر کو اپنی ذات سے الگ کر کے اُسے آواز دے رہے ہیں اور اسی سے مخاطب ہیں۔“
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر
میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا
میر صاحب رُلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

آہنگ اور موسیقیت میر کی شاعری کا خاص جوہر ہیں:
کلیم الدین احمد نے میر کی ان خصوصیات سے متاثر ہو کر کیا خوب کہا ہے۔ مقولہ ملاحظہ ہو۔
”میر سید ھے سادھے مختصر،نرم اور ملائم لفظوں میں اپنے اچھوتے احساسات اور تاثرات کو صفائی اور درد انگیزی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ان کے اشعار میں ایسا ترنم ہوتا ہے کہ گویا ان میں روح موسیقی آبسی ہے۔“
شاعری کے استاد:
میر اردو ادب میں غزل کے سب سے بڑے استاد ہیں۔ ہر دور میں ان سے متاخرین نے فیض اٹھایاہے۔ویسے تو میر نے مختلف اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل میں ان کا رتبہ سب سے بلند ہے۔سچ یہ ہے کہ تغزل جس کامیابی اور خوش اسلوبی سے میر ؔ نے نبھایا ہے،وہ ان ہی کے حصے کی بات ہو گئی ہے۔یا یوں کہییے کہ غزل ان کا مزاج بن گئی تھی۔احساس کی شدت، تجربے کی گہرائی، مضامین کی شدت، آلامِ روزگار اور غمِ عشق وغیرہ وہ خصوصیات ہیں، جنہوں نے جمع ہو کر میر ؔ کو شہنشاہِ غزل اور غزلوں کا امام بنادیا ہے جس کی بنا پر میر ؔ اردو شاعری کے افق پر ہمیشہ ایک سورج کی طرح چمکتے رہیں گے۔
لفظوں کی مہارت:
الفاظ کی اہمیت کا میر نے ایک ہی طرح احساس یا اظہار نہیں کیا، اس کی جتنی امکانی صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے معانی میں تہ داری اور مفہوم میں کیف و اثر پیدا ہو سکتا ہے، ان سب کو میر نے پورے سلیقے سے برتا ہے۔ وہ کبھی تکرارِ الفاظ سے لطف پیدا کرتے ہیں، کبھی لب و لہجہ سے، کبھی مبالغے سے اور اکثر معمولی الفاظ سے بڑے مفاہیم کی طرف اشارے کرتے ہیں۔ کبھی فرسودہ مضامین کو نئے پن سے پیش کرتے ہیں۔ کبھی تشبیہات و استعارات میں ندرت اور نزاکت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی زبان کی فصاحت اور سادگی، سوز وگداز، مضامین کی جدت اور تاثیر ایسی خوبیاں ہیں جو اُردو کے کسی دوسرے شاعر میں نہیں پائی جاتیں۔ ٭

Leave a Comment