سوال: میر کی غزل کے فنی پہلو پر سیر حاصل تبصرہ کریں۔

جواب:میر کا اُسلوب:
اُسلوب اور انداز کے اعتبار سے میر کی حیثیت ایک ایسے شاعر کی ہے جس سے بعد آنے والے کئی ایک شعرا نے کسب فیض کیا۔ تقریباً ہر قابلِ ذکر شاعر کے تصورات، اسالیب، زبان و بیان اور لب و لہجہ پر کلیاتِ میر کے اثرات کبھی واضح اور کبھی غیر واضح انداز میں ملتے ہیں۔ میر کے ہاں غالب کے رنگ کے نقوش بھی موجود ہیں۔ مومن اور داغ دہلوی کے رنگ کے ساتھ ساتھ خارجیت کا وہ انداز بھی ملتا ہے جسے لکھنؤ اسکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ البتہ لکھنوی شعرا میر کی عظمت کا احترام اور اعتراف کرنے کے باوجود میر کے فکر و فن سے اثر قبول کرنے سے بوجوہ گریزاں رہے۔ علامہ اقبال کے نئے اُسلوب اور گھمبیر کیفیات والی غزل کے نشانات بھی میر کے ہاں ملتے ہیں اور بعض مقامات پر خیالات ی حیرت انگیز مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
شہنشاہِ غزل:
میر تقی میر اردو ادب کے سب سے بڑے شاعر ہیں وہ ہر عہد میں شہنشاہ غزل کہلاتے گئے۔ غزل کی دنیا میں کوئی بھی شاعر میر کے مقام تک نہیں پہنچ سکا نہ ہی کسی نے میر کی ہمسری کا دعوی کیا۔ میر کے بعد آنے والے تقریباً تمام شعااء نے میر کی پیروی کو ہی عظمت سمجھا۔
غم و حزن:
میر کا تصور، زندگی کے بارے میں بڑا واضح ہے کہ ان کا زندگی کی بارے میں نقطہ نظر حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے غم کا نام ہے جو اپنے اندر تفکر اورتخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ یہ غم ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کا پرتو نہیں رکھتا۔ اس غم میں تو سوچ، غور و فکر اور تفکر کو دخل ہے۔ میر کے متعلق یہ کہنا بھی درست نہیں کی میر قنوطی شاعر ہیں یا محض یاسیت کا شکار ہیں۔ محض یاس کا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات تو یہ ہے کی انسان یاس و غم کا شکار ہونے کے باوجود زندگی سے نباہ کیسے کرتا ہے۔ یہی نباہ اس کا تصور زندگی کی تشکیل دیتا ہے۔ میر کا تصور ِ زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں غم و الم کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ مگر یہ غم و الم ہمیں زندگی سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے۔ اس میں زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوا ن کیا
چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
دل کو میر ے ہے اضطرا ب بہت
میر کا تصور غم:
میر کا تصور غم تخیلی اور فکری ہے۔ یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط، سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ غم سے سرشار ہو کر اسے سرور اور نشاط بنا دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری ان کے تصورات غم سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”میر نے غم عشق اور اس کے ساتھ غم زندگی کو ہمارے لیے راحت بنا دیا ہے۔ وہ درد کو ایک سرور اور الم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ میر کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہتے ہیں۔
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں
خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے

یہ مہلت کم جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے

سادگی، خلوص، صداقت:
میر نے فنی خلوص کو پوری صداقت سے استعمال کیا ہے۔ فنی خلوص سے یہ مراد ہے کہ شاعر زندگی کے واقعات کو جس طرح دیکھتا ہے، اسی طرح بیان کرے۔ میر کا انداز اسی لیے مقبول ہے کہ اس میں صداقت اور خلوص اور تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں۔ میر نے خیال بند شاعروں کی سی معنی آفرینی سے کام نہیں لیا۔ محض تخیل کے گھوڑے نہیں دوڑائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میر عوام کا شاعر ہے۔ اس کے آس پاس کی زندگی سے درد و غم کے مضامین کے چشمے ابل رہے تھے۔ میر نے انہی مضامین کو سادہ الفاظ میں بے تکلف انداز میں پیش کیا۔
ہم آہنگی:
میر نے سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کا خاص میدان غزل ہے،ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعور فن ان کی غزل کی اساس ہے۔ان کی شاعری ذاتی اندوہ کی حدوں سے گذر کر ہمہ گیر انسانی دکھ درد کی داستاں بن گئی ہے۔ان کا غم سطحی اضطراب اور بے صبری کا مظہر نہیں بلکہ مسلسل تجربات اور ان کے روحانی رد عمل کا نتیجہ ہے،جسے وہ درد مندی سے تعبیر کرتے ہیں۔اور جو غم سے بلند تر روحانی تجربہ کا نام ہیاور اپنی ارفع صورت میں ایک مثبت فلسفہ حیات بن جاتا ہے۔میر کا غم جو بھی تھا،ان کے لئے فنی تخلیق کا ذریعہ اور اعلی بصیرتوں کا وسیلہ بن گیا۔غم و الم کے با وجود میر کے یہاں زندگی کا ایک ولولہ پایا جاتا ہے۔ان کے غم میں بھی ایک طرح کی گہما گہمی ہے۔احساس غم کی اس تطہیر نے میر کی شاعری کو نئی رفعت عطا کی ہے۔
لطیف جذبات کا رسیلا پن:
فنی سطح پر ان کے شعر میں الفاظ اپنے موضوع اور مضمون سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ان کے الفاظ میں لطیف جذبات کا رسیلا پن ہے۔ ان کے شعروں میں پیکر تراشی اور خیال انگیزی بھی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔انہوں نے خوبصورت فارسی تراکیب اردو میں داخل کیں۔میر کو شعر میں ایک خاص صوتی فضا پیدا کرنے کا خاص ملکہ ہے۔ان کے شعروں میں ہر لفظ موتی کی طرح جڑا ہوتا ہے۔میر اپنے قاری کو ایک طلسم میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے سحر سے نکل پانا مشکل ہوتا ہے۔
غنائیت اور موسیقی:
میر کی غزل میں غنائیت اور موسیقیت اپنے اندر فنی دل کشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے۔ میر کے انداز میں نغمگی اور ترنم مسلم ہے اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے۔ ان کا کمال فن یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لیے مختلف بحروں کا انتخاب کر کے نغمگی پیدا کرتے ہیں۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
خطابیہ انداز:
میر کو خطاب اور گفتگو کا انداز بڑا پسند ہے۔ کبھی وہ خود سے مخاطب ہو کر ”باتیں“ کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے شخص سے۔ کبھی ان کا تخاطب بلبل سے ہے اور کبھی شمع و پروانہ سے۔ ان تمام حالتوں میں شعر میں بات چیت اور بے تکلفی کا رنگ بہر حال قائم رہتا ہے۔ ایک مانوس اور محبت بھری آواز کانوں سے ٹکراتی ہے جو اپنے پیرایہ ادا کی کشش سے قاری یا سامع کو فوراً اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہے اور وہ خود بخود میر صاحب کی ان بے ساختہ اور پر خلوص ”باتوں“ سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ ان کی غزلیات میں یہ رنگ خوب نظر آتا ہے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

صوفیانہ رنگ:
میر کی غزل تصوف سے بھری پڑی ہے۔ آپ رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے۔ میر کے ہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں ہے۔ اس تجربے نے میر کے ذہن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ میر کی نظر صوفی عین صوفی کی نظر ہے۔
ہر صبح مرے سر پہ قیامت گذری
ہر شام نئی ایک مصیبت گذری
میر کا طنز:
میر کا طنز ان کی طبیعت کا آئینہ ہے۔ جب کوئی بات طنز کے ساتھ کہتے ہیں تو اس سے محض بے تکلفی نہیں ٹپکتی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عالم یا اس تجربہ سے گزر چکے ہیں۔ ان کا طنز اس شدید اور عمیق تعلق کا نتیجہ ہے جو بے تکلفی کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر عمر بھر قائم رہتا ہے۔ ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہوتی ہے جو پختہ مغزی کی علامت ہوتی ہے۔ ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پرکیف نرمی ہوتی ہے۔
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں
میر کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
 میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں 

حال بد گفتنی نہیں میرا 
تم نے پوچھا تو مہربانی ہے

تشبیہات و استعارات:
اپنی غزلوں میں میر نے اپنے شیوہ گفتار کو زیادہ موثر اور دلکش بنانے کے لیے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے۔ یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس لیے کہ ان کے خالق کے خون میں گرمی اور حرارت ہے اور وہ پوری صداقت اور پورے فنی خلوص سے اپنی زندگی بھر کے تجربات و تاثرات کو ان تشبیہات و استعارات کی صورت میں پیش کر رہا ہے۔ ان میں کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
حکیمانہ انداز:
میر کی غزل میں عام اخلاقی مضامین بھی ہمارے تصوف کے اہم مسائل ہیں۔ یہ لوگ نیکی، شرافت، دیانت، صدق و امانت اور دیگر چھوٹے چھوٹے اخلاقی مسائل پر اس انداز سے گفتگو کرتے ہیں کہ ایک طرف تو ان مسائل کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور دوسرے ان کا انداز اس قدر دلنشین ہوتا ہے کہ قاری پر اثر بھی پڑتا ہے۔ میر تقی میر کی شاعری میں حکیمانہ انداز پایا جاتاہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
تصور محبوب:
یہ بات تو طے ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے عشق نہیں، بھرپور عشق کیا تھا۔ اور محبوب سے ان کے احساسِ جمال، قوتِ تخیل او ر تصو ر حسن پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کا محبوب خود حسن و نور کا منبع ہے اور روشنی کی طرح شفاف۔ میر کا محبوب صرف روشنی ہی نہیں بلکہ جسم، خوشبواور رنگ و بو کا پیکر بھی ہے۔ وہ مادی کثافتوں سے منزہ اور حسن محض ہے۔
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

     اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
     چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا

تصور عشق:
میر کے ہاں عشق آداب سکھاتا ہے۔ محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام ہمیشہ المیاتی اور دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے۔ یہ عشق ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ اسی عشق سے میر نے زندگی کا سلیقہ اورحوصلہ سیکھا ہے۔ اسی عشق نے ان کی زندگی میں حرکت و عمل اور چہل پہل پیدا کی۔ میر کے خیال میں زندگی کی ساری گہما گہمی اور گونا گونی اسی عشق کی وجہ سے ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کار خانہ قدرت بے کار، خاموش، بے حرکت اور بے لذت ہوتا۔
ہم طور ِ عشق سے واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے دل کو کوئی ملا کرے ہے
آفاقی غم:
میر نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ اپنا غم دنیا کے پر غم پر حاوی نظر آتا ہے۔ اسی لیے سوزوگداز پیدا کرنے کے لیے موسیقار حضرات گلوکاروں کوبھی غم سے آشنا کرتے ہیں۔ میر کے ہاں غم کی یہی کیفیت موجود ہے جس نے ان کے غم کو آفاقیت نجشی ہے۔
مرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
بے تکلفی:
میر کی غزلوں میں ایک نہایت ہی اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فنی خلوص کو پوری صداقت سے لاتے ہیں فنی خلوص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر زندگی کے حادثات کو کو جس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ٹھیک اسی طرح بیان کرے میر کی شاعری اس لئے بھی مشہور و معروف ہے کہ اس میں سچائی اور خلوص کے ساتھ ساتھ تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں میر نے اپنی شاعری میں دوسروں کی طرح صرف تخیل کے گھوڑے نہیں دورائے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ میر عوام کے ساتھ شاعر تھے اس کے ارد گرد کی زندگی سے حزن و ملال کے مضامین کے فوارے ابل رہے تھے۔ میر نے انہی مضامین کو بہترین لب و لہجہ اور سادہ الفاظ میں پیش کیا۔
میر کی غزلوں میں اپنی ذات کی شکست کی آواز، تنہائی، اجنبیت اور کم مائیگی کا بھرپور المیاتی احساس اور اپنے دل کی بربادی، ویرانی اور وحشت زدگی کا اظہار ملتا ہے۔ میر کے اِس انداز کو جدید غزل گو شعرا نے بھی اپنانے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے لیکن بقول ذوق:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

    ……٭……٭……٭

Leave a Comment