سوال: میر کے تصور حسن و عشق پر تفصیل شذرہ قلم بند کریں۔

جواب: میر کا تصورِ حسن و عشق:
میر کا تصور حسن و عشق ان کے کئی ایک ذہنی رویوں اور شخصی تجربات کے باہمی اختلاط سے اپنی خاص وضع میں ظاہر ہوا ہے۔ ان کے کلام میں بلاشبہ فطری سوز و گداز اور بے پناہ تاثیر پائی جاتی ہے۔ یہ سوزو گداز اور اثر انگیزی کی غیر معمولی صلاحیت اُن کے مخصوص حالات، عہد کی صورت حال اور حسن کی وسیع تر کیفیات کی دین ہے۔ ان کا حسن بھی دراصل ان کے دائرے کا ایک جز ہے۔ میر کے عشق میں جو شدت اور ہمہ گیری ملتی ہے وہ اُردو زبان کے کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ اس کے دو بنیادی سبب ہیں، اول یہ کہ عشق اُن کے لیے ایک ذاتی تجربے کی حیثیت رکھتا تھا۔ انھوں نے عشق کے مصائب اور تکالیف کو اپنے ذہن اور وجود پر برداشت کیا تھا۔ وہ عشق کی لائی ہوئی محرومیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ عشق کے عطاکردہ داغوں کو اپنی زندگی کی متاعِ بے بہا سمجھتے تھے۔
عشقیہ مضامین:

یہ درست ہے کہ میر کی زندگی کا بیشتر حصہ تنگ دستی ومصائب میں گزرا۔خود ان کا کلام اس کاشاہد ہے ان کی اردو وفارسی شاعری کی فضا عموماً افسردہ،سوگوار، درد و اذیت، رنج واندوہ، ہجرو فراق، ناکامی ومحرومی، تلخی و تندی اور حسرت و یاس کی مظہر ہے جس میں نیم شب کی بے خوابی کی فریادیں، آہ دل سوز کی پرسوز و پر درد شرر باری، اشک ہائے گرم و آتش ہائے دروں کی اضطرابی بے سکونی، حساس و ناکام دل کی آہ و زاری پورے شد و مد کے ساتھ جلوہ گر ہو کر قاری کے اذہان کو خیالستان سوگوار میں منہمک و مستغرق کر دیتی ہے۔ ان کے یہاں الفاظ کی بازی گری پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ دل نازک پر گزرنے والے ہر واقعہ اور حادثہ کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصاً ان کی فارسی غزلیات میں جو عشقیہ مضامین بیان کیے گئے ہیں ان میں لطافت و حلاوت و شیرینی کی نظیر معاصرین شعراء کے یہاں شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
عشق کے آفریدہ درد و غز:
ان کی فارسی شاعری ہلکی پھلکی اور رواں ہے۔ اس میں نرمی‘گھلاوٹ اور شیرینی ملتی ہے اور عشق کے آفریدہ درد و غز کی تصویر کشی کے لیے بے حد موزوں ہے۔ عشق مجازی کی محرومی و دل شکستگی، تلخی و ناکامی اور سوز و گداز نے ان کی شعر گوئی کو صیقل کرنے اور اس کو نئی سمتیں دکھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے یہاں جذبہ صادق کی جو ترجمانی کی گئی ہے وہ انہیں انفرادی رنگ عطا کرتی ہے۔
راز گفتن بہ معشوق:

میر نے اپنی عشقیہ شاعری بالخصوص فارسی غزلیات میں غزل کے حقیقی معنی و مفہوم ”راز گفتن بہ معشوق“کو نہایت سلیقے و ہنر مندی کے ساتھ برتا ہے۔ان کے متعدد اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آدم بیزار، گوشہ نشین اور قنوطی شاعر نہیں بلکہ ہماری دنیا کے گوشت پوست سے بنے انسان ہیں جن کے سینے میں عشقیہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر در شکل دل موجود تھا۔ظاہر ہے وہ انسانوں میں رہ کر اور بحیثیت انسان اس عالمگیر جذبے یعنی عشق سے اپنی ذات کو مبرا کیسے رکھ سکتے تھے۔
عشق حقیقی کا جذبہ:
آفاقی شاعرہونے کے لئے عاشق ہونا شرط لازم ہے۔ اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ تقریباً تمام اکابر غزل گو اور مشاہیر عشقیہ شاعر اپنے اپنے عہد کے درد دل رکھنے والے عاشق رہے ہیں۔ جن کی شہادت یا توان کی تخلیقات میں موجود ہے یا پھر تاریخی اوراق میں ان کی عشقیہ داستانیں ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں۔ میر بھی آتش عشق سے اپنا دامن بچا نہیں سکے۔ ان کے یہاں یہ جذبہ اپنی تمام تر جلوہ آرائیوں کے ساتھ از اول تا آخر موجود رہا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ان کی ہمہ زندگی عشق ہے اور اس پر خطر و پر پیچ و پر خار راہ عشق میں اس کا ایک ہی تجربہ ہے اور وہ ہے غم۔یہی وہ غم ہے جو عشق کا مرہون منت ہے۔وہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا محرک ہے جو انہیں قوت و دانائی بخشتا ہے۔ عشق مجازی کی وجہ سے ہی کہ ان کے یہاں عشق حقیقی کا جذبہ پیدا ہوا، لیکن ان کا صوفیانہ رنگ ان کی تمام شاعری پر غالب نہیں ہے بلکہ ان کی بیشتر شاعری مجازی محبوب کے ہجر و وصال، شکایت بے التفاتی و بے نیازی، تند خوئی و سرد مہری کی دلچسپ داستاں ہے۔ میر کو خدا کے جلوؤں کی طرح سارے عالم میں عشق ہی عشق نظر آتاہے۔
عشق ہے عشق ہی جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق، معشوق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
عشق سے نظم کُل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خواب
ہر شے جو یاں پیدا ہوئی ہے موزوں کر لایا ہے عشق
کلام میر میں عشق مجاز و حقیقت کا امتزاج:
میر کے عشق مجازی کا سلسلہ بھی عشقِ حقیقی کے اسرار و معارف تک پھیلا ہوا ہے۔ کیوں کہ عشقِ حقیقی گھریلو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے زمانے کا ذہنی و فکری سرمایہ بھی تھا۔ میر پہلے عشق حقیقی کی تعلیم اور لذت سے فیض یاب ہوئے۔ عشق حقیقی کے اثرات یقینا ان پر بہت گہرائی میں پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ میر اپنی ابتدائی عمر میں عشق حقیقی کے اسرار و رموز سے کس حد تک واقفیت بہم پہنچا سکے ہوں گے۔
عشق کی صداقت:
میر کے زمانے میں عشقِ مجازی ایک وضع داری بن کر زندگی کی ایک خاص قدر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ جس سے وہ بصیرت اور روشنی ملتی ہے کہ واعظ اور ناصح کی منافقت، دیر و حرم کی حد بندی، دولت کی رعونت اور تعیش کی سطحیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر عشقِ مجازی درد مند انسانیت کی آواز بن جاتا ہے۔ یہ آواز جبر و قہر کے خلاف بلند ہوتی ہے۔ صداقت، حسن اور خیر کی اقدار سے ہم آہنگ یہ آواز انسانیت کو بڑھاوا دیتی ہے۔
میر کی شاعری کا ایک اہم موضوع عشق ہے۔ ان کے یہاں عشق کا تصور کسی نیم جاں چراغ کی طرح نہیں ہے بلکہ ایک بے باک شعے کی طرح ہے جس کی آنچ اور تپش ان کی ہڈیوں تک کو جلائے دیتی ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں جسم کی مستی بھی ہے اور روح کی آنچ بھی۔ لیکن میر کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ صرف جسم کے پیچ و خم میں اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں اور نہ محض حسن سے ایک روحانی رشتہ کافی سمجھتے ہیں۔
خالص عشقیہ شاعری:
میر کے یہاں اگرچہ کہیں کہیں وحدت الوجود کا نظریہ، جبر کا فلسفہ اور قناعت و درویشی کا رویہ مل جاتا ہے مگر بنیادی طورپر ان کی شاعری خالص عشقیہ شاعری ہے۔ میر کی داستان عشق کی تفصیلی رودادمثنویوں میں اور بھی زیادہ شدت سے بیان کی گئی ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ میر کا عشق صوفیانہ عقائد و افکار کا عکاس ہے۔ اس میں جستہ جستہ اشعار مجازی عشق کی ترجمانی کرتے ہیں مگرحقیقتاً ان کی پوری عشقیہ شاعری ان صوفیانہ رحجانات کو ہی پیش کرتی ہے لیکن ان کو صدفی صد درست نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے کلام کا بڑا حصہ ایسا ہے جس میں وہ کسی دنیاوی ”شاخ بنات“کے عشق میں تڑپتے اور آہیں بھرتے مانند مرغ بسمل نظر آتے ہیں۔ان کا عشق تو انسانی جذبات، جسمانی تقاضوں، ہجر و وصال اور انسانی رشتوں کی جستجو تھا جو صدیوں سے انسان کے دل کی دھڑکن تھے۔ اس عشق نے تو خود انہیں جنون میں مبتلا کر دیا تھا۔ خود ان کا یہ شعر ان کی دیوانگی کی جانب اشارہ کرتا ہے:
دل از بے طاقتی در سینہ خوں بشد
داماغی داشتم صرف جنوں شد
سادگی بیان:
جب معشوق تند خو عاشق کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے بہ طرف رقیب راغب ہوتا ہے تو میر شکوہ زبان پر لانے سے روک نہیں پاتے اور اس کی بے مروتی سے اپنے دل پر گزرنے والی قیامت کو سادگی کے ساتھ کہتے ہیں اور یہ سادگئی بیان ہی شعر کا اصل حسن بن جاتا ہے۔
مے خورد بارقیب شب و روئے مانہ دید
ایں بے مروتی دل مارا کباب کرد
وہ صرف رقیب سے ہی نالاں و بے زار نہیں بلکہ انہیں تو یہ گوارہ نہیں کہ کوئی پرندہ بھی اس کوچہ سے گزرے جہاں معشوق رہتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک عاشق و دنیا دار کی طرح اپنے معشوق کے حسن بے پناہ پر کسی اور کی نگاہ پڑنے دینا نہیں چاہتے پھر چاہے وہ کوئی پرندہ ہی کیوں نہ ہو۔
شد کباب از آتش غیرت دلم
گر بہ کویش طائر پرواز کرد
خیال و فکر میں ندرت:
شاعر کے یہاں خیال و فکر میں ندرت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے تجربات و مشاہدات کے ساتھ خلوص یا صدق جذبات عشقیہ شاعری کی جان ہے۔اگر ندرت و خلوص کی باہمی آمیزش سے کوئی شعر وجود میں آئے تو اس کی اثر آفرینی و دل پذیری حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔اس کا اندازہ میر کے اس شعر سے بآسانی ہو سکتا ہے۔
سحر ہر روز خورشید از سر کویت گزر دارد
نمی داند مگر آں سادہ کیں رہ صد خطر دارد
شاعری کا خاص میدان:
یوں تو میر کو تمام ہی اصناف سخن پر استادانہ قدرت و مہارت حاصل ہے لیکن ان کا خاص میدان غزل ہے اور غزل میں وہ مضامین تغزل کے دائرے سے باہر نکلنا گوارہ نہیں کرتے۔ان کی فارسی غزلوں میں بھی تغزل کے اعلٰی نمونے ملتے ہیں جن میں محبوب کے حسن ناز و انداز غرض اس کی ہر ادا کو نہایت جالب انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تغزل کے عناصر میں تکلف وتصنع کا عکس نہیں پڑتا۔اسی لیے دوراز کار تشبیہات و استعارات کے استعمال سے میر نے اپنے تغزل کا چہرہ مہرہ نہیں بگاڑا یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں علم بدیع کے صنائع و بدائع خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ حدیث دل بیان کرنے کے لیے جس صاف ستھرے پیچیدگی سے پاک انداز بیان کی ضرورت ہے، میر نے اس کو اپنا اسلوب بنایا ہے۔ میر سراپا عشق و سراپا سوز تھے۔اس کی ترجمانی فطری طور پر اس انداز بیان سے نہیں ہو سکتی جو میر کے ضروری تکلفات کے بوجھ سے دبا ہو۔“
مسحور کن اندازِ بیان:
میر نے الفاظ کی خوش آہنگی، اسلوب کی ندرت، خیال کی تازگی، احساس کی شدت اور مسحور کن انداز بیان سے تغزل کو اتنا اعلیٰ مُقام عطا کیا ہے کہ کوئی ان کی برابری کو نہیں پہنچا۔ ان کی ایک فارسی غزل دیکھیے جس میں انہوں نے اپنے معشوق دلفریب کی کم عمری، ناپختگی خیال، زمانے کے سرد گرم کی بے خبری، عشق و عاشق سے بے نیازی، دل کے فتنہ اٹھانے والے حالات سے ناواقفیت وغیرہ جیسی خصوصیات کو نہایت مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف غزل کے الگ الگ اشعار کے مابین ایک معنوی رشتہ قائم کیا ہے بلکہ ایک پر کیف جمالیاتی فضا قائم کر دی ہے۔
اوچہ داند کہ گل داغ نہ چیدہ ست ہنوز
اسی خیال کا ان کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے:
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
بے بسی:
اکثر مواقع پر ان کے یہاں ناکام عاشق کی بے بسی، مجبوری اور لاچاری کا رنگ بہت گہرا اور نمایاں ہے۔ اس قسم کے عشقیہ اشعار میں بڑی صداقت، خلوص،وارفتگی اور اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے جو قاری کو حال خود فراموشی میں لے جاتی ہے۔ عشق میں ناکامی کے بعد عاشق کے دل سے جو کراہیں نکلتی ہیں ان کے بیان کرنے پر ہمارے شاعر کو غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

بے اجل میر اب پڑا مرنا
عشق کرتے نہ اختیار اے کاش

حسن پرست شاعر:
میر حسن پرست تھے۔عشق میں چوٹ کھائے تھے اور اپنے اس جذبے کو اس صداقت سے بیان کرتے ہیں کہ وہ دل پر نشتر کا کام کر جاتے ہیں۔ عاشق جب معشوق کو یاد کرتا ہے تو اس کے فراق کا احساس اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور یہ احساس آہ و زاری کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ بے چین ہو کر اس کی ایک جھلک پانے کو طرح طرح کی تدابیر اختیار کر تا ہے۔اپنی تمام تر ناتوانی و بے کسی کے باوجود برائے وصل معشوق وہ ایسے راستے اختیار کرتا ہے کہ اعتدال کی حالت میں جن کا کرنا محال ہوتا ہے۔
دل عجب شہر تھا خیالوں کا
لوٹا مارا ہے حسن والوں کا
تہہ در تہہ بات:
میر کے یہاں گفتگو کا سلیقہ پایا جاتا ہے۔ وہ سیدھے انداز میں بات نہیں کرتے۔ ان کی بات تہہ در تہہ ہوتی ہے لیکن اس میں تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ فطری انداز ہونے کے باعث اس میں ایک انوکھی کشش و سحر انگیزی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں ان کے احساس و جذبے اور ادراک و شعور کا لہو دوڑتا ہے۔
محبوب کا سراپا:
میر نے اپنی شاعری میں جس محبوب کا سراپا پیش کیا ہے وہ فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ کلیوں نے کم کم کھلنا اس کی نیم باز آنکھوں سے سیکھا ہے۔ وہ محبوب کی ہر ہر ادا اور ہر ہر بات پر نظر رکھتے ہیں۔ محبوب کے جسم، رخسار، قد، چال، لباس وغیرہ ہر چیز کو میر عاشق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ محبوب کی شوخی، ناز و ادا، جلوہ آرائی، بے اعتنائی اور اندازِ گفتگو کا اپنے مخصوص مزاج کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کے شعر عشق جیسے ابدی جذبے کا ادبی اظہار بن جاتے ہیں۔
محبوب کے سامنے میر جو کہ عموماً بد دماغ مشہور ہیں، نہ بے دماغی دکھاتے ہیں اور نہ سرکشی بلکہ ان کے ہاں معصومیت، عاجزی، مسکینی اور ایک مہذب نیاز مندی ملتی ہے۔ ان کے ایسے اشعار میں وہ کیفیت پائی جاتی ہے جو عظیم عشقیہ شاعری کی جان ہے۔
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
اخلاقی اور فلسفیانہ عظمت:
میر نے عشقیہ شاعری کو اخلاقی اور فلسفیانہ عظمت سے معمور کیا ہے۔ ان کے تصور عشق سے انسان پر انکشاف ذات کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ان کے تصور عشق سے اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ میر ایک ہارے ہوئے عاشق ضرور ہیں لیکن اُن کی ہر بے کسی اور بے چارگی میں ایک عجیب و غریب عظمت ہے۔ وہ انسان کے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کی جدو جہد کرتے نظر آتے ہیں۔ میر کے لیے عاشق اور معاشرے کے دوسرے افراد کے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں ہے۔
……٭……٭……٭……

Leave a Comment