سوال:بطور مثنوی نگار میر تقی میر کے فن پر اظہار خیال کریں۔

جواب: میر تقی میر بطور مثنوی نگار:
اُردو میں مثنوی نگاری:


اگرچہ میر کی شاعری کا مضبوط ترین حوالہ ان کی غزل ہے تاہم وہ کسی خاص صنف میں بند نہیں ہیں۔ انھوں نے دیگر اصناف کے علاوہ مثنوی نگاری کی طرف بھی خصوصی توجہ دی۔ غزل کے بعد جو صنف سخن ان کے ہاں بہتر شکل و صورت میں اور تواتر سے ملتی ہے، وہ مثنوی ہے۔

مثنوی:


مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ“ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔

تاریخ:


رباعی کی طرح عربی شاعری میں مثنوی کا وجود بھی نہیں تھا اور یہ خاص ایران کی ایجاد ہے اور فارسی شاعری سے ہی ہندوستان میں آئی۔ رودکی کی مثنوی کلیلہ و دمنہ کا شمار فارسی کی قدیم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے اور ان کے بعد بہت سے فارسی شعرا نے مثنویاں لکھیں لیکن دو مثنویاں ایسی ہیں جو دنیائے ادب میں زندہ و جاوید سمجھی جاتی ہیں، ایک فردوسی کی شہرہ آفاق مثنوی شاہنامہ اور دوسری مولانا رومی کی مثنوی معنوی۔ ان کے علاوہ نظامی گنجوی کا خمسہ، جو پانچ مثنویوں کا مجموعہ ہے اور امیر خسرو کا خمسہ، جو نظامی گجنوی کی مثنویوں کے جواب میں ہے، بھی مشہور مثنویاں ہیں۔ ان کے علاوہ سعدی شیرازی اور مولانا جامی بھی فارسی مثنوی کے مشہور شاعر ہیں۔ علامہ اقبال نے خوبصورت فارسی مثنویاں لکھی ہیں جیسے جاوید نامہ، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی و دیگر۔

ابتدا:


اردو میں مثنوی کی ابتدا دکن سے ہوئی اور اس دور میں کثرت سے مثنویاں لکھی گئیں۔ دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔[حوالہ درکار ہے] اس قدیم درو کے دیگر مثنوی گو شعرا میں رستمی، نصرتی، سراج دکنی، ملا وجہی، محمد قلی قطب شاہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

مشہور مثنوی نگار:


اس کے بعد کے دور میں مشہور اردو مثنوی گو شعرا میں میر اثر، میر حسن، میر تقی میر، جرأت، دیا شنکر نسیم، نواب مرزا شوق، مومن خان مومن اور مرزا غالب وغیرہ شامل ہیں۔

سلاست و زبان و بیان:


مثنوی میں عموماً ثقیل الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ چونکہ ہر شعر میں قافیہ بدلنا ضروری ہوتا ہے اس لیے شاعر کو ایک طرح سے سہولت مہیا ہوتی ہے کہ بہتر سے بہتر اور رواں و سلیس شعر کہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی ایک مثنویوں کے اشعار ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔

میر بطور مثنوی نگار:


میر کی مثنویات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول، عشقیہ مثنویاں۔ دوم، غیر عشقیہ مثنویاں۔ سوم، ہجویہ مثنویاں۔
تعداد:
ڈاکٹر جمیل جالبی نے میر کی مثنویات کی تعداد 37بتائی ہے۔ جب کہ کلیات میر جلد ششم (مثنویات) مرتبہ کلب علی خاں فائق مطبوعہ مجلسِ ترقی ادب، لاہور 1984 میں ان مثنویات کی تعداد 39بیان کی گئی ہے۔

میر کا مزاج:


میر چوں کہ بنیادی طور پر غزل گو شاعر کا مزاج رکھتے تھے لہٰذا وہ کسی بھی صنف سخن میں طبع آزمائی کر رہے ہوں، اپنے مزاج کے دائرے سے باہر نہیں جاتے۔ ان کی تمام مثنویوں میں عمومی طور پر لیکن ان کی عشقیہ مثنویوں میں خصوصی طور پر ان کے مزاج کا رنگ بہت گہرا ہے۔ یوں تو انھوں نے متعدد ایسی عشقیہ مثنویاں لکھی ہیں جن میں جگ بیتی کا انداز نمایاں ہے تاہم میر کی وہ مثنویاں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جن میں انھوں نے اپنے عشق کا حال بیان کیا ہے۔

عشقیہ مثنویاں:


میر نے مزید کی ایک ایسی عشقیہ مثنویاں بھی تحریر کی ہیں۔آپ بیتی کے بجائے جگ بیتی کا انداز نمایاں ہے۔ لیکن وہ جگ بیتی کو بھی آپ بیتی کے جذبے میں رنگ دیتے ہیں۔ لہذا ان مثنویوں میں بھی ان کی سیرت و شخصیت کے بعض عناصر ملتے ہیں۔ ایسی عشقیہ مثنویوں میں انہوں نے اپنے زمانے کے مشہور و معروف عشقیہ قصوں کو منظوم کیا ہے۔ ان مچھلیوں میں شعلہ عشق اور دریائے عشق ان کی نمائندہ مثنویاں ہیں۔ شعلے عشق عشق میں جو قصہ بیان ہوا ہے وہ میر شمس الدین فقیر دہلوی کی ایک فارسی مثنوی تصویر محبت میں بیان ہو چکا تھا۔ میر نے اپنی مثنوی کی بنیاد فقیر دہلوی کی مثنوی پر رکھی ہے۔ میر نے شعلہ عشق کی ابتدا میں عشق کی اہمیت اور تصور عشق پر روشنی ڈالی ہے۔

محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت مسبب محبت سبب
محبت سے آتے ہیں کار عجب
محبت بن اس جا نہ آیا کوئی
محبت سے خالی نہ پایا کوئی
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
محبت سے کس کو ہوا ہے فراغ
محبت نے کیا کیا دکھائے ہیں داغ
محبت اگر کارپرداز ہو
دلوں کے تئیں سوز سے ساز ہو
محبت ہے آب رخ کار دل
محبت ہے گرمی آزار دل
محبت عجب خواب خوں ریز ہے
محبت بلاے دل آویز ہے
محبت کی ہیں کارپردازیاں
کہ عاشق سے ہوتی ہیں جانبازیاں
محبت کی آتش سے اخگر ہے دل
محبت نہ ہووے تو پتھر ہے دل
محبت کو ہے اس گلستاں میں راہ
کلی کے دل تنگ میں بھی ہے چاہ
محبت ہی سے دل کو رو بیٹھیے
محبت میں جی مفت کھو بیٹھیے
محبت لگاتی ہے پانی میں آگ
محبت سے ہے تیغ و گردن میں لاگ
محبت سے ہے انتظام جہاں
محبت سے گردش میں ہے آسماں
محبت سے روتے گئے یار خوں
محبت سے ہو ہو گیا ہے جنوں
محبت سے آتا ہے جو کچھ کہو
محبت سے ہو جو وہ ہرگز نہ ہو
محبت سے پروانہ آتش بجاں
محبت سے بلبل ہے گرم فغاں
اسی آگ سے شمع کو ہے گداز
اسی کے لیے گل ہے سرگرم ناز
محبت ہی ہے تحت سے تا بہ فوق
زمیں آسماں سب ہیں لبریز شوق
محبت سے یاروں کے ہیں رنگ زرد
دلوں میں محبت سے اٹھتے ہیں درد
گیا قیس ناشاد اس عشق میں
کھپی جان فرہاد اس عشق میں
ہوئی اس سے شیریں کی حالت تباہ
کیا اس سے لیلیٰ نے خیمہ سیاہ
سنا ہوگا وامق پہ جو کچھ ہوا
نل اس عشق میں کس طرح سے موا
جو عذرا پہ گذرا سو مشہور ہے
دمن کا بھی احوال مذکور ہے
ستم اس بلا کے ہی سہتے گئے
سب اس عشق کو عشق کہتے گئے
اس آتش سے گرمی ہے خورشید میں
یہی ذرے کی جان نومید میں
اسی سے دل ماہ ہے داغ دار
کتاں کا جگر ہے سراسر فگار
نئے اس کے چرچے حکایت سنی
گہے شکر گاہے شکایت سنی
اسی سے قیامت ہے ہر چار اور
اسی فتنہ گر کا ہے عالم میں شور
کوئی شہر ایسا نہ دیکھا کہ واں
نہ ہو اس سے آشوب محشر عیاں
کب اس عشق نے تازہ کاری نہ کی
کہاں خون سے غازہ کاری نہ کی
زمانے میں ایسا نہیں تازہ کار
غرض ہے یہ اعجوبۂ روزگار
آغاز قصہ
عجب کام پٹنے میں اس سے ہوا
عجب اہل عالم کو جس سے ہوا
کہ واں اک جواں تھا پرس رام نام
خوش اندام و خوش قامت و خوش خرام
جوانی کے گلشن کا وہ آب و رنگ
گلستاں پہ کام اس کی خوبی سے تنگ
جدھر نکلے رنگیں ادائی کے ساتھ
چلے جائیں جی خوش نمائی کے ساتھ
کھلے بال چلتا تھا وہ سرو ناز
قدم بوس کو آتی عمر دراز
جدھر کو وہ ٹک گرم رفتار ہو
قیامت ادھر سے نمودار ہو
نگہ گرم اس کی جدھر جا لڑی
کہے تو کہ اودھر کو بجلی پڑی
وہ کافر بھویں ہوویں مائل جہاں
کریں سجدہ اس جا پہ اسلامیاں
نگہ تیغ مجروح جس کے پڑے
پلک سیل جوں دل میں جاکر گڑے
سیہ چشم اس کے دو بدمست تھے
نگاہوں سے شمشیر در دست تھے
رخ اس کا کہاں اور مہ و خور کہاں
تفاوت زمیں آسماں کا ہے یاں
دو لب لعل کو جن سے شرمندگی
دم حرف سرمایۂ زندگی
دہن کی جو تنگی نظر کیجیے
تو آگے سخن مختصر کیجیے
نہ ہم تم زنخ دیکھ حیراں رہیں
سبھی دست زیر زنخداں رہیں
سراپا میں اس کے جہاں دیکھیے
وہیں روے مقصود جاں دیکھیے
خراماں نکلتا وہ جس راہ سے
قیامت تھی واں نالہ و آہ سے
فدا اس پہ جی جان ہر ایک کا
کہ مقصود دل تھا بد و نیک کا
کئی گرد و پیش اس کے وارفتگاں
کئی ایدھر اودھر جگر تفتگاں
بہت رفتگان اداے کلام
بہت مبتلاے بلاے خرام
کوئی کشتۂ شوق رفتار کا
کوئی نیم جاں ذوق دیدار کا
کوئی والۂ خندۂ برق وش
کسو کے تئیں جنبش لب سے غش
کسو کی نظر میں کمر کی لچک
کسو کے جگر میں پلک کی کسک
کوئی حیرتی طرز گفتار کے
کوئی آرزوکش بروبار کے
کوئی زلف سے اس کی مجنوں رہے
کسو کا تبسم سے دل خوں رہے
کوئی دل ستم کشتۂ یک نگاہ
کوئی جان ہونٹھوں پہ موقوف آہ
کسو پر فسوں گردش چشم کا
کسو پر غضب غمزہ و خشم کا
کوئی دست بر دل کوئی بے قرار
کوئی بے خبر کوئی بے اختیار
انھوں میں سے اک عاشق زار تھا
اس آفت کو اس سے سروکار تھا
محبت میں تھا جذب کامل اسے
مراد دل اپنی تھی حاصل اسے
شب و روز ہم بستر کام دل
ہمیشہ ہم آغوش آرام دل
دم اس کے میں یاں تک تو تاثیر تھی
کہ صحبت اس آتش سے درگیر تھی
بہم ربط چسپاں بہم اختلاط
نہ کم ہوتی گرمی نہ کم اختلاط
مرو کوئی غم سے کوئی ہو ہلاک
وہ شعلہ اسی خس سے رکھتا تپاک
کہاں حسن میں تھا وفا کا یہ پاس
یہ سنیے کہ ہے گا خلاف قیاس
بہت سے بہت اس کا مالوف تھا
اسی کی تسلی سے مصروف تھا
کہ ناگہ وہ دلبر ہوا کدخدا
رہا اپنے عاشق سے چندے جدا
زن و شو سے اخلاص باہم ہوا
اس آشفتہ سے رابطہ کم ہوا
نگاہیں بہم دل میں کاوش کریں
سخن سے وفائیں تراوش کریں
ہوا ربط چسپاں بہم اس قدر
کہ دشوار اٹھے ہم دگر سے نظر
رہیں دونوں دست و بغل روز و شب
کبھو منھ پہ منھ ہو کبھو لب پہ لب

جذبات نگاری:


یہ وہی تصور عشق ہے،جس کی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے پائی تھی۔اس مثنوی میں پرس رام کی اپنی بیوی سے شدید محبت دکھائی گئی ہے۔کیا انہیں دریا میں غرقاب کر دیتے ہیں۔اس مثنوی کا انجام غیر معمولی ہے۔اس میں جذبات نگاری انتہائی موثر ہے۔میر کے اپنی عشقیہ جذبات کی گرمی سے یہ مثنوی اثرانگیز بن گئی ہے۔مثنوی دریائے عشق میں بھی شعلہ عشق کی طرح ہیرو اور ہیروئن دریا میں ڈوب کر حیات جاوداں حاصل کرتے ہیں۔مشرقی داستانوں میں مرنے کے بعد وصال محبوب کی روایت عام رہی ہے۔میر کے قصوں کے عاشق و معشوق دونوں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔وہ پانی کو دونوں کا مدفن بناتے ہیں۔ضرورت ہوتی ہے وہ میرے کو دریا میں نظر آتی ہے۔ڈرامہ عشق میں جو حصہ نظم ہوا ہے،اس میں کوئی پراسراریت نہیں ہے۔اس مثنوی کا قصہ بھی میر کا طبع زاد نہیں ہے۔وہ علامہ انگیز واقعات کو بڑی خوبصورتی سے نظم ہیں۔اس مثنوی کی ابتدا میں بھی انھوں نے اپنے تصور عشق پر روشنی ڈالی ہے۔ان کے عشقیہ تصورات شاعری کے سانچے میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔

جان کا نذرانہ:


میر کی عشقیہ مثنویوں میں عاشق کی موت پر معشوق یا معشوق کی موت پر عاشق بھی جان دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔بسا اوقات وہ جذبہ عشق کی تاثیر دکھانے کے لیے لاشوں کو اس طرح واصل کر دیتے ہیں کہ انہیں جدا کرنا ممکن نہیں رہتا۔جو گویا وہ وصل پس از مرگ کو بیان کرتے ہیں۔میر کے نزدیک عشق ایک ایسا روگ ہے،جو موت کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔لیکن ساتھ ہی ان کے نزدیک اپنے مقصد کی خاطر عاشق بڑی آسانی سے جان دے دیتا ہے۔

مقصد حیات:


میر کے دور میں کسی اعلیٰ مقصد کی خاطر جان دینے کا تصور اتنا معروف نہ تھا۔میر نے اس تصور کو پیش کرکے اپنے عہد کی معاشرے کو ایک اخلاقی سبق دیا کیا کہ مقصد حیات چاہے کچھ بھی ہو،اس کے حصول کے لیے جان کی بازی لگا دینا ہی انسانیت کی معراج ہے۔عاشق جان کی بازی لگا کر عشق کی آزمائش میں پورا اترتا ہے۔میر عشق کو ناقابل حصول ادرش کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔لیکن عا شق نہ قابل حصول آدرش کی خاطر جان قربان کرنے پر تیار رہتا ہے۔گویا میر ایک جذبے کی انتہائی شکل کو معاشرے میں بیدار کرنا چاہتے تھے۔میر کی عشقیہ مثنویوں کی ابتدا عشق کی تعریف و توصیف اور اپنے تصور عشق کی تعمیر و تشریح سے شروع ہوئی ہے۔ سوائے اعجاز عشق، کے یہ مثنوی حمد نعت اور منقبت وغیرہ سے شروع ہوتی ہے۔یہ میر نے مثنوی کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا ہے، وہ عشق کی ہمہ گیر صفات اور زندگی و کائنات میں میں اس کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔

مجرد و مطلق عشق کا تصور:


اگرچہ یہ مثنویاں عشاق کی سرگزشت ہیں۔لیکن ان مثنویوں میں جو چیز جاذب توجہ ہے وہ عشق کا ما جرانہیں ہے بلکہ مجردومطلق عشق کا تصور ہے۔ان کے ہاں عشق ایک بحر بے کنار ہے۔جو ساری زندگی اور کائنات پر حاوی ہے۔میر عشق کی تعریف و توصیف کبھی مثنوی کی ابتدا میں اور کبھی خاتمہ پر رقم کرتے ہیں۔
نہ ہو عشق تو انس باہم نہ ہو نہ ہو درمیاں یہ تو عالم نہ ہو
کہیں عشق عشق ہے معشوق ہے کہیں خالق و خلق و مخلوق ہے
یہی عشق خلوت میں وحدت کے ہے یہی عشق پردے میں کثرت کے ہے
غرض طرف ہنگامہ آرا ہے عشق تماشائی عشق و تماشا ہے عشق

تصورِ عشق:


مثنویات میر کا یہی حصہ سب سے زیادہ دلنشین ہے۔ان کا عشق مثالیں اور ہمہ گیر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ سوز بھی ہے۔میر عاشقیہ المیہ کو بیان کرنے کے لیے کوئی حکایت یا کوئی واقعہ چن لیتے ہیں۔پھر وہ واقعہ کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ عشق کی دلسوزی واضح ہو جاتی ہے۔مثنوی لکھتے وقت وقت میر کا مقصد عشق کی جان سپاری کا بیان ہوتا ہے۔ان کی تمام تر توجہ اس طرف مرکوز رہتی ہے۔وہ روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والے عشق کا بیان کرتے ہیں۔وہ پہلے مصرع سے جو فضا باندھتے ہیں اسے آخر تک قائم رکھتے ہیں۔وہ جذبے عشق کے بیان میں نرمی اور گھلاوٹ کو مقدم رکھتے تھے۔ موضوع کی مناسبت سے ان کا لب و لہجہ بھی حرماں نصیبی اور یاس سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔
آہ جو ہمدمی میں سی کرتی ہے اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
کہتے ہیں ڈوبتے اچھلتے ہیں لیکن ایسے کوئی نکلتے ہیں

دلی کیفیات اور واردات:


میر قصے کے بجائے دلی کیفیات اور واردات کو بیان کرنے پرزیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کی بہت سی مثنویوں کے اشعار غزلوں کے مطلعوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی مثنویوں میں قصہ محض ایک قالب ہوتا ہے جس میں وہ عشق کی کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔ اسی لیے میر اچھے قصہ نویس نہیں ہیں۔ ان کی عشقیہ مثنویوں میں میں افسانوی دلچسپی کے عناصر کم ہوتے ہیں البتہ وہ عشق کے ترجمان اور شارح بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہ مثنویوں کو بھی شدید جذبات و احساسات کی ترجمان بنانا چاہتے تھے۔

غمگین قصے:


ان کی عشقیہ مثنویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی غموں کے قصے بیان کر رہے ہیں۔ میر کی مثنویوں کے ہیرو عام داستانوی عشقیہ مثنویوں کے ہیروز سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اردو کی دیگر اور خاص کر طویل مثنویوں میں عموماً شہزادے اور شہزادی کے قصے رقم ہوتے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر سر شاہی خاندانوں کے چشم وچراغ ہوتے ہیں۔
……٭……٭……٭……

Leave a Comment