سوال:میر شناسی کی روایت میں تذکروں کا قابل قدر حصہ ہے۔ وضاحت کریں۔

جواب: میر شناسی کے اہم رجحانات:
بڑے بڑے شاعر، نقاد اور ادب شناس میر تقی میر کو عظیم اور آفاقی شاعر تسلیم کرتے آئے ہیں۔ کسی نے بھی ان کی عظمت اور بڑائی سے انکار نہیں کیا۔ ان کی شاعری میں ایک دردمند آدمی کی حقیقی اور سچی آواز گونج رہی ہے۔ آج بھی ان کی شاعری قابلِ توجہ، پرکشش اور دلآویز ہے۔ اسی لیے ان کے دور سے لے کر آج تک میر شناسی کا سلسلہ جاری ہے۔
محققین اور ناقدین:
ہر عہد کے میر کے محققین اور ناقدین کئی حوالوں سے میر شناسی کے کام کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ محققین نے تحقیقی سطح پر ان کی شخصیت اور حالاتِ زندگی کے بعض نہاں اور بعض عیاں گوشوں پر روشنی ڈالی اور ان کی مکمل شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ جب کہ ناقدین نے تنقیدی سطح پر ان کی شاعری اور ان کے عہد کی صورتِ حال کے تفصیلی مطالعہ کے ذریعے میر شناسی کے اہم رجحانات کو واضح کیا۔
میر بحیثیت میر شناس:
میر شناسی، میر کی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ میر نے بذاتِ خود اپنی شاعری کی بعض خصوصیات کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے۔ ان اشعار سے میر شناسی کے بعض رجحانات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ چند ایک شعر درج ذیل ہیں:
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
جہاں سے دیکھیے یک شعرِ شور انگیز نکلے ہے قیامت کا سا ہے ہر جا میرے دیواں میں
ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو چاہیے اہلِ سخن میر کو استاد کریں
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر شناسی کی روایت:
میر شناسی کی روایت میر کی ذات سے آگے بڑھتی ہے تو ان کے عہد کے شعرا اور مابعد شعرا نے میر کے بارے میں تعریفی و توصیفی اشعار سے بھی میر شناسی کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ میر سے متاثر شعرا کے علاوہ تذکرہ نگاروں نے بھی میر شناسی کے اہم رجحانات کی نشان دہی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔
آب حیات:
پرانے تذکروں میں جو ہمیں تھوڑی بہت تنقید ملتی ہے وہ محض ذوقی یا وجدانی ہے۔ آب حیات میں ہمیں جو تنقید ملتی ہے وہ روایتی ہے۔ اس میں قدیم تذکروں کا لہجہ صاف طور پر نظر آتا ہے۔ آزاد کسی شاعر کی خصوصیات کا تجزیہ کرکے اس کے مماس کی کی وضاحت نہیں کرتا۔ بلکہ تاثراتی طریقے سے وضاحت کرتا ہے۔ آب حیات ایک ایسی کتاب ِ ضروری ہے جس نے اردو ادب کی ایک بہت بڑی کمی پورا کیا۔ اب تک اردو میں شعرائکیباقاعدہ تاریخ وار تذکرہ مرتب نہیں ہوا تھا۔ پرانے انداز کے تذکرے تو بہت تھے لیکن اکثر نا تمام اور ناقص کوئی عہدوار تاریخ موجود نہ تھی۔
اب ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں شعراء کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کئی گئی ہوں جدید انداز میں تنقید بھی ہو اور تحقیق پر مبنی سیر حاصل اور مستند حالات بھی ہوں یہ کمی آب حیات نے پوری کردی۔ آب حیات محض شاعری کی تاریخ نہیں بلکہ توانا متحرک اور زندگی سے لبریز دستاویز بھی ہے۔ جو عہدِ ماضی کو ازسرنو زندہ کرکے ہمارے آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ آب حیات پرانی محبتوں اور وفاداریوں کی لافانی یادگار ہے۔ آزاد نے خود محسوس کیا کہ قدیم تذکرے عہد جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے موزوں نہیں ہے اور اس سلسلے میں وہ خود لکھتے ہیں:
”مجھ پرواجب تھا کہ جو حالات ان بزرگوں کے معلوم ہیں یا متفرق تذکروں میں متفرق مزکور ہیں انھیں جمع کرکے ایک جگہ لکھوں اور جہاں تک ممکن ہواس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چلتی پھرتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہوں اور انھیں حیاتِ جاودانی حاصل ہو۔“
فہرست مضامین:
آب ِ حیات میں سب سے پہلے ”لسانیات“ کے زمرے میں اردو زبان کے ماخذ پر توجہ دی گئی پھر عہد بہ عہد شعراء کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس طرح ان کے مطالب کی فہرست یوں ہے۔ دیباچے میں اردو زبان کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دراصل یہ غلطی ہمارے آج کے ناقدین بھی کرتے ہیں کہ تاریخ ادب مرتب کرتے وقت تاریخ زبان لکھنا شروع کر دیتے ہیں تاریخ ادب اورچیز ہے اور لسانی تاریخ اور چیز۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احسن فاروقی اپنی کتاب ”اردو تنقید“ میں آزاد پر پہلا اعتراض یہی کرتے ہیں کہ وہ اردو شعراء کی تاریخ مرتب کر رہے تھے نہ کہ اردو زبان کی تاریخ۔
بہر طور آزاد نے زبان کے سلسلے میں جن نظریات کا اعتبار کیا وہ بھی کم اہمیت کے حامل نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے برج بھاشا پر فارسی نے اثر کیااور یہ زبان وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ دو قوموں کے ملنے سے زبانوں میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں اس کا تفصیلاً جائزہ لیا گیا ہے۔
پہلا دور:
تمہید۔ولی۔ شاہِ آبرو۔مضمون۔ ناجی۔ احسن۔ یکرنگ۔ قدما ئکے اوضاع و لباس
دوسرا دور:
تمہید۔شاہ حاتم۔خان آرزو۔ فغاں
تیسرا دور
تمہید۔مرزا جانِ جاناں مظہر۔ تاباں۔ سید انشاء(ملاقات)۔سودا۔خواجہ میر درد۔میر سوز۔ میر تقی میر
چوتھا دور:
تمہید۔جرات۔ سید انشاء۔ مصحفی
پانچواں دور:
تمہید۔ ناسخ۔ آتش۔ شاہ نصیر۔ ذوق۔ غالب۔ مومن۔ دبیر۔ انیس
میر شناسی میں تذکرہ نگاروں کا حصہ:
قدیم دور میں میر شناسی کا ایک اہم ذریعہ تذکرے رہے ہیں۔ تذکرہ نگاری کا دور ”نکات الشعرا“ از میر تقی میر مرقومہ 1753 سے لے کر ”آب حیات“ از محمد حسین آزاد مرقومہ 1880تک پھیلا ہوا ہے۔ ”آب حیات“ عبوری دور کی کتاب ہے جس سے تذکرہ نگاری کی عام روایت ختم ہوئی اور ادبی تاریخ نگاری کے بنیادی خدوخال سامنے آئے۔ تذکرہ نگاروں نے میر کی ادبی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں اپنے تذکروں میں نمایاں جگہ دی۔ تذکرہ میں زیادہ تر میر کے کلام کے انتخاب کو مدنظر رکھا گیا۔ تقریباً سبھی شعرا نے میر کی شاعری کو سراہا ہے۔
نکات الشعرا:
خدائے سخن میر تقی میراردو کے عظیم شاعر ہیں۔ میر نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ نثر میں بھی تین تصانیف میر کی یاد گار ہیں۔ جن میں ایک فارسی”تذکرہ نکات الشعراء“ ہے جو اردو کا اولین تذکرہ ہے۔ تذکرے کو نہ بیاض نویس کی مختصر بیانی راس آتی ہے اور نہ تاریخ نگار کی مفصل بیانی۔ تذکرہ نگار اپنے حدود میں رہ کر شعرا کے حالات رقم کرتا ہے۔ کلام پر رائے دیتا ہے اور کچھ انتخاب پیش کرتا ہے۔ میر نے اپنی تذکرہ میں 104 شعرا ء کے مختصر حالات اور منتخبہ کلام شامل کیا ہے۔ جن میں بتیس شعرا دکن اور ماباقی شمالی ہند کے ہیں۔
چونکہ یہ اولین تذکرہ ہے اس میں میر صاحب کی اختراعی طبیعت کے جلوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تذکرہ معلومات کا خزانہ ہے۔ جس میں میر اپنے ایک منفرد اندازمیں نظرآتے ہیں۔ نکات الشعر اکا میر بار باش،زندہ دل گپ شپ کرنے والا، میلے ٹھیلوں کا عاشق،عرس میں راتیں گذارنے والا،بزرگوں کا احترام کرنے والا،مخالفین کے لیے بھی نرم گوشہ رکھنے والا ہے۔
جیسے جیسے ہم نکات الشعرا ء پڑھتے جاتے ہیں، میر صاحب کی شگفتہ اور زندہ دل شخصیت کے نقش ابھرتے جاتے ہیں۔ یہ کتاب متنازع فیہ بھی رہی کہ میر نے اس میں دو ٹوک باتیں بھی کہی ہیں۔ اپنے زمانے کے شعرا کی تنقید بھی کی ہے۔ ان کے اشعار میں ترمیم اور اصلاح بھی کی ہے۔ جن اشعار کی اصلاح میرنے کی ہے وہ اشعار بہترین ہوگئے ہیں۔جس کوبعدمیں کسی نے مسترد نہیں کیا۔
اس تذکرہ کی اہمیت کئی طرح سے ہے۔ اول تو یہ اردو شعرا کا پہلا تذکرہ ہے،اس لیے اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ دوم یہ میرتقی میر نے لکھا ہے جو خود عظیم شاعر ہیں،سوم اس میں ڈھائی سو برس قبل کے اردو شعرا کے بڑے شگفتہ اور کامیاب خاکے ہیں،ان کے بہترین اشعار بھی شامل ہیں۔ چہارم اس میں اردو شاعری تنقیدکے اولین خد وخال ہیں۔پنجم یہ کہ میر کے تنقیدی پیمانے جان کر ہم ان کی شاعری کا بہتر شعور حاصل کرسکتے ہیں۔ میر کے تذکرہ کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس میں ایسے بے شمار فن کاروں کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ہے جن کے کارنامے یا تو کسی وجہ مدون نہ ہوسکے یا مدون ہونے کے بعد ضائع ہوگئے۔ اس کے علاوہ یہ تذکرہ چونکہ روا روی میں لکھا گیا تھا اور اولین کوشش تھی اس لیے اس میں کئی خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔جیسے شعرا کی ترتیب کا کوئی اصول نہیں تھا۔انھوں نے نہ تو شعرا کی تقسیم طبقات کے لحاظ سے کی ہے اور نہ ان کا ذکرحروف تہجی یا حروف ابجد کی ترتیب سے کیا ہے۔ شعرا ئے دکن کا ذکر یکایک ایک مختصر سی تمہید کے ساتھ وسط کتاب میں آجاتا ہے، پھربغیر کسی تمہید کے شمالی ہند کے شعرا جگہ پاتے ہیں۔ شعرائے دکن کے لیے میر نے عزلت کی بیاض سے استفادہ کیا ہے۔ میر کی اس روش سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ میرنے یہ تذکرہ جلد بازی میں مکمل کیا ہے۔ زیر نظر تذکرہ کو حمیدہ خاتون نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
تنقیدی روایت:
تذکرہ نگاری کے دور میں تنقیدی روایت مستحکم نہ تھی۔ عموماً تذکروں میں شاعر کا نام، مختصر حالات زندگی اور کلام پر چند جملوں میں رائے لکھ دی جاتی تھی۔ تذکرہ نگاروں نے میر کی غزل اور مثنوی کو ان کے ہم عصر شعرا سے بہتر قرار دیا ہے۔ تذکروں میں میر شناسی کے حوالہ سے دیگر شعرا کے مقابلے میں زیادہ کام آیا ہے۔

میر کے بارے میں:
میر کے بارے میں اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس میں ان کی سوانح حیات، ان کے عہد کے سیاسی، سماجی و تہذیبی حالات اور ان کے کلام کی تحقیق و تنقید سبھی کچھ شامل ہے۔ سینکڑوں مقالات و مضامین میں بھی لکھے گئے ہیں۔ میر کی آپ بیتی ”ذکر میر“ کے کئی ایک تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ بہت سی تحقیقی و تنقیدی کتب اور رسائل منظر عام پر آ چکے ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں بہت سے تحقیقی و تنقیدی مقالات لکھے گئے ہیں۔ البتہ میر شناسی کے سلسلہ میں اور میر کے بارے میں وثوق سے کچھ جاننے اور ان کے فکر و فن کے بارے میں رائے قائم کرنے کے بنیادی ماخذ صرف چند ہیں۔ ان میں ”کلیاتِ میر“ اور ”ذکر میر“ کو اولیت حاصل ہے۔ تذکروں میں تذکرہ ”بہار بے خزاں“ از محمد حسین سحر مرقومہ 1845اور تذکرہ ”خوش معرکہ زیبا“ از سعادت خاں ناصر مرقومہ 1844بہت اہم اور سیرت و سوانح کے سلسلہ میں اساسی خیال کیے جانے کے لائق ہیں۔
غیر معمولی اہمیت کا حامل تذکرہ:
تذکروں میں تذکرہ ”بہار بے خزاں“ از محمد حسین سحر مرقومہ 1845ء میر کے سلسلہ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تذکرہ ہے۔ میر کے عشق کے سلسلہ میں پہلی واضح خارجی شہادت اسی کے ذریعے سامنے آتی ہے۔
……٭……٭……٭……

Leave a Comment