سوال: مضامینِ سرسید کے موضوعات اور اسالیب کی تفصیل بیان کریں۔

جواب: سرسید کی مضمون نگاری:
سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی۔ وہ بیکن، ڈرائڈن، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائے نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انھوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔
سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب، تعلیم و تربیت، کاہلی، اخلاق، ریا، مخالفت، خوشامد، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔
مضامین سر سید کے موضوعات:
سرسید نے اُردو میں مضمون نگاری کی ابتدا کی تو ڈپٹی نذیر احمد نے ناول نگاری کی صنف کو متعارف کروایا۔ حالی نے سوانح نگاری سے اُردو ادب کا ناتا جوڑااورمقدمہ شعر و شاعری کی صورت میں جدید تنقید کے اصول وضع کیے۔شبلی نے سیرت نگاری جیسی صنف کا تحفہ اردو ادب کو دیا۔حالی اور آزاد نے جدید نظم میں نت نئے تجربات کیے۔ یہ زمانہ اردو ادب کا شاندار عہد ہے۔
سلیس اُردو نثر:
سرسید احمد خاں نے نہ صرف اس مشکل وقت میں مسلمانوں کی ڈوبتی نیا کو سنبھالا دینے کی کوشش کی بلکہ اس زوال پذیر قوم کی زبان کو غیر معمولی ترقی دے کر اردو ادب کے ارتقاء میں بھی حصہ لیااور اردو نثرکو اجتماعی مقاصد سے روشناس کیا۔سر سید نے اُردو نثر کو سہل اور سلیس بنا کر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان اور علمی مطالب کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس سے قبل فورٹ ولیم کالج کے ادبا نے بھی اردو نثر کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا اور اردو نثر کو الفاظ پرستی سے نجات دلا کراس کو بے تکلف اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا۔مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فورٹ ولیم کالج کی نثر کی زبان تو سادہ تھی لیکن اس نثر کو صرف قصوں سے سروکار تھا۔ عام آدمی کی زندگی، اس کے مسائل، اس کی اصلاح اس نثر کا موضوع نہ بن سکی۔ مرزا غالب نے بھی نثر کے میدان میں طبع آزمائی کی اور سرسید کی نثر پر مرزا کے اسلوب کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
مذہب، تاریخ،سیاست اور تعلیم کے موضوعات:
یہ سر سید جیسی اولعزم شخصیت کا حوصلہ اور محنت کا نتیجہ ہے تھاکہ انہوں نے اس کڑے وقت میں نہ صرف انگریزوں کے دلوں سے مسلمانوں کی نفرت ختم کرنے کی کوششیں کیں بلکہ اپنے رفقا کے ساتھ مل کر ایسا ادب تخلیق کیا جس نے ایک طرف تو اس کڑے وقت میں مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور دوسری طرف اردو ادب کو ایسی بنیادیں مہیا کیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں اس پر مضبوط عمارت قائم کر سکیں۔ سر سید نے اُردو نثر کی حدود کو وسیع تر کر دیا۔ سرسید اور ان کے رفقا نے اردو نثر کے موضوعات کو وسعت دی۔ وہ نثر جو اس سے قبل مافوق الفطرت کہانیوں تک محدود تھی، اس نثر کے دامن نے مذہب، تاریخ، سیاست اور تعلیم جیسے موضوعات کو جگہ دی۔ سرسید اور ان کے رفقا کے طفیل اردو میں توضیحی، استدلالی اور وصفیہ نثر کے علاوہ اعلیٰ درجے کی مقالہ نگاری، صحیفہ نگاری اور قصہ نویسی پیدا ہو کرپروان چڑھی۔
تنقیدی موضوع:
سرسید کا دور ادرو ادب کی ترقی کا ابتدائی زمانہ تھا۔اس دور میں کسی ترقی یافتہ اور مکمل صنفِ ادب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اردو کی ادبی تنقید بھی اس دور میں کسی حد تک ناپختہ تھی۔تا ہم کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جس میں فن کے شعور اور اصولِ تنقیدکے صحیح ادراک کا آغاز ہوا۔ سر سید نے بذاتِ خود کوئی تنقیدی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے خیالات نے تنقیدی رجحان پر گہرا اثر ڈالا۔مقدمہ شعر و شاعری حالی کی اردو تنقید پر لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کتاب میں شعر و ادب کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری سر سید کے خیالات کی تفصیلی تفسیر ہے۔ سر سیدادب کے جمالیاتی پہلو کی بجائے ادب کو زندگی کے مقاصد سے جوڑتے ہیں اور ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس سے قومی اور اجتماعی کام لینے پر یقین رکھتے تھے۔ اس لیے سر سید اردو کے غالباً سب سے پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ حالی نے فنِ تنقید پر انگریزی اور عربی سے مواد لے کر ایک جگہ جمع کیا جو بعد میں آنے والے ناقدین کے لیے شمع ہدایت ثابت ہوا۔حالی نے اس کتاب کے ذریعے اردو شعر و ادب میں ایک نئی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ سب سر سید کی صحبت کا ہی نتیجہ تھا:
پرانے رجحانات کے خلاف بغاوت:
سر سید کی تحریک اور ان کے رسالہ”تہذیب الاخلاق“نے اس ادبی انقلاب میں اور بھی زیادہ تنقیدی تلخی اور تیزی کی کیفیت پیدا کر دی اور پرانے رجحانات کے خلاف بغاوت کا پیغام دیا۔کیوں کہ اس وقت ہمارے ادب میں تھک کر بیٹھ جانے والی جو کیفیت تھی اور اس میں جو غلط معیار قائم ہو گئے تھے ان کا وجود ہماری سماجی زندگی کے منافی تھا۔اس پس منظر میں حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مرتب کیا۔
ٹھوس علمی مسائل:
سرسید اور ان کے رفقا ء نے ٹھوس علمی مسائل(مثلاً ریاضی اور طیبعیات)کی طرف بھی توجہ دی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ سر سید اور ان کے جماعت کے لوگوں نے اُردو کوجو علمی اعتبار سے اس وقت تک ایک بے مایہ زبان تھی، تھوڑے عرصے میں اسے اعلیٰ علمی جواہر ریزوں سے مالا مال کر دیا۔ مغربی علوم کی کتب کے اردو زبان میں تراجم بھی سر سید کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ صحافت کے میدان میں بھی سر سید کوکامیابی نصیب ہوئی۔ اخبارات کی زبان عمدہ اور صاف ہوتی تھی۔ بہت کم اخبارات ایسے ہوں گے جن میں ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی آ رٹیکل عمدہ سلیس عبارت میں کسی نہ کسی مضمون پر نہ لکھا جاتا ہو۔سر سید نے صحافت کا رشتہ عام آدمی کی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق نے صحافت میں علمی متانت، فکر و فلسفہ اور سیاست و معاشرت میں جدید تصورات کو جگہ دی۔ تہذیب الاخلاق کا پرچہ قوم کی اصلاح کے لیے نکالا اور اردو انشا پردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس سے آگے اب تک ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ تہذیب الاخلاق نے اردو نثر نگاری کے لیے سادہ اور سیدھا راستہ کھول دیا۔
صحافت اور سیاسی رجحانات:
سر سید کے اخبارات کے زیرِ اثر صحافت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ دوسرے معاصر اخبارات نے بھی قومی اور سیاسی رجحانات کو بے خوفی سے پیش کرنا شروع کیا۔ اردو نثر میں مضمون نگاری کی ابتدا اورفروغ کا سہرا تہذیب الاخلاق اور سر سید کے سر جاتا ہے۔ اس سے قبل سیاسی، معاشی، معاشرتی و سماجی مسائل پرسنجیدہ مضامین لکھنے کا رواج نہ تھا۔ سر سید خود اس حوالے سے لکھتے ہیں:
”مضمون نگاری دوسری چیز ہے جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی۔ یہ اسی زمانے میں پیدا ہوئی اور ابھی بچپن کی حالت میں ہے۔“
مغربی تہذیب:
سرسید نے جہاں مذہبی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر قلم اٹھایاوہاں تعلیم، سائنس، انگریزدوستی، مغربی تہذیب کی اچھائیاں اور عام مسلمانوں کے حالات جیسے موضوعات کو نظر انداز نہیں کیا۔ان مضامین نے نہ صرف سر سید کی تحریک کے مفادات کو آگے بڑھایا بلکہ اردو نثر کا وقار بھی بلند کیا۔
اخلاقی مضامین:
نئے اسالیب کو متعارف کرانے اورقابلِ قبول بنانے میں سر سید اور ان کے رفقاکا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ بہ قول شبلی سرسید ہی کی بدولت اُردواس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائروں سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زورِ اثر وسعت و جامعیت، سادگی وصفائی سے اداکر سکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی میں آج تک یہ بات نہیں۔
اصلاحی تحریک:
سرسید سے قبل کی اردو شاعری کے موضوعات زیادہ تر عشق و محبت، گل و بلبل اور ہجر و وصال تک محدود تھے۔سرسید نے اُردو کی روایتی اصناف اور ان کے موضوعات پر تنقید کرتے ہوئے اُردو شاعری میں وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی اصناف کو فروغ دینے کی وکالت کی۔ حالی و شبلی سر سید کی اس سوچ کو فروغ دینے میں سر عمل نظر آئے۔ سرسید کے دور سے پہلے کی شاعری اس منظم اجتماعی اور معاشرتی احساس کی حامل نہیں تھی جو حالی و شبلی کی نظموں کا خاصہ ہے۔سر سید نے ایک اصلاحی تحریک کے ذریعے ادب کی معاشرتی اور تہذیبی اہمیت کو سامنے رکھ کراردو میں مقصدی شعر و ادب کی تخلیق کی ایسی روایت قائم کی کہ اردو شاعری حیات و کائنات کے مسائل کی ترجمانی کے قابل ہوگئی۔
سرسید کا اسلوب:
اس سے پہلے کہ ہم سرسید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سرسید کے قول کو نقل کرتے ہیں،
”ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف، جیسی کہ دل میں موجود ہو، منشیانہ تکلفات سے بچ کر، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔
دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لیے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لیے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
سادگی:
سرسید احمد کی نثر سادہ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں:
”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“
بے تکلفی اور بے ساختگی:
سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے، وہ اپنے مضمون”امید کی خوشی“ میں لکھتے ہیں۔
”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی،خوشی کے لیے۔ نام آوری، نام آوری کے لیے، بہادری،بہادری کے لیے، فیاضی، فیاضی کے لیے، محبت، محبت کے لیے، نیکی، نیکی کے لیے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔“
اصلاح:
سرسید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل مقصد کیاہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت و افادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انہیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لیے دقت کا موجب بنتی ہے۔
ظرافت:
سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں،
”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“
ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے،
”اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“
متانت اور سنجیدگی:
سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لیے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔ بقول سید عبد اللہ،
”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“
اثر انگیزی:
سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لیے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:
”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“
تسلسل و روانی:
سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لیے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:
”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ، فن تعمیر، سیرت، فلسفہ، مذہب، قانون، سیاسیات، تعلیم، اخلاقیات مسائل ملکی، وعظ و تدکیر، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“
متنوع اسلوب:
سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضا کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔
سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی، ادبی، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔
راست بازی:
سرسید کے فقروں اور پیراگراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے۔ جملے طویل ہیں۔ انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریریں ادبیت سے خالی ہیں۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے۔ سرسید اکھڑی اکھڑی تحریروں، بے رنگ اور بے کیف، جملوں، بوجھل، ثقیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا، محسوس کرکے لکھ رہا ہے۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے۔ اس کے پیش نظرنہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے۔
مقصدیت:
سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ الفاظ کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔

Leave a Comment