جواب:موازنہ میر و غالب:
بعض نقاد غالب کو جدیدیت کا پہلا بڑا اور اہم شاعر قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے میر کے رنگ سخن سے بڑی کاری گری اور کامیابی سے رنھ لیا اور اپنی ایک جداگانہ عمارت تعمیر کی۔ بقول ناصر کاظمی:
”…… میر صاحب کا پہلا تخلیقی طالب علم تو غالب ہی ہے۔ اگرچہ غالب اپنا ایک قطعی منفرد اُسلوب رکھتے ہیں تاہم وہ خود کو میر کے اثرات سے بچا نہیں سکے۔ میر کی دیوانگی اور جنوں کے بعض تیور غالب کے یہاں ملتے ہیں۔ میر ہی کی طرح ایک نئی مکمل اور حسین دنیا تخلیق کرنے کی آرزو غالب کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ دونوں کے ہاں صدائے احتجاج بھی کافی بلند ہے۔ دونوں کے ہاں طنز و واسوخت کا انداز بھی جھلکتا ہے۔ دونوں کے ہاں بے پناہ آسودگی، بے پایاں تشنگی اور نظام کائنات کو تبدیل کر دینے کی خواہش کا اظہار بھی ملتا ہے۔ غالب نے خود بھی ایک تضمین میں کہا ہے:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب نے اپنے اُردو دیوان میں میر کا تین مرتبہ ذکر کیا ہے:
ریختہ کے تمھی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
جذباتی تعلق:
غالب اپنی منفرد شخصیت اور شاعری کے باوجود میر کی شخصیت اور کلام سے گہرا جذباتی تعلق رکھتے تھے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
”غالب اور میر بعض ظاہری خصائص کی بنا پر ایک دوسرے سے اتنے دور معلوم ہوتے ہیں کہ بادی النظر میں ان کے ذہنی روابط کا خیال بھی عجیب سا معلوم ہوتا ہے……مگر باوجود اس بُعد ظاہری کے ”غائر مطالعہ‘ ہمیں اس فیصلے تک پہنچاتا ہے کہ غالب، میر سے اتنے دور نہیں جتنا ہم ان کو سمجھنے لگتے ہیں۔“
فکر و نظر:
میر اور غالب کے احساس اور فکر و نظر کے بعض انداز ایک دوسرے کے انتہائی قریب واقع ہوئے ہیں۔ چناں چہ اظہار و بیان کی بعض صورتیں دونوں کے کلام میں اپنی منفرد خصوصیات رکھنے کے باوجود مماثل دکھائی دیتی ہیں۔ ظاہر ہے زمانی اعتبار سے میر کو تقدم حاصل ہے لہٰذا غالب نے میر سے اثرات قبول کیے ہیں۔ میر اور غالب میں جو اشتراکات نظر آتے ہیں ان میں ہم طرحی غزلیں، لفظوں اور جملوں اور اسالیب اور کسی حد تک فکر و نظر کا اشتراک ہے۔ ہم طرحی غزلیں اگرچہ زیادہ نہیں ہیں تاہم موجود ضرور ہیں۔
میر تقی میر:
کیا طرح ہے آشنا گاہے، گہے نا آشنا
یا تو بیگانے ہی رہیے، ہو جیے یا آشنا
غالب:
خود پرستی سے رہے باہم دگرنا آشنا
ہے کسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا
میر:
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا
غالب:
دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
میر:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
غالب:
وحشی بن صیاد نے ہم رم خوروں کو کیا رام کیا
رشتہ چاک دریدہ صرف قماش آرام کیا
میر:
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
غالب:
کیوں جل گیا نہ تابِ رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
محاورات و اسالیب:
بعض محاورات اور اسالیب جنھیں میر نے برتا ہے، انھیں غالب نے بھی استعمال کیا ہے۔ اسے میر کے کلام ہی کے اثرات کہا جا سکتا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
میر:
تیز یوں ہی نہ تھی شب آتشِ شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی
غالب:
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
میر:
نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا
غالب:
خدا معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سر شک آلود ہونا تیری مژگاں کا
میر:
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں ترے تیغ کے لگانے کا
غالب:
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
طرحی غزلیں:
غالب نے میر کی طرحوں میں جو غزلیں کہیں ہیں وہ غالب کے ابتدائی زمانے کی بھی ہیں اور بعد کے زمانے کی بھی۔ گویا غالب کی میر کے کلام سے دل بستگی ہمیشہ قائم رہی ہے۔ اس دل بستگی کا تعلق محض غالب کے آخری دورِ شاعری سے نہیں ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے غالب پر میر کے اثرات دکھاتے ہوئے یہاں تک خیال ظاہر کیا ہے:
”……مرا غالب عموماً رنگِ بیدل میں روح میر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر بیدل کے نمایاں اثر کے باوجود ان پر میر کی گرفت بھی خاصی مضبوط معلوم ہوتی ہے۔“
……٭……٭……٭……