سوال: سحرالبیان میں دہلی کی تہذیب و معاشرت کی بھرپور عکاسی ملتی ہے، جواب دیجیے۔


  جواب : مثنوی:


مثنوی کا لفظ عربی زبان کے لفظ ”مثنیٰ“ سے نکلا ہے۔ جس کے لغوی معنی دو تہوں والا یا دو جز والی چیز کے ہیں۔ یعنی اِس کا مفہوم یہ ہے کہ ”دوہرا کرنا۔“ اصطلاح میں مثنوی اُس مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوں۔ یہ صنف اشعار کی تعداد کے اعتبار سے غزل کی طرح محدود نہیں ہے۔ مثنوی ایک طرح کی منظوم داستان ہوتی ہے۔
مثنوی کی ہئیت:
مثنوی اپنی ایک جدا ہئیت رکھتی ہے مگر اسے کسی دوسری صنف مثلاً نظم کے لیے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اِس کی مخصوص ہئیت میں بہت سی نظمیں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثنوی نگاری کے اصول و ضوابط کے ضمن میں مثنوی کے لیے ربط اور تسلسل میں شرط ہے۔ کسی بھی واقعے یا قصے کو نظم کرتے ہوئے ایک خاص ترتیب اور تناسب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
مثنوی سحرالبیان کا تنقیدی جائزہ:
مثنوی سحرالبیان جس کا عرصہ تخلیق- (1784-1785ء) ہے، اردو مثنوی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مثنوی سے میر حسن اور ان کے دور کے مذہبی افکار و اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روایتی طرز فکر اور تصور زندگی کا جزو بن چکے تھے۔ سحر البیان اس دور کے مذہبی اعتقادات، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے جب اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ایک تہذیب بن رہی تھی، سحر البیان میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لیے اس میں مثنوی گلزار نسیم کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں، نیز اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔ پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں:
”اگر کوئی شخص اختلاف کرنے پر آئے تو اختلاف ہر بات سے ہو سکتا ہے اس لیے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحر البیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت کے ساتھ اختلاف نہ ہوگا۔ کیونکہ کہانی اور اندازِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جن کا مطالعہ اس کی عظمت کا پتہ دیتا ہے۔“
شہزادی کا حسن و جمال:
شہزادی کے حسن و جمال اور لباس وغیرہ کی تفصیلات میں میر حسن نے صرف ساٹھ اشعار سے کام لیا۔اس سے کردار کی جزئیات پر ان کی نظر کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ زبان کے حوالے سے بھی میر حسن نے کردار نگاری کا حق بخوبی اد ا کیا ہے۔ شہزادی کی زبان، عورتوں کی زبان، پنڈتوں اور رمالوں کی زبان، ان سب میں تفاوت و تفریق کرداروں کے لحاظ سے برابر موجود ہے۔ مثلاً:

جنم پترا شاہ کا دیکھ کر
تلا اور برچھیک پر کر نظر

کہا رام جی کی ہے تجھ پر دیا
چندر ماں سا اک بالک ترے ہوئیگا

نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن
نہ ہو گر خوشی تو نہیں برہمن

مہاراج کے ہوں گے مقصد شتاب
کہ آیا ہے اب پانچویں آفتاب

نصیبوں نے کی آپ کے یاوری
کہ آئی ہے اب ساتویں مشتری

مقرر ترے چاہیے ہو پسر
کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر
ان اشعار میں ہند ی الفاظ کی ملاوٹ اور لب و لہجہ سے ایک برہمن کا کردار ہی ہمارے سامنے آئے گا۔ اسی طرح سب کرداروں کی زبان ان کے طبقہ کے مطابق ہے۔

منظر نگاری:
مثنوی کی ایک اور بڑی خوبی جس نے اسے بام کمال تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ منظر نگاری ہے۔جدید شاعری میں منظر نگاری کا نکتہ آغاز انجمن پنجاب کے مشاعروں سے ہوا۔حالی اور آزاد نے ہالرائیڈ کی تحریک پر فطرت اور فطرت کے مناظر کی تصویر کشی کے لیے شعوری طور پر کوشش کی۔اور اس تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں فطرت کے مناظر کی تصویر کشی کو عالمی ادب میں رومانوی ادب کی تحریک سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔آگے چل کر اختر شیرانی اس تحریک کے سب سے بڑے علم بردار بنتے ہیں لیکن حالی، آزاد اور اختر سے صدیوں پہلے منظر نگاری کے جو نمونے سحر البیان میں ملتے ہیں وہ ساری جدید شاعری میں کم یاب ہیں۔
تخیل:
عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں کہ میر باوجود سادگی کے محاکات سے زیادہ تخیل سے کام لیتے ہیں۔ سودا کا مزاج اگرچہ بیرون بین تھا مگر اس کے باوجود ان کی شاعری میں مناظر کی ایسی سچی تصاویر موجود نہیں۔یعنی حسن کے سامنے محاکات یا منظر نگاری کا کوئی مثالی نمونہ موجود نہ تھا۔ اس کے باوجود ساری مثنوی میں منظر نگاری کی روح سرایت کیے ہوئے ہے۔مولانا شبلی نعمانی نے سحر البیان کی اس خوبی کا اعتراف مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
”اس مثنوی کا خاص وصف واقعات اور کیفیات کا سین دکھانا ہے۔ وہ جس واقعہ یا کیفیت کو لکھتے ہیں اس کا سماں باندھ دیتے ہیں۔“
میر حسن کی اس خوبی کا احسا س ہمیں مثنوی کے مطالعے کے دوران ہر صفحے پر ہوتا ہے۔”داستان باغ کی تیاری میں“ باغ کا نقشہ جن الفاظ اور جس تفصیل سے کھینچا ہے قابل داد ہے۔

وہ گل کا لب نہر پر جھومنا
اسی اپنے عالم میں منہ چومنا

وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر
نشے کا سا عالم گلستان پر

چمن آتش گل سے دہکا ہوا
ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا

محفل رقص کا منظر:

کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
وہ پاؤں میں گھنگھرو چھنکتے ہوئے

وہ بالے چمکتے ہوئے کان میں
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں

وہ مہندی کا عالم وہ توڑے چھڑے
وہ پاؤں میں سونے کے دو دو کڑے

چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی

وہ گھٹنا وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ
دکھانا وہ ر کھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ

کبھی دل کو پاؤں سے مل ڈالنا
نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا

حسن بیاں:
بیان کی سادگی و سلاست، روز مرہ کی خوبی، محاورہ و ضرب الامثال کی برجستگی، الفاظ و تراکیب کی شیرینی…… یہ تمام خوبیاں میر حسن کی قادر الکلامی اور پختہ جمالیاتی ذوق کی بین شاہد ہیں۔سحر البیان سادگی اور بے تکلفی کا عمدہ نمونہ ہے۔جہاں اشعار کا بے ساختہ پن اور سادگی دل پر اثر کرتی ہے وہاں شعریت بھی دماغ کو مسحور کرتی ہے۔موسیقیت اور ترنم کا یہ عالم ہے کہ اشعار دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔بیان کی سادگی میں اتنی پر کاری ہے کہ قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔محاوروں کا استعمال ایسا بر محل اور خوب صورت ہے کہ کسی اور مثنوی میں نہیں پایا جاتا۔الفاظ کا انتخاب بلا کا خوبصورت ہے اور سادگی میں روکھے پن کی بجائے ایک جاندار کیفیت ہے۔
مذہب:
مذہب کے حوالے سے جہاں تک مثنوی کے موضوع میں گنجائش تھی۔اس کے معاشرتی خد و خال کی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ تصویر اتنی واضح اور مکمل ہے کہ اس کے تمام خطوط قاری پر نقش ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہندو مت کے اثرات بھی آپ شیڈ کے طور پر واضح محسوس کرتے ہیں۔ مذہب معاشرت کا سب سے اہم حصہ ہے اور اس کی عکاسی اس لحاظ سے بھر پور بھی ہے اور جان دار بھی۔
رہن سہن:
مذہب کے بعد رہن سہن کے طریقوں کا ذکر آتا ہے۔یعنی اس معاشرے کا طرز زندگی، مذاق اور دلچسپیاں کیا تھیں۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ مثنوی جس ماحول کی ترجمان ہے وہ نشاط و مسرت، خوش وقتی اور فارغ البالی کا ماحول ہے۔کیونکہ اس کا تعلق بادشاہوں، امرا اور اہل ثروت افراد کے ماحول کے ساتھ ہے۔جس اودھ کے دربار اور مثنوی میں پیش کردہ ماحول کا ہم ذکر کر رہے ہیں و ہ دراصل لکھنوی اہل نشاط کا دور ہے۔میر حسن کو چونکہ خود بادشاہوں اور امرا کی صحبت ملی اس لیے وہ اس ماحول کے قریبی جاننے والوں میں سے ہیں۔اور اس کا ذکر وہ بڑی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔
کردار نگاری:
میر حسن کا زمانہ بادشاہوں اور درباروں کا زمانہ تھا یا کم از کم ان کے ارد گرد کا ماحول یہی تھا۔ اس لیے قصہ لکھتے ہوئے ایسے ہی کردار معاشرت کی سب سے زیادہ صحیح عکاسی کر سکتے تھے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عہد کے سارے نابغہ روزگار افراد ہی نہیں مفت خورے بھانڈ اور بھگتیے بھی ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔سحر البیان میں اس تمدن کا پتہ چلتا ہے جو دربار اور اس کے ارد گرد پایا جاتا ہے۔ وہی مسرت کی ترنگ وہی عشق و عاشقی کی امنگ وہی شان و شوکت وہی تزک و احتشام وہی سخاوت اور وہی لونڈیوں کی بھر مار دکھائی دیتی ہے۔
معاشرتی اور تہذیبی شعور:
حسن نے معاشرت کی چلتی پھرتی تصویروں کے لیے تمام ضروری ر نگوں کا استعمال کیا ہے۔مثلاً اس عہد کے علوم کا ذکر شہزادے کی تربیت کی ذیل میں، اس عہد کے سنگار کا ذکر شہزادی کی چوٹی کی تعریف کی ذیل میں، اس عہد کے لباسوں کا ذکر، اس عہد کے کھانوں کا ذکر، اس عہد کے مختلف پیشوں کا ذکر۔۔۔ الغرض معاشرت کے ہر پہلو کی ضروری تفاصیل اور ان کے مناسب مقام پر استعمال سے اس عہد کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔ اس زمانے کے معاملات، رہنے سہنے کے انداز، شادی بیاہ کی تقریبات، ان تمام حوالے سے سحر البیان میں دکھائی دیتے ہیں۔ میر حسن نے اپنے زمانے کی تصویر کشی میں فعال کردار ادا کیا۔
باطنی خدو خال:
حسن کی مثنوی سے جہاں اس معاشرت کے ظاہری رنگ و روپ کا پتہ چلتا ہے وہاں اس کے باطنی خدو خال بھی واضح ہوتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس حوالے سے مثنوی کا بڑا کار آمد مطالعہ کیا ہے۔ان کے نزدیک یہ مثنوی اس ڈوبتی تہذیب کا ایسی ترجمان ہے کہ اس کی مدد سے اس دور کو دوبارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔یہ تہذیب عمل اور جدوجہد سے عاری تھی۔ایسی ہی تصویریں ہمیں مثنوی کے کرداروں میں بھی نظر آتی ہیں۔شہزادہ بے نظیر کو مہ رخ پری اٹھا کر لے جاتی ہے۔تو شہزادہ آزادی کی جدوجہد کرنے کے بجائے آنسو بہانے کا کام کرنے لگتا ہے۔

سحر البیان میں مقامی رنگ:
میر حسن کی مثنوی سحر البیان میں جو ماحول دکھایا گیا ہے، اُس میں ایرانی مزاج اور ہندی ماحول آپس میں گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ سحر البیان میں کچھ چیزوں کا تعلق ایرانی ماحول سے ہے اور کچھ کا تعلق ہندوستانی ماحول سے ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ مثنوی نگاروں پر ایرانی مثنوی کی روایت کا بڑا اثر تھا۔ چناں چہ بہت سے عناصر اردو مثنوی میں فارسی سے اثر پذیری کے باعث داخل ہوئے۔ دوسرا یہ کہ اُس زمانے کی ہندی تہذیب اور رسوم و رواج بھی اہمیت کے حامل تھے۔ گوپی چند نارنگ نے خاص طور پر میر حسن کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ میر حسن جہاں باغ کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں ایرانی پھولوں کا تذکرہ بھی ہے اور ہندوستانی پھولوں کا بھی۔ میر حسن شادی بیاہ کی رسومات کو بیان کرنے میں ہندی تہذیب سے بہت کچھ اخذ کرتے ہیں۔
سحر البیان کا اسلوب:
میر حسن کی مثنوی سحر البیان فنی خصوصیات کی بنا پر حد درجہ جاذب نظر ہے۔ اس کے اسلوب میں جو بہاؤ ہے، روانی اور سادگی ہے، اس کی تعریف تمام نقادوں نے کی ہے۔ میر حسن نے شعری محاسن یعنی تشبیہوں اور رعایت لفظی کا خوب صورت استعمال کیا ہے۔ اس میں نغمگی اور غنایت بھی قابل توجہ ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے خیال میں مثنوی لکھنؤ کے فنی اور جمالیاتی ماحول میں تخلیق ہوئی لیکن اُس کو تخلیق کرنے والا ایک ایسا شخص ہے، جس کی شخصیت کی نشو و نما دہلی کے فنی اور جمالیاتی ماحول میں ہوئی۔

Leave a Comment