تبصرہ نگار: محسن حیات شارف
”مس کون سی سناؤں؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”کون سی؟ سبحان اللہ اب یہ میں بتاؤں کہ کون سی… تمہاری بہن کا کوئی کام کبھی ادھورا نہیں ہوا اور ایک تم مجھ سے یہ سوال کر رہی ہو کہ کون سی آیات سناؤں؟“ پہلے طنز اور پھر انہوں نے اس کی وی پکڑ کر اسے اپنی جانب گھسیٹا اور دونوں گالوں پر سخت طمانچے رسید کیے۔ وی کھینچے جانے پر اس کی شرٹ کے بٹن کھل گئے۔ اندر کی شمیز نظر آنے پر وہ اس شرمندگی اور ذلت کو برداشت نہ کر سکی اور اس کا پیشاب خطا ہو گیا۔
(منچلی ۔ ۔ ۔طاہرہ ناصر)
محترمہ طاہرہ ناصر کے ناول ”منچلی“ کے بارے میں پہلی بار ان کی وال سے معلوم ہوا۔ ناول کا موضوع منفرد تھا۔ تھیم ہٹ کے تھی۔ اس پر ہونے والے تبصرے بھی جی للچانے کا باعث بن رہے تھے۔ اس لیے پختہ ارادہ تھا کہ یہ ناول ضرور خریدیں گے لیکن ہماری ازلی سستی اور آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادت نے اس معاملے کو لٹکائے رکھا اور آخر 13 جون عصر کے وقت طاہرہ ناصر صاحبہ کے آٹوگراف کے ساتھ یہ تحفہ موصول ہوا۔
عادت کے مطابق ورق گردانی شروع کی تو کہانی نے اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر ناول مکمل کر کے ہی رکھا۔ ناول مکمل کرنے کے بعد بہت دیر تک بیٹھا اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔ ناول کے بارے میں پڑھا تھا کہ اس کا موضوع بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی ہے لیکن پڑھ کر پتا چلا کہ اس کہانی کا کینوس بہت وسیع ہے۔
یہ کہانی بنیادی طور پر معاشرے کے ان دو کرداروں کو اپنا موضوع بناتی ہے کہ جو ہماری زندگی کے بنانے میں اہم کردار کرتے ہیں یعنی والدین اور اساتذہ ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہماری زندگی بگاڑنے میں اور تباہ کرنے میں بھی ان دو کرداروں کا اہم کردار ہے۔ ہم عموماً والدین اور اساتذہ کی ان جذباتی ، اخلاقی اور نفسیاتی حالت کا ذکر نہیں کرتے کہ جو ایک بچے کی زندگی مکمل طور پر تباہ کر دیتی ہے۔ اس ناول میں اسی پر بات کی گئی ہے۔
یہ بات زور و شور سے کی جاتی ہے کہ والدین اپنی تمام اولاد کو ہمیشہ ایک جیسا سمجھتے ہیں اور ان کی بہتری کے لیے روک ٹوک کرتے ہیں اور اساتذہ کی ہر ڈانٹ اور مار کے پیچھے طالب علم کی بھلائی چھپی ہوتی ہے۔ طاہرہ ناصر صاحبہ نے اس بات کو رد کرتے ہوئے معاشرے کا حقیقی چہرہ دکھایا ہے۔ والدین کے اپنے نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں ۔ ان کی اپنی ضدیں اور انا پرستی ہوتی ہے کہ جس وجہ سے وہ اپنی ہی سگی اولاد کے ساتھ مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے ماضی کا بدلہ اپنی اولاد سے لیتے ہیں اور اساتذہ بھی کسی طالب علم سے خدا واسطے کا بیر پال لیتے ہیں۔ اس کہانی میں ثناء کے ساتھ اس کے رشتے کے ماموں جو زیادتی کرتے ہیں وہ تو انتہائی تکلیف دہ ہے لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ اس زیادتی کا اپنے گھر والوں کو نہیں بتا سکتی تھی کیونکہ اس کے اپنے والدین اس سے زیادہ اس کے ماموں پر بھروسہ کرتے تھے۔ یہ بات زیادہ کربناک تھی کہ اسے اپنے والدین سے وہ اعتماد نہ مل سکا کہ وہ اپنے مسائل ان سے بانٹ سکے۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو من موجی ہے۔ جس کا پڑھائی سے زیادہ اشتیاق احمد صاحب کے ناولوں میں دل لگتا ہے۔ جو سائنس اور ریاضی کی بجائے اردو ادب اور ڈرائنگ میں دلچسپی رکھتی ہے۔ جو اسکول میں تو اپنی دوستوں میں ہر دلعزیز ہے لیکن گھر میں اپنی ہی ماں کی نفرت اور عتاب کا شکار۔ ناول میں کچھ ایسے منظرنامے بھی تھے کہ جہاں مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا کیونکہ یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے حقیقت میں دیکھ چکا ہوں۔ ان میں سے ایک منظر کا ذکر شروع میں کیا ہے۔یہ کہانی ثناء کی ہے کہ جس کی زندگی میں صالحہ آپی اور مس فوزیہ کی صورت میں ایسی مہربان ہستیاں بھی موجود ہوتی ہیں کہ جب اس پر قیامت بیتتی ہے تو وہ ان دو سے اپنی حالت بیان کر سکتی ہیں ۔یہی دو محبت کرنے والی شخصیات اس بکھرتی بچی کو مکمل بکھرنے سے بچا لیتی ہیں اور یہاں سے سفر شروع ہوتا ہے ثناء کے مضبوط بننے کا۔ وہ اسکول کی سیاست میں حصہ لیتی ہے ، وہ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے لیکن اس دوران وہ کوئی سپر گرل نہیں بن جاتی بلکہ ایک عام لڑکی ہی رہتی ہے کہ جو فیل بھی ہوجاتی ہے ، جس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ، جو جھوٹ بولتے ہوئے پکڑی بھی جاتی ہے اور اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھی بھگتتی ہے۔
یہ ناول پڑھتے ہوئے اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ مبالغہ آرائی کی کی گئی ہے تو میں یہ کہوں گا کہ یہ ہرگز مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ سچ اس سے زیادہ بھیانک اور کریہہ ہے۔ یہاں بچوں کی اکثریت کی زندگی میں اپنی نفسیاتی الجھنوں کا شکار مائیں ، خاموش باپ ، طنز اور طعنوں سے دل جلانے والے اساتذہ اور موقع کی تلاش میں سہیل ماموں تو موجود ہیں لیکن ہر بچے کے پاس صالحہ آپی اور مس فوزیہ نہیں ہیں کہ جو انہیں سنبھال سکیں۔ اس لیے ان کی زندگی کی کہانی میں اتنے خوشگوار لمحات نہیں ہوتے۔