یومِ آزادی میں ایک دن باقی تھا۔ ملک بھر میں اس کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔اس موقع پر مجھے آل پاکستان تقریری مقابلہ میں قسمت آزمائی کرنا تھی۔ یہ مقابلہ سال میں ایک بار منعقد کیا جاتا تھا، جس کا مجھے بڑی بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔ بچپن ہی سے مجھے مقرر بننے کا جنون تھا۔سکول کے زمانے سے میں ایسے مقابلوں میں شرکت کرتا آیا تھا اور اب میں یونی ورسٹی کا طالب علم تھا مگر آج تک اوّل انعام سے محروم رہا تھا۔ اس بار مجھے چھٹی حس یہ احساس دلا رہی تھی کہ اوّل انعام میرے علاوہ کسی کے حصے میں نہیں آئے گا۔ میں نے تقریر کے لیے خوب تیاری کی۔ عمدہ معلومات کے ساتھ کئی مضبوط حقائق میری تقریر میں شامل تھے۔ اچھی لفاظی اور بہترین اشعار کا انتخاب کیا تھا۔میں نے اپنی تقریر گھر والوں کے سامنے پیش کی، جسے سب نے بہت سراہا۔ دوستوں نے بھی خوب حوصلہ افزائی کی۔ بس اب مجھے اُس گھڑی کا انتظار تھا جب سٹیج پر میرا نام پکارا جانا تھا۔
آج وہ دن بھی آ ہی گیا۔ تیاری ہر لحاظ سے پوری تھی، حلیہ بھی بہتر تھا بس سر کے بال ذرا بگڑے ہوئے تھے۔میں ایسے حجام کی تلاش میں چل نکلا،جہاں مجھے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑتا۔میں مارکیٹ میں گشت کرنے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے آج ہی کے دن سب کو بال کٹوانے تھے۔ جس دکان پر جاتا، آگے لمبی قطار پاتا۔ قریب آدھا گھنٹہ تو اسی تلاش میں گزر گیا۔بالآخر مجھے مطلوبہ حجام مل گیا۔اس دکان میں حجام کے علاوہ ایک ہی شخص تھا جو گردن جھکائے بال منڈوا رہا تھا۔ میں انتظار کے لیے نشست پر بیٹھ گیا۔ میرے خیالوں پر تقریری مقابلہ چھایا ہوا تھا۔ اس لیے آس پاس کی دنیا سے میں کٹ سا گیا تھا البتہ ظاہری طور پر میری نگاہیں حجام کے فن پر جمی تھیں۔ حجام نے بال کاٹتے ہوئے میری جانب دیکھا تو جواباًمیں نے بھی اُس سے نظریں ملائیں۔ اُس کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں تھے۔ سبب کیا تھا؟ میں جان نہ پایا اور نہ ہی مجھے اس سے مطلب تھا۔مجھے تو آگے بڑھنا تھا،اوّل انعام حاصل کرکے نام کمانا تھا۔میں نے اُس پر سے دھیان ہٹانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اچانک مجھے حجام کی چال میں لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی۔ اس بار مجھ سے رہا نہ گیا۔
”بھائی جان! آپ چلتے ہوئے لنگڑا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟“
”میری ٹانگ میں فریکچر ہے۔“ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
”اوہ! جان کر دکھ ہوا۔یہ فریکچرہوا کیسے؟“
میں نے رسماً افسوس کے بعد پوچھا۔پاکستان میں فریکچر اس قدر کثیر تعداد میں ہوتے ہیں کہ اسے ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ عموماً اس کی کہانی بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ میرا ذہن اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہا تھا،پھر بھی رسماً مجھے ایسا انداز اپنانا پڑا۔
”چار سال قبل موٹر سائیکل حادثے میں یہ فریکچر ہوا تھا۔“ اُس کے منہ سے یہ سن کر میں دم بخود رہ گیا۔ چار سال بہت طویل عرصہ ہے۔ اب تک تو مکمل آرام آ جانا چاہیے تھا۔ میں ٹانگ کے ٹھیک نہ ہونے کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔ وہ میری کیفیت بھانپ گیا۔ وہ دھیرے سے مسکرایا،پھر کھنکارتے ہوئے بولا:
”میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں،پہلے آپ یہاں سیٹ پر تو بیٹھیے۔ آپ کی باری آ چکی ہے۔“
”اوہ! میں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔“ مجھے شرمندگی ہوئی۔
اب میں کرسی پر تھا۔ حجام نے میرے بالوں پردستی فوارے کی مددسے پانی چھڑکا اور ساتھ ہی اپنی کہانی سنانا شروع کر دی:
”چار سال قبل میں موٹر سائیکل پر کہیں جا رہا تھا کہ سڑک پر پھسلن ہونے کی وجہ سے حادثہ ہو گیا۔ میری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ میں بہت غریب آدمی تھا۔ آپریشن کروانے کے لیے میرے پاس رقم نہیں تھی۔ نیم حکیم سے طبی امداد لی مگر کام نہ چلا اور ٹانگ کے اندر پیپ پھیل گئی۔ میری تکلیف میں مزیداضافہ ہو گیا۔ نہ کھڑا ہوا جاتا تھا، نہ بیٹھنے لائق تھا۔ ڈاکٹروں سے رجوع کیا تو وہاں سے مجھے ٹانگ کٹوانے کی ہدایت ملی۔ میں ڈر گیا،کیوں کہ میں اپنے کنبے کا واحد سہارا تھا۔ میرے اپاہج ہونے سے میرا خاندان بری طرح متاثر ہو سکتا تھا۔ میری آہ و زاری کسی طرح ایک این جی او تک پہنچ گئی۔ این جی او نے مجھے سہارا دینے کے بجائے میرا استعمال کیا۔ امداد کے نام پر لاکھوں روپے لے کر چند ہزار خرچ کیے گئے۔ انتہائی سستے طریقے سے آپریشن کروایا گیا۔ ڈاکٹر ناتجربہ کار تھا۔وہ صحیح طور پر راڈ نہ لگاسکا۔ این جی او کا مقصد پورا ہوا تو اُس نے مجھے بے آسرا چھوڑ دیا۔ راڈ ٹھیک نہ لگنے کی وجہ سے اب گھٹنے میں چبھتا تھا۔ میں پاؤں پر کھڑا نہ ہو پاتا۔ میری حالت پہلے سے بھی بدتر ہونے لگی۔ راڈ کو ٹھیک انداز میں لگانے کے لیے جلد از جلد بڑا آپریشن کروانا ضروری تھا۔ اس بڑے آپریشن کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچہ بتایا گیا۔ یہ بہت بڑی رقم تھی، جس کا انتظام میں نہیں کر سکتا تھا۔ حالات نے ایسے آ گھیرا کہ بھیک مانگنا میری مجبوری بن گئی مگر میرا ضمیر مجھے اس کی اجازت نہ دیتا۔ میں پاکستان کا ایک خوددارشہری ہوں۔ میں نے لنگڑانا قبول کیا مگر بھیک مانگنا مجھے کسی طور قبول نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یوں محنت کے بل بوتے پر ڈیڑھ لاکھ کی رقم اکٹھی کرنا ممکن نہیں ہے مگر خودداری کو داؤ پر لگانا مجھے منظور نہیں۔ میں لنگڑاتے ہوئے محنت مزدوری کرتا ہوں، اپنے بچوں کے لیے آسانی پیدا کرتا ہوں۔ جب تک سانس ہے، خودداری پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔“ ساتھ ہی اُس حجام نے مجھے اپنی طبی معائنوں کی رپورٹیں دکھائیں۔
اُس کی کہانی سن کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ جس صورت میں بیٹھنا مشکل ہے، یہ لڑکھڑاتے ہوئے محنت مزدوری کر رہا ہے۔خود تکلیف جھیل رہا ہے مگر اپنے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہا ہے۔اچانک حجام کے روپ میں مجھے میرا پاکستان نظر آیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں پاکستان کے روبہ رو ہوں۔ میرا ملک بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ ملک بھی لڑکھراتے ہوئے اپنے بچوں یعنی قوم کے لیے آسانی پیدا کیے ہوئے ہے، مگر بچے کس قدر ظالم ہیں کہ اِسے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ میرا ملک پاکستان قرضوں کا محتاج ہو چکا ہے۔
اس کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ امداد کے نام پر بھیک مانگی جا رہی ہے۔ اربوں دکھا کر لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں۔ میرے ملک کی خودداری داؤ پر لگ چکی ہے۔ اِسے صرف خوددار پاکستانی ہی لوٹا سکتے ہیں۔ میرے ملک کی سلامتی اور استحکام میں حجام جیسے خوددار پاکستانی ہی اپنا کردار نبھا سکتے ہیں۔ خوددار پاکستانی سلامت رہیں گے تو ملک بھی خوددار کہلائے گا۔
بال منڈوانے کے بعد میں نے اُسے اجرت دی اور اُس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے دوستی کے رشتے کو قبول کیا۔
پنڈال میں لوگوں کا جم غفیرتھا۔ تقریری مقابلے کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہر مقرر پورے جوش اور ولولے کے ساتھ عوام کے دلوں کو گرما رہا تھا۔ حجام سے ملاقات کے بعد میں اپنی تقریر بالکل بھول چکا تھا۔میرے پاس الفاظ سے بڑھ کر احساسات تھے۔ میرے اندر لاوہ ابل رہا تھا۔ باری آنے پر میں نے مائیک سنبھالا اور تقریر کا آغاز کر دیا۔ خودداری پر بہت پڑھا،سنا تھا مگر جانے مجھ میں کون،کیا بول رہا تھا کہ الفاظ سیدھا لوگوں کے دلوں پر اثر کر رہے تھے۔ اِرادے نیک ہوں تو کامیابی مقدر بنتی ہے۔ جیسے ہی تقریر کا اختتام ہوا، پنڈال میں موجود حاضرین کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ہرسو خاموشی چھا گئی۔ اچانک حاضرین اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور خوب تالیاں بجانے لگے۔ جب انعامات تقسیم کرنے کی باری آئی تو مجھے اوّل انعام سے نوازا گیا۔ اعزازی شیلڈ کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روپے کا چیک میرے ہاتھ میں تھمایا گیا۔ برسوں سے دیکھے خواب کی تعبیر میں نے آج پائی تھی۔آج میں بہت خوش تھا۔ صدر مجلس نے آنے والے تمام لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ ملکِ پاکستان کی خودداری کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں پوری ایمانداری کے ساتھ صرف کریں۔ صدر مجلس کی اس بات پر یقیناً اکثریت نے یہ عزم کیا ہوگا کہ وہ خوددار پاکستانی بن کر ملک کی سلامتی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
سب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں مجلس سے رخصت ہوا اور سیدھا حجام کی طرف چل دیا۔ ڈیڑھ لاکھ کے چیک پر مجھ سے زیادہ اُس کا حق تھا۔ میں اُس خوددار پاکستانی کو پاؤں پر کھڑا ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ مدد لینے سے انکار کر دے گا، مگر ایک دوست کی طرف دیا جانے والا تحفہ وہ ٹھکرا نہیں سکتا تھا۔٭