جواب: میر کی شاعری میں فکری عناصر:
زندگی اور کائنات کے اسرار و رموز کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جسے میر نے اپنی شاعری میں پیش نہ کیا ہو۔ ان کے بعض تصورات تو بڑے انوکھے اور خیال انگیز ہیں۔ اعلیٰ فکری حقائق کے بیان کے ساتھ ساتھ میر کے ہاں سوچ اور تفکر کا عنصر بھی بکثرت ملتا ہے۔
مشاہدے کی کیفیت:
یہ بات طے ہے کہ میر کوئی فلسفی نہ تھے بلکہ ایک شاعر تھے لیکن اس کے باوجود وہ مظاہر زندگی سے متعلق ایک حکیمانہ رویہ ضرور رکھتے تھے۔ میر جب مظاہر عالم پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت یا تحیر میں گم ہو جاتے ہیں لیکن جب تحیر کی گرفت سے نکل کر تعقل کی طرف آتے ہیں تو ان کے ذہن میں ان گنت تعجب انگیز سوالات ابھرتے ہیں کیوں کہ وہ کائنات کو سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو
دل کی پاکیزگی:
میر دل کی پاکیزگی پر بڑا زور دیتے ہیں۔ دل کی پاکیزگی و صفائی ریاضت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ریاضت میں پہلا مرحلہ مشاہدہ ہے۔ میر کے کلام سے واضح ہے کہ وہ حواس کے ذریعے کائنات اور فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن وہ فطرت کے مشاہدے سے لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ بصیرتیں ھاصل کرتے ہیں۔
دل عجب نسخہ تصوف ہے
ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے
میر پر تنقید:
شمس الرحمن فاروقی اُردو کے ان گنے چنے نقادوں میں شامل ہیں جنہیں رجحان ساز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ فاروقی خود شاعر ہیں اور اسی لیے انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ شعر پر اظہار خیال کریں۔ ورنہ اردو کی ایک بڑی عجیب و غریب روایت بن گئی ہے کہ ایسے بر خود غلط لوگ جو شعر کی نزاکتوں سے واقف ہونا تو کجا‘ صحیح طریقے سے شعر پڑھ بھی نہیں سکتے‘ وہ شاعری اور شعریت پر بے تکان رائے دیتے ہیں۔ اور اس سے بڑی بو العجبی یہ ہے کہ ان کی رائے کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ تدریس سے وابستہ ہو تو کیا کہنے۔ اس کے پیچھے کئی باتیں ہیں۔ ذاتی مفاد‘ خوشامد پسندی‘ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ اگر ہم نے ان لنگڑے لولے ذہنی اپاہج قسم کے نقادوں کی رائے کو اہمیت دی تو کل یہی لوگ ہماری بات بھی بدلے کے طور پر دہرائیں گے۔ اور اس طرح علم و ادب کے نقاد کی حیثیت سے ہماری شخصیت بھی ابھر سکے گی۔ لیکن وقت سب سے بڑا نقاد ہے۔ ایک طرف وہ بے کار قسم کی تخلیقات کو نگل جاتا ہے تو دوسری طرف لایعنی تنقید بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بات اٹل ہے کہ تخلیق ہو یا تنقید، اگر اس میں گہرائی نہ ہو تو وقت کا تیز رد دریا اسے اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
کیوں کہ جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقام حیرت ہے
چاروں اور انہیں ہے کوئی یاں واں یونہی دھیان گیا
تفکر:
مشاہدے کے بعد غور و فکر کی منزل آتی ہے۔ میر کائنات کے مظاہر و مناظر پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ان کے یہاں مشاہدہ کے ساتھ ساتھ غور و فکر کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بصیرتوں کے حصول کے لیے غور و فکر لازم ہے۔ تاہم میر کے ہاں فکریات کا کوئی باقاعدہ اور منظم نظام نہیں ہوتا مگر بحیثیت مجموعی فکر کی سنجیدہ کوششیں ضرور ملتی ہیں۔
فلسفیانہ مضامین:
انھوں نے فلسفیانہ مضامین محض روایات کی تقلید میں منظوم نہیں کیے بلکہ انھیں اپنا تجربہ بنا کر اور اپنی فکر کا رنگ چڑھا کر قبول عام لب و لہجہ میں بیان کیے ہیں۔ میر غور وفکر اور تاملات کی لذتوں سے خوب واقف تھے البتہ وہ انہی لذتوں میں کھو کر نہیں رہ جاتے۔
تاریخی حافظے کا شاہد:
میر زندگی کے نہایت بھرپور تجربہ کا شاعر تھا۔ ایک ایسا شاعر کہ جس نے اپنے عہد کے کرب ناک مناظر دیکھے۔ وہ ہمارے تہذیبی اور تاریخی حافظے کا شاہد تھا۔ اس نے تاریخ کو نہایت تیزی سے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا۔ اس عذاب کو اس نے اپنی ہڈیوں سہا وہ تہذیبی زوال اور آشوب کا مورخ بھی تھا اور نوحہ خواں بھی۔ ان کے اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا ہر ایک شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔
میر کا درد و الم:
زندگی کے بارے میں میر کا نقطۂ نظریہ حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے درد و الم سے عبارت ہے جو اپنے اندر تفکر اور تخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ میر کا تصور زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں حزن و ملال کا وجود بہت زیادہ ہے مگر یہ حزن و ملال ہمیں زندگی سے نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ میر کا کمال فن یہی ہے کہ اس نے کانٹوں پر زندگی بسر کرنے کے بعد بھی زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس دلایا:
”مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے درد وغم کتنے کیے جمع تو دیوان ہوا“
چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
متصل روتے رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں
میر کا تصور غم:
میر کا تصور غم تخلیقی اور فکری ہے یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط،سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ حزن و الم سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اسے فرحت و نشاط بنادیتے ہیں۔ میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمارے احساسات و جذبات اور افکار و نظریات میں وہ برداشت اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہا جاتا ہے:
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کی دردمندی:
میر کی شعر و شاعری میں درد مندی حزن و الم کا دوسرا نام ہے۔ دردمندی سے مراد زندگی کے اندر درپیش آنے والے تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور حتی المقدور ان تلخیوں کو دور کرنے کی سعی و کوشش کا نام ہے۔ درد مندی ان کی حیات مبارکہ کے تضادات سے جنم لیتی ہیں درد مندی کا منبع و مصدر قلب ہے میر کہتے ہیں:
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ ہے
دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
میر کا تصور، زندگی کے بارے میں بڑا واضح ہے کہ ان کا زندگی کی بارے میں نقطہ نظر حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے غم کا نام ہے جو اپنے اندر تفکر اورتخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ یہ غم ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کا پرتو نہیں رکھتا۔ اس غم میں تو سوچ، غور و فکر اور تفکر کو دخل ہے۔ میر کے متعلق یہ کہنا بھی درست نہیں کی میر قنوطی شاعر ہیں یا محض یاسیت کا شکار ہیں۔ محض یاس کا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات تو یہ ہے کی انسان یاس و غم کا شکار ہونے کے باوجود زندگی سے نباہ کیسے کرتا ہے۔ یہی نباہ اس کا تصور زندگی کی تشکیل دیتا ہے۔ میر کا تصور ِ زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں غم و الم کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ مگر یہ غم و الم ہمیں زندگی سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے۔ اس میں زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔
تخیل اور فکر:
میر کا تصور غم تخیلی اور فکری ہے۔ یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط، سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ غم سے سرشار ہو کر اسے سرور اور نشاط بنا دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری ان کے تصورات غم سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”میر نے غم عشق اور اس کے ساتھ غم زندگی کو ہمارے لیے راحت بنا دیا ہے۔ وہ درد کو ایک سرور اور الم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ میر کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہتے ہیں۔
فلسفہ غم:
میر کے ہاں دردمندی ان کے فلسفہ غم کا دوسرا نام ہے۔ اگرچہ لفظ فلسفہ انہوں نے استعمال ہی نہیں کیا، مگر اس سے مراد ان کی یہی ہے۔ دردمندی سے مراد زندگی کی تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور مقدور بھر ان تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ یہ دردمندی ان کی زندگی کے تضادات سے جنم لیتی ہیں۔ دردمندی کا سرچشمہ دل ہے۔
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے
دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو (لہو) آتا ہے جب نہیں آتا
پر کیف نرمی:
ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پرکیف نرمی ہوتی ہے۔
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں
میر کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں
کرب:
میر کی عظمت کا راز شاید یہی ہے کہ انہوں نے سیدھے سادے انداز میں اور بول چال کی زبان میں اپنے درد کا اظہار کر دیا اور جس کسی نے انہیں پڑھا، اپنے کرب کو ان کے کرب کے مماثل پایا۔ اس لئے جس کسی کے بھی دل میں درد تھا میر ان کا محبوب شاعر بن گیا۔ اسی لئے کہا گیا کہ ”میر نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔
کلام میر کی فکری جہتیں:
میر نے زندگی کے ہر رنگ کو قبول کیا ہے۔ ان کے ہاں تجربہ حیات کی کثرت اور شخصیت کی ہمہ گیری موجود ہے۔ ان کی کلیات میں شاید ہی کوئی ایسا تجربہ، احساس یا جذبہ ہو جس میں ان کے خون جگری کی آمیزش نہ ہوئی ہو اور جو ذاتی ہونے کے باوجود آفاقی رویہ اپنے اندر نہ رکھتا ہو۔ میر نے تو شاعر ہونے کے باوجود معاشی اور اقتصادی عدم مساوات، طبقاتی تقسیم اور معاشرے پر اس کے اثرات وغیرہ کو بھی شاعرانہ سطح عطا کی ہے:
قصر و مکان و جنت ایکوں کو سب جگہ ہے
ایکوں کو سا نہیں ہے، دنیا عجب جگہ ہے
خوب رو اب نہیں ہیں گندم گوں
میر ہندوستاں میں کال پڑا
تیرے خیال میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری
ظاہر ہے معاشی مسئلہ انسانی زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ میر تو انسان کی توجہات کا محور و مرکز سمجھتے ہیں لہٰذا انسانوں کے مسائل سے چاہے وہ معاشی ناہمواری ہی سے متعلق کیوں نہ ہوں، کیسے صرف نظر کر سکتے تھے۔ میر نے اپنی ذات، اپنے قارئین اور زندگی کے درمیان گہرا رشتہ پیدا کرنے کے لیے بڑی کٹھن منزلوں کو طے کیا ہے۔ اسی لیے میر کے ہاں بعض ایسے تصورات ملتے ہیں، جن کا تعلق اجتماعی اخلاق اور عملی زندگی کے حاصلات سے ہے۔
……٭……٭……٭……