مصنف: سلمان یوسف سمیجہ
تبصرہ نگار:محسن حیات شارف
واہ! مکالمے تو دیکھو، کیسے مختصر اور برجستہ ہیں۔ الفاظ کا چناؤ بھی خوب ہے۔
کہانی کا موضوع اصلاحی ہے۔ مجھے تو یہ ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں آخر میں ڈھیروں نصیحتیں نہ پڑھنی پڑ جائیں لیکن ماشاءاللہ بہت اچھا اختتام کیا ہے۔ خود سے کچھ کہنے کی بجائے کرداروں کے ذریعے ہی بات واضح کر دی۔
چھوٹے بچوں کی ذہنی سطح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سادہ اور آسان الفاظ کا استعمال۔ درمیان میں دو تین مشکل الفاظ بھی استعمال کر لیے ہیں۔ ایسے ہی تو بچوں کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا۔
سلمان یوسف سمیجہ کی کتاب ”کہانیوں والی چڑیا“ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے مندرجہ بالا خود کلامیاں جاری رہیں۔
صورت حال کو بیان کرنا، کرداروں کا تعارف، کہانی کی بنت ہر ایک بات میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کے لیے لکھی جا رہی ہیں اور اس کتاب کی اکثر کہانیاں بہت چھوٹے بچوں کے لیے ہیں۔ اگر گھر میں ایسے بچے ہوں کہ جنہوں نے ابھی لکھنا پڑھنا سیکھا ہو، ان کو یہ کتاب بہت پسند آئے گی۔ وجوہات یہ ہیں:
1۔ موضوع ان کے پسند کے ہیں۔ تتلی، پھول، خرگوش، درخت، پریاں اور جنگل کے موضوع پر زیادہ کہانیاں ہیں۔
2۔ کہانیوں میں وہ اپنی زندگی کا عکس دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسکول، دوستی، والدین اور بہن بھائیوں سے تعلقات پر کہانیاں بنی گئی ہیں۔
3۔ زیادہ تر کہانیاں بہت مختصر ہیں۔ تھوڑے سے کردار ہیں۔ اس لیے بچے اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
4۔ الفاظ سادہ استعمال کیے گئے ہیں۔ کوئی محاورہ یا مشکل لفظ شامل کیا گیا ہے تو سیاق وسباق میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے۔
اور اس طرح کہانیاں پڑھ کر بچے الفاظ کو برتنا سیکھیں گے۔ تفریح کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہو جائے گی اور سب سے بڑھ کر ان کا مشاہدہ تیز ہوگا۔ جس طرح سلمان نے اردگرد ہونے والے معمولی نظر آنے والے روزمرہ واقعات سے کہانیاں بن لیں، یہ بچوں میں بھی یہ شوق ابھاریں گے کہ وہ اردگرد کی باتوں پر دھیان دیں اور انہیں اپنے الفاظ میں بیان کرنا سیکھیں۔
ویسے تو ہر کہانی کسی نہ کسی لحاظ سے منفرد اور الگ ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ پسند سرورق کہانی ”کہانیوں والی چڑیا“ آئی۔ اہم پلاٹ پر لکھی گئی کہانی جو بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کے لیے بھی پڑھنا ضروری ہے۔
انٹرویو کا سلسلہ خوب ہے۔ اس میں مزاح اور معلومات دونوں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سلمان یوسف سمیجہ صرف کہانیاں لکھتے نہیں بلکہ ان میں نئے تجربات بھی کرتے رہتے ہیں۔ انٹرویو کے علاوہ تبریز سیریز بھی کمال ہے۔ اپنے ہم عمر بچے کی کہانیاں پڑھنا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔
”آٹوگراف“ کہانی بہت زبردست ہے۔ بہت اچھی کہانی ہے۔ ”ٹارگٹ کلر“ اور ”چائے“ میں تجسس کا رنگ نمایاں ہے۔
”پونو“بہت اہم کہانی ہے۔ مسئلہ اور حل دونوں ایک ساتھ بتاتی دلچسپ کہانی۔
عشوا کے بہن بھائی،خاندان، غلط فہمی اور برابر کا پیار میں خاندان کی محبت کو موضوع بنایا گیا ہے۔
”برگد کی کہانی“بھی کمال کی کہانی ہے۔ ”بوجھ نہیں زیور“ تو ایسی منفرد اور کمال ہے کہ بچوں کا اسلام کے مدیر بھیا نے خود سلمان سے کہا کہ یہ کہانی بچوں کا اسلام میں بھیجیں۔
غرض بچوں کی نفسیات اور دلچسپی کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی دلچسپ کہانیاں ہیں ۔ ماشاءاللہ بہت خوب!