کاسہ ___علی اکمل تصور

اشارہ بند تھا،وہ سگنل پر رک گیا۔ چند افراد اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔اس کا مذاق اڑانے لگے۔دیکھنے میں عجیب لگتا تھا۔ کندھے پر سکول بیگ اور بازؤوں کے درمیان پاپڑوں کے بہت سے پیکٹ….اب وہ جوش سے بولا،
”اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے…؟میرے ابو اللہ کو پیارے ہو گئے… میری امی محلے میں دکان چلاتی ہے…ہم محنت کر کے کھاتے ہیں…“
مذاق اڑانے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اچانک دھڑام کی آواز آئی۔ پاس کھڑے ایک جوان بھکاری نے ناجانے کیوں اپنا کاسہ توڑ دیا تھا…!
ظالم لوگ
”مجھے بہت غصہ آ رہا ہے…!“

”غصہ تو مجھے بھی آ رہا ہے…!“
”دل چاہتا ہے کہ کاٹ لوں…اتنے ظالم لوگ…ہمارے حصے کا رزق بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں…!“
دو مسکین بچے غلاظت کے ڈھیر میں کچھ کھانے کے لیے تلاش کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر کتوں کو غصہ آ رہا تھا۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ’کتے‘تو کہیں اور بیٹھے ان کے مقدر کا رزق ہڑپ کر چکے تھے….

Leave a Comment