جواب: جدید اُردو غزل پر غالب کے اثرات:
اگر ہم قیام پاکستان سے لے کر دور، حاضر تک کو اُردو غزل کا جدید دور کہہ کر اُس پر غالب کے اثرات کی جستجو کریں تو ہمیں یہ نظر آئے گا کہ قیام پاکستان سے پہلے بھی اُردو کے بعض شعرا رنگ غالب کے شیدائیوں میں سے تھے اور انھوں نے کلامِ غالب کے بعض پہلوؤں کو اپنی شاعری میں جذب کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً:
وحشت کلکتوی غالب کی ترکیب تراشی سے بہت متاثر ہوئے اور اُنھوں نے غالب کی ترکیبوں سے کلام کو آراستہ کیا۔ مثال کے طور پر ان کے چند اشعار دیکھیے:
ہوں میں ایک شمع کہ ہے منتظر موجہ و باد
دیکھیے کب وہ عنایت کی نظر کرتے ہیں
لذت عشق ہے وابستہ بے مہری دوست
حیف ان نالوں پہ جو دل میں اثر کرتے ہیں
وضع ناداری اربابِ محبت ہے ہے
خشک ہوتا ہے جگر چشم جو تر کرتے ہیں
بہ گراں مائیگی خویش و بہ کم ظرفی دہر
ہوں میں وہ جنس کوئی بے مہری دلدار نہیں
کچھ اگر ہے تو ہے دل جوئی دشمن کا گلہ
ورنہ کچھ شکوہ بے مہری دلدار نہیں
حسن! یہ تیرے کرشمے ہیں کہ با ایں ہمہ
شوق طاقت دید نہیں، قوتِ گفتار نہیں
تم وہ بے درد کہ رونے کو گلہ کہتے ہو
ہم وہ مسکیں کہ جفا کو بھی وفا کہتے ہیں
عرض نیاز عشق سے غافل نہیں اُس کی نظر
ناز کمالِ حسن نے ہر چند اُسے خود بیں کیا
وہ جنونِ عشق میرا کہ جو بن گیا مصیبت
وہ فسونِ حسن تیرا کہ جو ہو گیا فسانہ
وحشت کلکتوی کی شاعری میں غالب کے اثرات:
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ وحشت نے غالب کی طرح فارسی الفاظ و تراکیب سے آراستہ زبان استعمال کی۔ بیاں میں غالب کی سی جدت اور قدرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کلام میں تماثلِ ترکیب کا اہتمام کیا، مثلاً غالب کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
حسد سزائے کمالِ سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کیجیے
مضامین غالب:
وحشت نے کہیں غالب کے مضامین کو اپنایا اور کہیں غالب کے سے مضامین پیدا کیے۔ اگر وحشت کے مندرجہ بالا اشعار غالب کے اشعار میں ملا دیے جائیں تو یہ پہچاننا دشوار ہو گا کہ کون سا شعر کس کا ہے۔ انھیں حالی، شبلی، حسرت موہانی، اکبر آبادی نیاز فتح پوری جیسے مشاہیر ادب نے خراج تحسین پیش کیا۔ وہ رنگِ غالب کے سب سے کامیاب مقلد تھے۔
عزیز لکھنوی:
عزیزؔ لکھنوی نے کلامِ غالبؔ کا مطالعہ خاص طور سے کیا تھا اور اسی رنگ کو اپنے لیے اختیار کیا۔ غالبؔ کی پیروی میں نہ صرف نئے مضامین، خیالات اور اسلوب بیان اختیار کیا بلکہ ان کی زمینوں میں کثرت سے غزلیں کہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ عزیزؔ کو بھی استفہام سے کافی دلچسپی تھی جو کہ غالبؔ کا ایک خاص رنگ ہے۔ مثلاً:
شرح جانکاہی عشق ایک غیر ممکن بات ہے
کاٹ کر لانا بہت آساں تھا جوئے شیر کا
بعد میرے میرا ساماں سب تبرک ہوگیا
حلقہ حلقہ بٹ رہا ہے اب مری زنجیر کا
وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہوگئیں
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں
اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں
اگر کچھ ہم کو امید اثر ہوتی تو کیا ہوتا؟
ہماری آہ کوئی کارگر ہوتی تو کیا ہوتا؟
کیے ہیں ملکے حسن و عشق میں برپا یہ ہنگام
خدائی تیرے قبضے میں اگر ہوتی توکیا ہوتا؟
غالب کا رنگ:
اوپر درج کیے گئے اشعار سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ عزیز پر غالب کا اثر بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف غالب کا رنگ اپنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی ہیں۔ دیوان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض غزلیں غالب کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہیں۔ عزیز کایہ خاص رنگ ہے جو ان کی شاعری پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ مرزا جعفر حسین عزیز کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
”عزیزؔ مرحوم تمام شعرائے سابقین میں سب سے زیادہ مرزا غالبؔ سے متاثر تھے اور دلی کے رنگ سخن کو قبول کرنے کی انہوں نے کامیاب کوشش کی تھی۔“
فانی بدایونی:
فانی یاسیت کے امام مانے جاتے ہیں۔ حزن و یاس اُن کے کلام کاجزو اعظم ہے۔فانی موت کا شاعر ضرور تھا مگر موت ہی اُس کے نزدیک سرچشمہ حیات بن گئی تھی۔ غم نے نشاط کا روپ اختیار کر لیا تھا۔ لذت ِ غم سے اُس کا سے نہ معمور نظر آتا ہے۔ یہ اُس کے فن کا کما ل ہے کہ انسان غم سے فرار نہیں چاہتا بلکہ غم میں ایک ابدی سکون اور سرور پاتا ہے۔ زندگی کی نامرادیوں میں وہ درد اور میر کے ہمنوا ہیں۔
میر: ع ہم نے مر مر کے زندگانی کی
درد:ع ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
فانی: ع زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا
زندگی کا عکس:
فانیؔ بدایونی ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کلام میں رنج و الم کے عناصر واضح طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ یوں تو ان کے کلام میں فلسفہ،تصوف،وارداتِ قلب و نظر،اخلاقیات،حسن و عشق کا بیان وغیرہ وغیرہ موجود ہیں لیکن چونکہ ان کی زندگی رنج و الم سے عبارت تھی اور کسی بھی حساس شاعر کی شاعری اس کی زندگی کا عکس ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں یاس و ناامید،درد و ملال جیسے عناصر کا بیان اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔
فانی کے ہاں غالب کا فلسفہ:
ان کے یہاں غالب ؔکے فلسفے کی پیروی اور میر تقی میرؔ کا رنگِ یاسیات بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان کا کمال فن یہ ہے کہ ان کا حزن و ملال ان کی زندگی کا پرتو نظر آتا ہے۔
اقبال کا نذرانہ عقیدت:
اقبال کی بانگ درا میں غالب پر ایک نظم ہے جو مختصر ہونے کے باوجود غالب جیسے بڑے شاعر کو اقبال جیسے بڑے شاعر کی طرف سے نہایت شان دار خراج تحسین کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نظم کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیے:
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں
ہائے اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمین
آہ! اے نظارہ آموز نگاہِ نکتہ بیں
گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائیِ دل سوزی پروانہ ہے
تخیل کی بلندی:
اقبال سب سے زیادہ غالب کے تخیل کی بلندی اور بلند پروازی سے متاثر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دلی کے قبرستان میں کیسے کیسے اہلِ کمال دفن ہیں لیکن غالب جیسا کوئی نہیں۔
غالب کا تخیل:
غالب فکری بلندی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتاہے کہ غالب کی وجہ سے دلی کی سرزمین، ایران پر جو دنیا کے نہایت مردمِ خیز ملکوں میں سے ہے، خندہ زن ہے یعنی ایران کی کمتری پر خندہ زن ہے۔ غالب کے تخیل کی قوتِ پرواز کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے تخیل میں وہ جنت پوشیدہ تھی، جس سے دنیا میں قدرت کی بہار نظر آتی ہے۔ ان کی شوخی ء تحریر میں ایسی زندگی پوشیدہ ہے کہ ان کی بنائی ہوئی تصویر کے ہونٹ بات کرنے کے لیے ہلتے نظر آتے ہیں۔
سماجی اور سیاسی افکار کی اثر پذیری:
ایک بڑے شاعر کے اثرات صرف اس زمانے میں اور بعد والے زمانے کی شاعری تک محدود نہیں رہتے۔ ایک بڑا شاعر اپنے زمانے کے بعد والے زمانے کے سماجی اور سیاسی افکار کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ چناں چہ اس کلیے کی ایک مثال اور غالباً پہلی مثال غالب کے ہاں ملتی ہے۔
دیگر شعرا:
عزیز لکھنوی، اقبال اور فانی بد ایونی کے علاوہ وفارام پوری، حسرت موہانی اور اثر لکھنوی کے ہاں غالب پرستی جدید غزل کا سنگ بنیاد بنی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جدید غزل کی ابتدا غالب پرستی سے ہوئی۔ چوں کہ غالب کی شاعری بہت پہلو دار واقع ہوئی ہے، اس لیے غالب سے متاثر ہونے والے اپنے اپنے ذہن و ذوق کے مطابق ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔
……٭……٭……