دہلی،را کے ہیڈ کوارٹر میں چندبڑے افسران سر جوڑے بیٹھے تھے۔یہ چوتھی بار تھی جب انڈیانے پاکستانی سرحد پامال کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی تھی۔اب کی بار مشن ”راکھ تار“ کی منصوبہ بندی جاری تھی جس کی سربراہی جنرل بھٹناگر کر رہا تھا۔
”دوستو! پاکستان کا استحکام ہمارے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔عالمی سطح پر پاکستان نے دیگرممالک کے ساتھ بہت سے معاہدے کر لیے ہیں۔ہماری حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان اسی طرح ترقی کرتا رہا تو انڈیا کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔لہٰذا ہمیں پاکستان کو توڑنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔“
”سر! میرے پاس ایک تجویز ہے۔“مہندر رام بولا
”ہاں جوان کہو!“ جنرل بھٹناگر نے استفسار کیا۔
”ہمیں پاکستانی قوم کے درمیان جھگڑا پیدا کرنا ہو گا۔“
”نوجوان،یہ کیسے ممکن ہو گا؟ذرا تفصیل سے بات کرو۔“اب کی بار سوال کرنل نارائن کی طرف سے کیا گیا۔
”سر! اگر ہم نوجوان جاسوس تیار کریں جو کہ پاکستان میں جا کر نوجوانوں کے درمیان نفرت پیدا کریں تو وہ وقت دور نہیں جب ہم پاکستان کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔“
”لیکن اس کام میں تو بہت سمے لگ سکتا ہے۔“میجر کرتار سنگھ بولا۔
”نہیں سر! نوجوانو ں کو اگر لسانی بنیادوں پر لڑا دیا جائے تو اندرونِ پاکستان اتنے جھگڑے پیدا ہوں گے کہ ہر صوبہ دوسرے صوبے کے
با سیوں سے نفرت کرنے لگے گا،اس طرح ہم بڑی آسانی سے پاکستان کو توڑ سکتے ہیں۔“
”ویری گڈ مہندر رام۔“جنرل نے اس کی تجویز کو پسند کیا۔
اس اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ چار نوجوان پاکستان بھیجے جائیں گے جو اس کام کو سر انجام دیں گے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے انتہائی قابل نوجوانوں کا چناؤ کیا۔چند ماہ کی ٹریننگ کے بعد جب وہ پاکستان کی مختلف بولیاں بولنے کے قابل ہوئے تو انہیں پاکستانی دستاویزات کے ساتھ سرحد پار بھیج دیا گیا۔مشن راکھ تار کا پہلا ٹارگٹ تعلیمی ادارے تھے جس کے لیے انہوں نے سب سے پہلے سنٹرل پنجاب یونیورسٹی کو چنا،جہاں ملک بھر کے نوجوان زیرِ تعلیم تھے۔چاروں جاسوس مختلف ذرائع استعمال کر کے یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کی بنا پر یونیورسٹی کے نوجوانوں میں مقبول ہونے لگے۔
فوزان، رحیم گل،شفقت بھٹہ اور مہران جمالی بھی اسی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔چاروں میں گہری دوستی تھی اور ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ فوزان کا تعلق سرگودھا سے جبکہ رحیم گل پشاور کا پٹھان تھا۔شفقت بھٹہ سندھ کے دور افتادہ گاؤں سے تھا۔ مہرانجمالی بلوچی تھا۔شروع شروع میں مختلف علاقوں سے آئے لڑکوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا،لیکن جلد ہی وہ یونیورسٹی کے ماحول میں رچ بس گئے۔اکثر وہ سرِ شام مال روڈ پر نکل جاتے اور دیر تک ہنستے کھیلتے۔کبھی کبھار ملکی حالات اور مسائل پر بھی گفتگو رہتی۔اس شام بھی وہ اسی طرح نکلے۔چلتے چلتے رحیم گل کہنے لگا،
”یار!کچھ عرصے سے یونیورسٹی کے حالات خراب جا رہے ہیں۔“
”ہاں یار! اگلے دن بھی سنا ہے سندھی اور پنجابی لڑکوں میں ہاتھا پائی ہوئی ہے۔“
”پہلے تو یونیورسٹی کا ماحول ایسا نہیں تھا اب پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔“
”ہونا کیا ہے،جب سارے حقوق پنجانیوں کو ملیں گے تو باقی تو شور ڈالیں گے نا۔سنا ہے کسی سندھی لڑکے کو کالج سے نکال دیا گیا ہے۔“ جمالی کے لہجے میں تلخی تھی۔فوزان چونک گیا۔
”یار! ایسی بات نہیں ہے،یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے اور ہم سب کے آباؤ اجداد نے قربانیاں دی ہیں۔ہمیں ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔بلکہ مل جل کر ملک کی ترقی کا سوچنا چاہئے۔“
”اچھا! تو تم لوگ ملک کا سوچو۔میں جا رہا ہوں۔“
جمالی کے غیر متوقع رویے نے تینوں کو پریشان کر دیا۔
اگلے چند روز میں صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔یو نیورسٹی انتظامیہ بھی سخت پریشان تھی۔ایک طرف وحید سفاری کی تحریک تھی تو دوسری طرف سجاد لاہوری پیش پیش تھا۔
جمالی بھی تینوں دوستوں کو چھوڑ کر بلوچی تحریک کا حصہ بن چکا تھا۔ان تینوں کو اس کے چھوڑ جانے کا بہت دکھ تھا۔اس وقت یو نیورسٹی میں یہ تین دوست ہی تھے جو لسانی بنیادوں کی بجائے ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ساتھ ساتھ تھے۔یونیورسٹی میں چلنے والی تحریکوں نے آہستہ آہستہ ملک گیر اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے۔فوزان اس ساری صورتحال سے بے حد پریشان تھا۔بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سجاد لاہوری کی حقیقت جان کر رہے گاجو پنجابی ہو کر پنجابیوں کو ہی مروا رہا ہے۔اس مقصدکے لیے اس نے سجاد لاہوری کی رہائش گاہ کو تلاش کیا اور پھر اکثر راتوں کواس کے فلیٹ کے چکر لگانے لگا۔ایک رات اچانک فوزان نے دیکھا کہ سجاد لاہوری خلافِ معمول رات کے ایک بجے کہیں جا رہا ہے۔فوزان نے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ایک جگہ ویرانے میں سجاد لاہوری چند اجنبیوں سے ملا جو اسے مشن راکھ تار کی کامیابی پر مبارک باد دے رہے تھے۔فوزان نے چھپ کر باتیں سنیں پھر وہاں سے واپس پلٹا اور سیدھا دوستوں کے پاس آیااور انہیں ساری حقیقت سے آگاہ کیا۔تینوں دوستوں نے بلا تاخیر سجاد لاہوری کے فلیٹ کا رخ کیا۔رات خاصی گزر چکی تھی اور سجاد لاہوری فلیٹ پر واپس پہنچ چکا تھا۔انہوں نے پہنچتے ہی دروازہ کھٹکھٹایا۔سجاد لاہوری باہر نکلا اور ان تینوں کو دیکھ کر بوکھلا گیا۔فوراً پستول نکال کر تینوں پر تان لی۔اب ساری صورتحال ان پر واضح ہو چکی تھی۔
”اچھا! تو تم ہم کو لڑانے کے لیے آیا ہے۔“رحیم گل چیخ کر اس پر جھپٹا۔
لاہوری نے رحیم گل کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر گولی چلا دی۔پاس کھڑا فوزان فوراً سامنے آگیا اور گولی اس کا سینہ چیرتی ہوئی نکل گئی۔باقی دونوں ساتھیوں نے سجاد لاہوری کو قابو کر لیا۔گولی کی آواز سن کر ارد گرد کے لوگ بھی جمع ہو گئے اور سجاد لاہوری کو پکڑ کر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ فوزان کو ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ادھر پاک آرمی کو جونہی سجاد لاہوری کے را ایجنٹ ہونے کا پتا چلا انہوں نے فوری کاروائی کرتے ہوئے اس کے باقی ساتھیوں کو بھی دھر لیا۔یہ خبر آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئی۔اگلی دوپہر فوزان شہید کے جنا زے میں یونیورسٹی کے تمام طلبہ نے شرکت کی کہ جس نے جان دے کر دشمن کے مشن راکھ تار کو راکھ میں بدل دیا تھا۔طلبہ ایک دوسرے سے شرمندہ اور آبدیدہ تھے۔اس موقعے پر بلوچی سندھی اور پنجابی تحریک کو متفقہ طور پر پاکستانی طلبہ تحریک میں بدل دیا گیا۔جس کا منشور تھا ”اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔“