سوال: نظم ”مسجد قرطبہ“ کے آخری بند میں اقبال نے جو پیغام دیا ہے، اُس پر مفصل بحث کریں۔

جواب: نظم مسجد قرطبہ کا آخری بند:
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

آخری بند کا پیغام:


آٹھویں اور آخری بند میں قرطبہ کے بعض دل کش مقامی مناظر کا نقشہ پیش کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ نیا دور آنے والا ہے اور جس زندگی میں انقلاب نہ ہو، وہ موت کے برابر ہے۔ قوموں کی روح کشمکش انقلاب ہی کی بدولت زندہ رہتی ہے۔

وضاحت:


آب روان کبیر، وادی الکبیر کا مشہور دریا، جس کے دونوں کناروں پر قرطبہ آباد ہے۔ مسجد قرطبہ بھی اس دریا کے قریب ہی واقع ہے۔ امم: امت کی جمع یعنی قومیں۔
آخری بند میں اس وقت کا منظر پیش کر رہی ہے جب یہ نظم کہی گئی تھی اور یہ منظر کشی:
1: پہاڑ کی وادی میں بادل شفق کی سرخی کے اندر ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہوتے بدخشانی لعل کے ڈھیر چھوڑ گیا۔
یہ غروب آفات کا نظارا ہے۔ غروب کے ساتھ جو شفق نمایاں ہوتی ہے، اس کی سرخی ہر شے پر تھوڑا بہت رنگ چڑھا دیتی ہے اور بادل کا کوئی ٹکڑا افق پر موجود ہو تو دوسرا سرا سرک ہو جاتا ہے۔ اسی کو شاعر نے سرخی کی بنا پر لعل بدخشانی کے ڈھیر سمجھا۔ چوں کہ یہ ڈھیر غروب آفتاب سے پیدا ہوئے، اس لیے کہا کہ یہ آفتاب چھوڑ گیا۔
2: عین اسی حالت میں کسی دیہاتی لڑکی کا نغمہ فضا میں گونجا۔ اس کی لے بہت سادہ تھی۔ اس لیے کہ دیہاتی لڑکیاں موسیقی کا فن سیکھ کر نہیں گاتیں۔ محض خوش گلوئی کی بدولت شوق پورا کرتی ہیں۔ سادگی کے باوجود اس لے میں درد اور سوز بھرا ہوا تھا۔ جوانی کا زمانہ دل کی کشتی کے لیے سیل کا حکم کرتا ہے۔ یعنی اسے جدھر چاہتا ہے بہا لے جاتا ہے۔

جوانی کی حیثیت:


اقبال نے اس مصرع میں عالم میں انسانیت کی ایک بڑی حقیقت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جوانی کی حیثیت ایک تیز و تند سیل کی سی ہے۔ اس میں نہ کہیں اٹکاؤ ہے نہ ٹھہراؤ۔ جدھر رخ ہو گیا، نکل گیا۔ اس میں نفع نقصان کا موازنہ بھی عموماً نہیں ہوتا۔ یہ کیفیت اسی شخص پر واضح ہو سکتی ہے جس نے تند و تیز سیل میں کشتی کو بہتے دیکھا ہو۔ جوانی گزر جائے تو انسان ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ قدم قدم پر رکتا ہے، گرد و پیش کو دیکھتا ہے پھر آگے بڑھتا ہے۔ اس مصرع میں ایک خوبی یہ ہے کہ جوان لڑکی کا گیت سننے والے ہر شخص کے دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور جب تک یہ کیفیت طاری رہتی ہے، وقت اس طرح گزر جاتا ہے جیسے زندگی کی کشتی ایک سیل میں بہہ رہی ہو۔ ابھی یہاں تھی، تھوری دیر میں کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔
3: اے وادی کبیر! تیرے کنارے کوئی شخص بیٹھا ہوا کسی اور ہی زمانے کا خواب دیکھ رہا ہے، کوئی سے مراد یہاں اقبال خود ہے۔
4: وہ آنے والا زمانہ اگرچہ ابھی تک تقدیر کے پردے میں چھپا ہوا ہے اور ظاہر نہیں ہوا، لیکن میری نگاہیں اس کے طلوع کو بے نقاب دیکھ رہی ہیں۔
5:میں اگر اپنے تصورات کے چہرے سے پردہ اُٹھا دوں اور بتا دوں کہ کیا کچھ ہونے والا ہے تو یورپ میری ان انقلابی باتوں کی تاب نہ لا سکے گا۔
6:پھر زندگی کا ایک زریں اصول پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس زندگی میں انقلاب رونما نہ ہو، وہ زندگی نہیں، موت ہے۔ قوموں کی رحیں انقلابی کشمکش ہی کی بدولت زندہ رہتی ہیں۔
7: جو قوم ہر وقت اپنے اعمال کی جانچ پڑتال کرتی رہتی ہے، اسے اندازہ ہوتا رہتا ہے کہ کہاں لغزش ہوئی، کہاں ٹھوکر کھائی۔ وہ اپنی لغزش اور ہر ٹھوکر کی تلافی کر لیتی ہے۔ لہٰذا وہ زندگی کے میدان میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہے اور قدرت کے ہاتھ میں تلوار کا کام دیتی ہے یعنی اس سے قدرت اپنے سارے کام لیتی ہے۔
8: جن نقوش میں جگر کا خون شامل نہ ہو، وہ نامکمل رہتے ہیں۔ خون جگر کے بغیر شاعری بھی سودائے خام کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔

مثالی مسلمان:


اسی طرح ایک طرف اس مردِ خدا، مردسپاہی، بندہ مومن کا ذکر کرتے ہیں جس کی واضح شناخت ایک مثالی مسلمان کی ہے، دوسری طرف وہ آدم کا ذکر بھی لاتے ہیں۔
”عرش معلی سے کم سینہ ء آدم نہیں /گرچہ کف ِ خاک کی حد ہے سپہر کبود“
یہ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ وہ اس نظم میں جس ماضی کی بازیافت کرتے ہیں۔ اس کا ایک حصہ مخصوص اسلامی و تاریخی ہے اور دوسرا حصہ عمومی،انسانی،جمالیاتی ہے۔

نمونہ فن:


خود قرطبہ کی مسجد،ایک مذہبی عبادت گاہ اور ایک نمونہ ء فن ہے۔ عشق کی ایک جہت مذہبی، تاریخی ہے اور دوسری جہت خالص جمالیاتی ہے۔ اقبال کے مطابق‘جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے۔ وہ زندگی‘ اور انقلاب کی روح عشق ہے۔ چوں کہ عشق ایک سیل ہے،یعنی ایک دوامی اضطراب کے ساتھ مسلسل رواں رہنے کی نفسی حالت ہے،اس لیے وہ کسی گزرے زمانے کا احیا نہیں چاہتا، نئے زمانے کے خواب دیکھتا ہے۔
آب روان کبیر!تیرے کنارے کوئیدیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

کسی اور زمانے کا خواب:


یہ بات بے حد معنی خیز ہے کہ اقبال آب روان کبیر کے کنارے کسی اور زمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے جہاں مسجد قرطبہ تعمیر ہوئی۔ گویا ایک خواب عبد الرحمٰن اوّل نے دیکھا اور مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا، اور ایک ہزار سے زائد سالوں بعد ایک ’کافر ہندی‘ جس کے لبوں پر صلوٰۃ و درود ہے، وہ بھی ایک خواب دیکھ رہا ہے۔ واضح طور پر اس خواب کا مخاطب یورپ ہے۔ اقبال نے اپنے خواب یا عالم ِ نو کے اپنی نگاہ میں بے حجاب ہونے کے دعوے کے باوجود آشکار نہیں کیا اور بالکل ٹھیک کیا۔ انھوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ وہ پرانے عہد کا احیا چاہتے، یہ کہنے پراکتفا کیا کہ ’نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر‘،وہ نقش بھلے قوم کا ہو، یا شعر ونغمہ یعنی آرٹ کا ہو۔ یعنی وہ اپنی روایت کی بازیافت ایک ایسے نقش کی صورت میں چاہتے ہیں،جو عشق اور خون ِ جگر کی پیداوار ہو،اور جو سلسلہ روزو شب کی تباہ کن قوت کے آگے سینہ سپر ہوسکے!

مسلم ثقافت کا مقدمہ:


’مسجد قرطبہ‘ میں اقبال اس مسلم ثقافت کا مقدمہ بھی پیش کرتے ہیں جس کا مرکز حجازتھا اور جس کے خدوخال ’خلق عظیم کے حامل،صاحب صدق ویقیں عربی شہسواروں نے وضع کیے تھے یعنی صدر اسلام کے بزرگان۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کی جدیدنظم جس ماضی کی بازیافت کرتی ہے، وہ ’حجازی، عربی،اسلامی‘ ماضی ہے اور جس تناظر میں بازیافت کا عمل انجام پاتا ہے، وہ مغربی جدیدتہذیب اور استعماریت ہے۔ نئی اصطلاحوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال مغربی تہذیب کے کبیری بیانیے کاجواب اسلامی کبیری بیانیے کی فلسفیانہ اور جمالیاتی تشکیل کی مدد سے پیش کرتے ہیں۔ اس بنا پر اقبال کی نظم،جدید اردونظم کے دیگر دھاروں سے الگ اپنی شناخت قائم کرتی ہے اور ایک مختلف قسم کی ’جدیدیت‘ کی حامل ہے۔
……٭……٭……

Leave a Comment