سوال: اقبال کے تصور تہذیب پر ایک جامع نوٹ تحریر کریں۔

جواب: تہذیب کی تعریف:
تہذیب کے لغوی معنی عیوب سے پاک کرنا۔ اس عربی لفظ کا مادہ حصہ ذب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ھ ذب یھذب تھذیباً (کسی شے کا بنانا سنوارنا، اخلاق و عادات کا پاکیزہ کرنا، درخت کی شاخ تراشی کرنا وغیرہ)

اصطلاحی معانی:


اصطلاح میں تہذیب کسی قوم کی اجتماعی زندگی کا وہ نقشہ ہے جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرے گا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کے بقول:
”تہذیب کا زور خارجی چیزوں اور طرزِ عمل کے اس اظہار پر ہے جس میں خوش اخلاقی، اطوار و گفتار اور کردار شامل ہے اور لفظ ثقافت کا زور ذہنی صفات پر ہے جن میں علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا اور ترقی دینا ہے۔“
کسی قوم کی تہذیب اس کے علوم و آداب، فنون لطیفہ، صنائع بدائع، اطوار معاشرت، انداز تمدن اور طرز سیاست کا نام ہے۔ تہذیبی مظاہر کی اساس وہ تمدنی نظریات ہوتے ہیں جو برسوں کے تعامل سے کسی قوم کی نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں، یہ زندگی کے بارے میں عقیدہ کہلاتا ہے۔

تعلیم مساوات:


اقبال کے تصور تہذیب کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ تعلیم مساوات کے ساتھ ساتھ مادیت اور لادینیت سے خائف ہیں۔ وہ مشرقی تہذیب میں انسان کا استحصال نہیں دیکھتے جب کہ مغرب کی تہذیب میں انھیں اچھائی شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم و حکمت یہ تدبر یہ سیاست
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

روح کی بیداری:


اقبال ایک ایسی تہذیبی روح کی بیداری کے متمنی تھے جو ”مشرق و مغرب“ کے گلزاروں کو کانٹوں کی خلش سے پاک کر دے اور یہ صرف اور صرف مذہب کی حکمرانی سے ممکن تھا۔ علامہ کا فلسفہ خودی، ضبط نفس، اطاعتِ الٰہی اور نیابت حق کا اور مفہوم کیا تھا؟ یہی عمل اجتماعی زندگی میں پورے معاشرے کو فرد واحد کی طرح متحد و متفق بنا دیتا ہے۔ اس حوالے سے اقبال کا مطالعہ ناگزیر ہے کیوں کہ ایسا کیے بغیر ان کی تنقید کی تفہیم ممکن نہیں۔

اقبال کی پسندیدہ تہذیب:


اقبال کو مغربی تہذیب میں اگر کچھ خامیاں نظر آتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملتِ اسلامیہ اور اس کی مروجہ تہذیب سے خوش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں اپنی قوم میں بہت سی خامیاں نظرآتی ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اس قوم کے آگے کوئی مقصد یا نصب العین نہیں، ان کے دل گرمی، تڑپ اور حرارت سے محروم ہیں۔ دین کا نام لینے والے تو بہت ہیں لیکن دین کے اصولوں پر چلنے والے بہت کم ہیں۔ اُسے نہ راستے کا پتہ ہے اور نہ منزل کا، چناں چہ حال یہ ہے:
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف

مسلمان کی تہذیب:


اگرچہ اقبال مشرق و مغرب دونوں کی موجودہ حالت سے مایوس ہیں لیکن اُسے ایک امید ہے کہ مسلمان قوم کے پاس دین اسلام کی شکل میں ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس کی مدد سے وہ زندگی کی دوڑ میں مغربی اقوام سے آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ اور اپنی اصلاح بھی کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جدید مغربی علوم و فنون سے بھی واقف ہوں اور اپنے ورثے سے بھی بیگانہ نہ ہوں۔

تہذیب اسلامی:


اقبال تہذیب ِاسلامی کے آرزو مند ہیں۔ اس تہذیب کے عناصر میں اخوت، مساوات، جمہوریت، آزادی، انصاف پسندی، علم دوستی، احترام انسانی، شائستگی، روحانی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی شامل ہیں اور ان کی بنیاد پر یقینا ایک صحت منداور متوازن معاشرہ کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ صالح عناصر ظاہر ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب میں موجود نہیں اس لیے اقبال اس کی مخالفت زیادہ اور تعریف کم کرتے ہیں۔
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار سخن ساز ہے! نمناک نہیں ہے

حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی

سماجی ارتقا:


تہذیب و ثقافت انسانی سماجی ارتقا کا تسلسل ہے جبکہ مذاہب ارتقا کی مذمت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف شدید مذاحمت بھی کرتے ہیں۔ رسم وراج، اقدار، لباس،رنگ، زبان، موسیقی اورگیت زندگی کا احساس ہے جبکہ مذاہب انسانی احساسات سے عاری ہیں جس میں خوشی سے زیادہ غم ہے یہ صرف احکامات اور اس کی سختی سے تکمیل کا نام ہے یعنی جزا اور سزا کا جس میں فوقیت سزا کو ہی حاصل ہے۔ اس لیے ہر مذہب میں زیادہ ہنسنا اور کھیل کود کو اچھا نہیں سمجھا جاتا جو انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت مضر ہے کیوں کہ ہنسنا کھیلنا نہ صرف انسانی جبلت ہے بلکہ اس کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کے لیے اشد ضروری ہے۔

تغیر پذیری:


ثقافت تغیر پذیر ہے جبکہ مذاہب حتمی اور مستقل کہلاتے ہیں اس کے باوجود کے سماجی تبدیلیاں ان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں کیونکہ تمام مذاہب جو زمانہ قدیم میں تھے وہ آج بالکل اسی طرح موجود نہیں ہیں جس طرح ماضی میں تھے اور نہ ہی یہ اس طرح قائم رہ سکتے ہیں۔

مذاہب پر سماجی حالات کا اثر:


تمام مذاہب پر سماجی حالات کابہت گہرا اثر ہوتا ہے۔خوشحال اور پرسکون معاشروں میں جنونیت، کٹر پن، انتہا پسندی کی بجائے آزاد خیالی، اور ترقی پسندی کا رجحان نمایاں ہو تا ہے۔جبکہ انتشار زدہ اور معاشی بدحال ممالک میں تنگ نظری، خون اور وحشت مذاہب میں اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ پاکستان اور غریب ممالک میں مذہبی درندگی اس کی ایک بڑی واضح مثال ہے۔ جبکہ یورپی اور ترقی یافتہ ممالک کے مسلمان پاکستان جیسے پسماندہ اور انتہائی رجعتی انتہا پسند نہیں ہیں کیونکہ جدید اور خوشحال سماجی حالات شعور کو متاثر کرتے ہیں جس سے ذہنوں میں وسیع ظرفی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح امیر مذہبی اور غریب مذہبی لوگوں میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے مذہب بے شک ایک ہی ہو لیکن اس پر عمل درآمد اور لگاؤ ماحول اور معاشرہ بدل دیتا ہے۔

اقبال اور مغربی تہذیب:


مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں اُبھری اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا۔ یونانی اور لاطینی علوم کے ماہر وہاں سے نکل بھاگے اور مغربی یورپ میں پھیل گئے یورپ جو اس سے قبل جہالت کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا ان علما کے اثر سے اور ہسپانے ہ پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اُٹھا۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں اُن کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی اور جہالت کا علاج ہو گیا۔ بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان، فرانس، پرُ تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سے اسی گرفت میں لیتا شروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا اس رواج کی ابتدائیونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے ہوئی۔ جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہاں کے عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے۔ ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، عراق، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔بقول اقبال:
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار

مسلم معاشرے کا تحفظ:


اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ بعض نقادوں کے خیال میں اقبال نے مغربی تہذیب پر اعتراضات کرکے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس بارے میں لکھتے ہیں:
”اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ملتی ہے۔ اور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔“

مغربی تہذیب کے مثبت پہلو:


یہ کہنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کلام اقبال سے سطحی واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے تہذیب ِ مغرب کے صرف انہی پہلو ؤں پر تنقید کی ہے جنہیں وہ مسلم معاشرے کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک اچھے پہلوؤں کا تعلق ہے، اقبال اس سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔
وہ کسی طرح کے حسد یا تعصب سے کام نہیں لیتے تھے۔اس بات کو عالمی سطح پر بھی ان کے قارئین اور ناقدین نے تسلیم کیا ہے۔میری دانست میں اقبالؔ سچا مسلمان تھا مگر وہ کسی قسم کی مذہبی انتہا پسندی کی روایت کا پر ستار نہ تھا، مذہبی انتہا پسندی کی پرانی یا فر سودہ روایت او ردوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے نفرت کی کسی طرح کی کو ئی بھی مثال ان کے سوانح کوائف یا کلام سے نہیں ملتی۔ علامہ اقبالؒکی اردو شاعری کے دوسرے مجموعے”بال جبریل“کی اشاعت”اسرار خودی“ اور”رموزبے خودی“جنہیں اقبالؔکے پیغام یا تعلیم میں بنیا دی حیثیت حاصل ہے کے بعد ہوئی۔ میرے خیال میں یہ کتاب کاروانِ انسا نیت کے نئے آ فتاب کی نمود کا پیغام دیتی ہے،نیز اس میں اقبالؔ کی تعلیم کے سر چشمے زیا د ہ واضع اور روشن نظرآتے ہیں۔اس سب سے میری مراد یہ ہے کہ زندگی اور فکرو فن کا وہ آفاقی زاویہ نگاہ جس میں احترام آدمیت اور وسیع النظری کارفرما ہے اور اِس کا تخلیقی اظہار اس میں بھی بہ درجہ اُتم ملتا ہے،ثبوت میں ”برتری ہری“کے ایک شلوک سے یہ شعر پیش کیا جا سکتا ہے جس سے اقبالؔ نے”بال جبریل“ کا آغاز کیا ہے
؎پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ نا داں پہ کلام نرم ونازک بے اثر

غیر مسلم فلسفیوں کا ذکر:


اقبالؔ نے اسلا می مفکر ہونے کے باوجود غیر مسلم فلسفیوں اور دانشوروں کا ذکر اپنے کلام میں کمال احترام سے کیا ہے اور اس ذکر میں انہوں نے خود کو مشرق و مغرب کے امتیازات سے بالاتر رکھاہے۔ در حقیقت کلام اقبالؔ میں یہ معجزاتی کشادہ نظری اور وسیع المش بیقرآن حکیم کے و سیع وعمیق مطالعہ کی بدولت پیدا ہو ئی۔ کتاب حکمت کے مطالعہ کی بدولت اُنہیں جہاں،جس شخص یا فلسفے میں کوئی بھی خوبی نظر آئی اُسے انہوں نے نسل انسانی کی مشتر کہ وراثت سمجھ کر اپنا لیا۔ ان کا مخصوص اندازِ فکر یہ ہے کہ وہ ایک طرف تمام تر مشرق و مغرب کے فکر و فلسفے سے استفادہ کر نے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف قرآنی آیات کی بصیرتوں کی روشنی میں اس کی تصحیح وتکمیل کر تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کے مطالعے سے فکر کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں،مزید یہ کہ انہوں نے علمائے یونان وروم،عرب وعجم اور یورپ وامریکہ کے قدیم جدید نظریات،انکشا فات اور ایجادات کا احاطہ کر نے کے بعد انہیں قر آن کے اصول ودانش کی کسو ٹی پر پرکھ کر فکر انسانی کے مسلسل ارتقاء کی داستان نہا یت ہی بصیرت افروز انداز میں مرتب کی ہے۔

خیالات کی بنیاد:تاریخ و تہذیب:


علامہ اقبالؒ کے خیا لات کی بنیاد تاریخ وتہذیب کا یہ اسلامی نظریہ بھی ہے کہ ہر نئی تہذیب پرانی تہذیب کی تہوں پر اپنی بنیا دیں استوار کر تی اور عمارت کھڑی کر تی ہے۔ اسی واسطے آنحضرت ﷺسے قبل جو انبیاؑء آئے قرآن کریم میں ان کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان سب کی حقانیت کو ماننے پر زور دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اقبالؔ کی پیدائش ایک ایسے ملک میں ہوئی تھی جس کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی دا ستان ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور ادب چاہے وہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی ہیت میں ا پنی مخصوص تہذیب و ثقافت کی پیداوار اور اس کا آئینہ دار ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مسلمان اقبال ؔنے نہ صرف آنحضرتؐ سے قبل آنے والے انبیاؑء کی حقانیت کو تسلیم کیا بلکہ رام،کشن، نانک اور حضرت عیسیٰ ؑوغیرہ کے تعلق سے ان کی نظمیں اسی اسلامی یا قرآنی نظریے کی دلیل ہیں۔

نظریات سے استفادہ:


اقبالؔ ہر اس شخص یا نظریے سے استفادہ کر تے ہیں جس میں انہیں احترام آدمیت یا عظمت آدمیت نظر آتی ہے۔پھر چاہے وہ برتری ہری ہو یا وشو مترا،قرۃالعین طاہرہ ہو یا گو تم بدھ،جمال الدین ا فغانی ہو یامار کس و لینن،مولانا روم ؒ ہو یا گرو نا نک، در حقیقت علامہؒ کو ان سب کے کردار وگفتار میں جوش و عمل کی روح نظر آتی ہے۔ا س سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے اور پرائے سب کی تعظیم کے لئے یکساں معیار رکھا ہے،یہی وجہ ہے کہ جعفر صادق کو انہوں نے آگ و خون کے ایک بھیا نک حوض میں تڑپتے دیکھا جب کہ”جاوید نامہ“کی نظم”سیرافلا ک“ میں جب پیر رومیؒ ان کی ملا قات وشو متر اسے کرا تے ہیں تو اقبالؔ ان کے لئے عارف ہندی اورجہاں دوست کے الفاظ کا استعمال کر تے ہیں۔

آفاقیت:


اقبال نے اپنے کلام میں مشرق و مغرب یا عالمی سطح کے جن مفکر ین کا ذکر کیا ہے۔ وہ ان کے ہر نظریے کے معتقد تھے بلکہ جو لوگ ان کے نقطہ نظر کے قریب دکھائی دیتے ہیں انہیں سراہا اور جہاں کہیں ان کا خیال اقبال کی فکر سے ٹکرایا،انہیں وہاں سخت تنقید کا نشانہ بنایا مثلاً ابن عربی،حافظ شیرازیؒ،مولانا حسین احمد مدنیؒ، شنکر اچاریہ وغیرہ سے ان کے اختلافات کی وجہ یہی تھی کہ وہ ان کے تصورات کو انسان کے حق میں مہلک سمجھتے تھے۔ جب کہ ہیگل،بر گساں،ٹیبو سلطان،خوشحال خان خٹک وغیرہ کو سرا ہا کیونکہ وہ اقبال کو نہ صرف اپنے ہم خیال نظر آتے ہیں بلکہ ان کا فکر و فلسفہ فکر اقبال کے لیے نقشہ راہ مرتب کر تا ہے۔ در حقیقت عالمی شہرت کے مالک تما م دانشوروں نے اپنے اپنے لوگوں ہی کواپنا حقیقی مخاطب بنایا ہے مگر اس کے باوجود بھی ان کا کلام آفاقی اہمیت کا حامل ہے ٹھیک اسی طرح اقبال بھی کسی خاص بر اعظم،علاقے لسان یا ملت کا شاعر نہیں اور ان کا پیغام اور لب ولہجہ ہمہ گیر اور آفاقی ہے۔
……٭……٭……

Leave a Comment