جواب:اقبال کا تصورِ عقل و عشق:
علامہ اقبال کے اردو کلام کا پہلا مجموعہ بانگِ درا ہے۔ اس اولین مجموعے میں ایک نظم ”عقل و دل“ کے نام سے شامل ہے جس میں علامہ اقبال نے عقل اور دل کے موازنے میں دراصل عقل اور عشق کا ہی موازنہ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ بانگِ درا کی متعدد دوسری نظموں فلسفہ غم، جوابِ شکوہ وغیرہ میں بھی عقل سے متعلق علامہ کے خیالات کا اظہار ہوا۔
ع: آہ یہ عقل زیاں اندیشہ کیا چالاک ہے (فلسفہ غم)
ع: عقل انسانی ہے فانی، زندہ جاوید عشق (فلسفہ غم)
ع: عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر مری (جوابِ شکوہ)
عشق کی اہمیت:
اقبال کے کلام میں عشق بہت اہمیت کا حامل تصور ہے۔اقبال نے عشق کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ وہ پاکیزہ اور طاقتور جذبہ ہے جو انسان کو عظمت عطا کرتا ہے اور اسے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی طرف مائل کرتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق گرمی حیات کا موجب ہے اور اس سے کائنات میں رونق ہے۔یہ ایک عالمگیر اور بیکراں جذبہ ہے۔
اسلم انصاری لکھتے ہیں:
”خودی کے تصور کے بعد اقبال کی شاعری کا سب سے اہم تصور عشق ہے جس کی بے تابی و اضطراب، سوزوگداز اور خلاقی انسان کو اپنی ذات کی وسعتوں اور زندگی کے برتر مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔“
اقبال کے نزدیک ہست و بود کی علت غائی عشق ہے۔ اسی سے نوائے زندگی میں زیرو بم ہے اور مٹی کی تصویروں میں اسی سے سوز دمبدم نظر آتا ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم
قوتِ محرکہ:
اقبال کے لیے کائنات کی پیہم خلاقانہ آشکارائی عشق کی بدولت ہے۔ یہ ایک ایسا داعیہ روح ہے جس کی بدولت کائنات ہر لخطہ ارتقا پذیر ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت محرکہ (Driving force)کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کو منزل کے حصول کے لیے گامزن کرتا ہے اور اسے مقاصد آفرینی پر اکساتا ہے۔ یہ قوت محرکہ کاروان وجود کو ہر لخطہ نئی آن و شان سے ترقی کرنے کی لذت سے آشنا کرتی ہے۔ عشق انسان میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ اس عالم زمان و مکاں سے ماورا بھی کئی جہاں ہیں۔ اقبال نے عشق کو عین وجود قرار دیا ہے۔اقبال کے خیال میں عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو تمام کائنات میں کارفرما ہے۔ ان کے خیال میں محبت ہی کی بدولت کائنات میں زندگی کا ظہور عمل میں آیا۔بانگِ درا کی ایک نظم ”محبت“ میں اقبال نے اسی خیال کو پیش کیا ہے۔ اس نظم میں موجود تصورِ عشق کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی یوں رقمطراز ہیں۔
”یہ حُسن و عشق دونوں کا آفاقی تصور ہے جس میں نہ زوال کا سوال ہے نہ فراق و وصال کی کش مکش کا، اس کا وصال بھی ایک فراق ہے اور فراق ایک وصال۔ اس تصور پر مبنی نہ تو حُسن کو زوال ہے نہ عشق کو، نہ تو یہ حُسن محدود ہے نہ عشق۔“
کائنات کے ذرے ذرے میں عشق کی جھلک:
اقبال کے خیال میں کائنات کے ذرے ذرے میں عشق کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا اثر ہر شے سے ہویدا ہے۔ اقبال نے عشق کو حیات عالم کا آئین کہہ کر اس کی اہمیت واضح کی ہے:
عشق آئین حیات عالم است
امتزاج سالمات عالم است
عشق کا کمال:
اقبال کے خیال میں جب تک عشق نہ تھا اس گلستاں (دنیا) کا گل لالہ تمنا نہ رکھتا تھا۔ یہاں کی نرگس طناز چشم نظارہ سے محروم تھی۔ یہ جہاں مے کشوں کی ہاوہو سے خالی تھا۔ مینا میں شراب تو تھی مگر کوئی پینے والا نہ تھا۔ برق سینا کو شوق کی بے زبانی کا شکوہ تھا کیونکہ وادی ایمن میں کوئی ارنی کہنے والا نہ تھا۔ عشق کی بدولت ہی ہست و بود کے تمام ہنگامے ہیں ورنہ کائنات کی اس بزم خموشاں میں کوئی شور و غوغا نہ تھا۔ زبورِ عجم کی ایک غزل میں اقبال نے اسی خیال کو نہایت دلکش پیرایے میں بیان کیا ہے۔
عشق از فریاد ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد
ورنہ ایں بزم خموشاں ہیچ غوغاے نداشت
سوز و مستی:
اقبال کے نزدیک عشق سوزومستی اور تڑپ کا نام ہے۔ اسی جذبے کی وجہ سے انسان کا ملیت حاصل کرتا ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا:
”ان (اقبال)کے نزدیک عشق سوز و تب و تاب جاودانہ کے سوا کچھ اور نہیں۔ نیز عشق کا یہ سوز اور تڑپ”مرد مومن“ ہی میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے گویا مردِ مومن ہی کائنات کی تڑپ کا نمائندہ ہے۔“
مادیت سے بے نیاز:
اقبال کے خیال میں جذبہ عشق مادیت سے بے نیاز ہے۔ یہ فقیری اور شہنشاہی میں امتیاز روا نہیں رکھتا۔ یہ میدان کار زار میں کبھی زرہ پوش آتا ہے اور کبھی سازو سامان کے بغیر بھی معرکہ حق و باطل جاری رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں عشق مجازی سے زیادہ عشق حقیقی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں عشق کے بہت سے روپ ہیں۔ عشق ان کے نزدیک دم جبرئیل بھی ہے اور دل مصطفیٰ بھی۔ یہ خدا کا رسول بھی ہے اور خدا کا کلام بھی۔یہ صہبائے خام بھی ہے اور کاس الکرام بھی۔ یہ فقیہہ حرم بھی ہے اور امیر جنود بھی۔ یہ کسی ایک مقام پر قناعت نہیں کرتا، اس کے ہزاروں مقامات ہیں۔
عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہہ حرم، عشق امیر جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کا ماخذ:
یہاں دراصل اقبال نے جذبہ عشق کی کونیاتی (Cosmological)، وجودیاتی (Ontological) اور غایتی (Teleological) معنویت کو اجاگر کیا۔ ان کے نزدیک عشق کا مآخذ ع منبع انائے لامحدود (Infinite Ego) ہے۔ ہیگل نے جدلیاتی عمل کو سراسر تعقلاتی بتایا ہے جب کہ اقبال کے نزدیک یہ اعجاز عشق ہے۔ خودی جو کہ اقبال کے فلسفے میں مرکزی تصور کی حیثیت رکھتی ہے دراصل عشق ہی کی ایک وجودی صور ت ہے۔ یہ پوری کائنات میں ایک روح کی طرح سرایت کیے ہوئے ہے۔
جذبہ قربانی:
اقبال کے نزدیک عشق اگر مصلحت اندیش ہو تو خام ہے۔ عشق انسان کو بے خطر آتشِ نمرود میں کود جانے کا درس دیتا ہے۔ مصلحت اندیشی عقل محض کی صفت ہے جو حالات سے سمجھوتہ کرنے اور ہر حال میں مفاد کو پیش نظر رکھنے کا نام ہے۔ جبکہ عشق حالات کے مطابق ڈھلنے کی بجائے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقل محض عشق کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عشق کی ایک گراں قدر صفت اس کا جذبہ قربانی ہے۔ یہ اگر ضرورت پڑے تو مفاد پرستی اور وقتی فائدے کو تیاگ دینے کا نام ہے۔
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
عقل کا دائرہ کار:
اقبال کے خیال میں عقل انسان کو ظن و تخمین کی فضا سے باہر نکلنے نہیں دیتی۔ یہ اس جست (Leap)سے محروم رکھتی ہے جو عشق کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ جست انسان کو فوراًمنزل مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق جس آہ جگر گداز اور آئین جہانتابی کا حامل ہے عقل اس سے محروم ہے۔
عقلے کہ جہاں سوزد، یک جلوہ بیباکش
از عشق بیاموزد، آئین جہاں تابی
عشق کو عقل پر ترجیح دینے کا سبب:
اقبال عشق کو عقل پر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عقل اسباب و وجوہ کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدان عمل میں اپنے جوہر دکھاتا ہے۔عشق قوتِ بازو پربھروسا کرتا ہے جبکہ عقل مکار ہے۔عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق اور یقین لازم و ملزوم ہیں۔ عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے جبکہ عشق کی ویرانی میں تعمیر چھپی ہوئی ہے۔ عقل دنیا میں ہوا کی طرح ارزاں ہے جبکہ عشق گراں مایہ ہے۔ عقل مفاد پرست ہے جبکہ عشق آزمائش پر یقین رکھتا ہے۔ عشق کا دارومدار اللہ کے فضل و کرم پر ہے۔ عقل کہتی ہے کہ خوش رہو، آباد رہو، جبکہ عشق کہتا ہے کہ اللہ کا بندہ بنو اور غیر اللہ کی غلامی سے آزاد ہو جاؤ۔
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چوگان باز میدان عمل
حضوری کی لذت:
اقبال کے نزدیک خرد کے ذریعے عشق کی راہ طے کرنا ایسا ہی ہے جیسے چراغ لے کر آفتاب ڈھونڈنا۔ اقبال کہتے ہیں کہ عقل بھی اگرچہ آستاں یعنی حقیقت کی منزل سے دور نہیں مگر اس کی قسمت میں حضوری کی لذت نہیں۔اقبال نے عشق کو عقل کامرشد کہا ہے۔ ان کے خیال میں عشق حقیقی کے بغیر مذہب بھی صرف تصورات کا ایک بت کدہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ تصورات
عشق کی برتری:
اقبال کے نزدیک عقل ذوق نگاہ تو رکھتی ہے یعنی خوب و ناخوب میں امتیاز کر سکتی ہے مگر یہ اس جرات رندانہ سے محروم ہے جو عشق کا اثاثہ ہے۔ اقبال عشق کو عقل سے برتر خیال کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بقول:
”اقبال عشق کو عقل کے مقابلے میں فضیلت دیتا ہے۔ اس واسطے کہ اس سے حقائق اشیاء کا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے، عقل کا اثر اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ زندگی کا ہنگامہ اس سے ہے۔ اگر دل بھی عقل کی طرح فرزانہ ہوتا تو جینے کا لطف باقی نہ رہتا۔“
عشق کی انتہا:
اقبال کے نزدیک عشق کا جذبہ لا محدود وسعت کا حامل ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ زمانی اور مکانی ابعاد (Dimensions)سے ماورا ہے یعنی یہ لازمانی اور لا مکانی ہے۔ یہ ماہ و سال اور دیرو زود یعنی زماں اور نزد و دور یعنی مکاں کو خاطر میں نہیں لاتا۔
می نداند عشق سال و ماہ را
دیر و زود و نزد و دورِ راہ را
عشق کی رفتار:
اقبال کے خیال میں عشق وقت کی رفتار پر غالب آتا ہے۔ زمانے کی تیز رفتاری عشق پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ عشق کا تعلق پیمائشی وقت سے نہیں بلکہ وقت کے ایسے سلسلے سے ہے جسے ہم کوئی نام نہیں دے سکتے۔
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے،سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
روح کا ترفع:
اقبال کے نزدیک محبت کا مقصد جسمانی اور حسیاتی حظ حاصل کرنا نہیں بلکہ روح کا ترفع ہے۔ان کا جذبہ عشق ماورائی ارفعیت (Transcendental Sublimity)سے مملو ہے جو بہت کم شعرا کے حصے میں آئی ہے۔لہٰذا ان کی شاعری میں ایسے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں جو جسمانی یا جنسی ہوس (Lust)کی نشاندہی کرتے ہوں۔ حتی کہ ان کے ہاں روایتی محبوب کا تصو ربھی ناپید ہے۔ ان کے ہاں محبوب کے اعضا اور جسمانی خدوخال کاذکرنہیں ملتا۔ وہ جسمانی خوبصورتی کی بجائے روحانی خوبصورتی (Spiritual Beauty) پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا نظریہ عشق پاکیزہ تصورات و احساسات کا حامل ہے۔ ان کے نزدیک جسمانی خوبصورتی (Physical beauty)فنا ہو جانے والی ہے۔ ان کی شاعری جنسیت اور ہوس پرستی سے پاک ہے۔ وہ عشق اور ہوسنا کی میں یوں فرق کرتے ہیں:
درعشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست
آں تیشہ فرہادے، ایں حیلہ پرویزے
عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
پاکیزہ عشق:
اقبال کا عشق آبرومندانہ جذبات و احساسات کا حامل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہوس انسان کو بے توقیر کر دیتی ہے۔وہ کوچہ جاناں سے بھی ٓعزت وآبروکے ساتھ ا وراپنا دامن صاف بچا کر لے جانے کو مقدم سمجھتے ہیں ڈاکٹر عبدالمغنی کے بقول:
”بلاشبہ اقبال کا عشق ہوس نہیں، ان کی محبت لذت کے لیے نہیں اور وہ نہ تو کوئے بتاں میں آوارگی پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنے پر فخر کرتے ہیں“۔اقبال عشق کی آبرو مندی چاہتے ہیں اسی لیے وہ اس کے لیے عقل خداداد کی پیروی کو ضروری گردانتے ہیں:
عشق اب پیروی عقل خداداد کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے
عشق حقیقی:
اقبال کی شاعری میں عشقِ مجازی کی کیفیات کا بیان بہت کم ہے۔ بانگ درا کی شاعری میں کہیں کہیں یہ کیفیات نظر آتی ہیں۔وہ عشق کو زیادہ تر تجریدی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور مجازی عشق اور اس کے جنسی پہلوؤں سے گریز کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ اقبال کا عشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے معشوق کی طلب نہیں رہتی بلکہ عشق بذات خود مقصود بن کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے اردو کی عشقیہ شاعری کونئی ماورائیت سے آشنا کیا ہے۔ ان سے پہلے کی اردو عشقیہ شاعری میں وہ ترفع اور علویت نظر نہیں آتی جو اقبال کی پر عظمت اور ماورائیت کی حامل شاعری میں پائی جاتی ہے۔ عشقیہ شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ روایتی وصل و ہجر پر مشتمل کیفیات کی شاعری ہو۔ اس حوالے سے فراق گور کھپوری لکھتے ہیں:
”عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکل،قرب و دوری، جوروکرم، وصل و ہجر، ذکر غم یا ذکر محبوب تک محدود رہے یہ ضروری نہیں بلکہ پر عظمت عشقیہ شاعری نسبتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ بلند پایہ عشقیہ شاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہوتی۔“
……٭……٭……