جواب: اقبال اور تہذیب مغرب:
تہذیب مغرب پر علامہ اقبال کی مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کون سا معیار تھا جس پر علامہ نے مغرب و مشرق کی تہذیب کو پرکھا اور کہا:
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
پھر اُس ”بے ذوق صہبا“ کو مہمل نہیں رہنے دیا بلکہ اعلان کیا:
لبا لب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الّا
مغربی تہذیب:
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں اُبھری اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا۔ یونانی اور لاطینی علوم کے ماہر وہاں سے نکل بھاگے اور مغربی یورپ میں پھیل گئے یورپ جو اس سے قبل جہالت کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا ان علما کے اثر سے اور ہسپانے پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اُٹھا۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں اُن کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی اور جہالت کا علاج ہو گیا۔ بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیائاور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان، فرانس، پرُ تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سے اسی گرفت میں لیتا شروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیائاور افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا وہاں کے عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے۔ ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، عراق، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
مغربی تہذیب و تمدن پر نکتہ چینی:
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ بعض نقادوں کے خیال میں اقبال نے مغربی تہذیب پر اعتراضات کرکے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس بارے میں لکھتے ہیں:
”اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ملتی ہے۔ اور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔“
فوقیت:
یہ کہنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کلام اقبال سے سطحی واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے تہذیب ِ مغرب کے صرف انہی پہلو ؤں پر تنقید کی ہے جنہیں وہ مسلم معاشرے کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک اچھے پہلوؤں کا تعلق ہے اقبال اس سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔ اپنی ایک تقریر میں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی اہمیت جتانے کے بعد کھل کر کہا:
”میری ان باتوں سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ میں مغربی تہذیب کا مخالف ہوں۔ اسلامی تاریخ کے ہر مبصر کو لامحالہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے عقلی و ادراکی گہوارے کو جھلانے کی خدمت مغرب نے ہی انجام دی ہے۔“
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا ہے ارشاد کہ ہر شب کو سحر کر
مغربی تہذیب سے اقبال کے اختلاف کے وجوہات:
اقبال نے مغربی تہذیب کی جو مخالفت کی ہے اس کی وجہ سیاسی ہے۔ اقبال کے زمانے میں ہندوستان میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو مغربی معاشرے کی ہر بات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ قدامت پرستوں کا طبقہ تھا جسے اپنی تہذیب پر فخر تھا چاہے وہ اچھی ہو یا بری، دوسرا طبقہ اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہوئے مغرب کی تقلید کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتا تھا۔ خصوصاً جو لوگ یورپ سے ہو کر آئے تھے ان کی آنکھیں وہاں کی چکاچوند سے چندھیا جاتی تھیں۔ ہاں ان میں اقبال جیسے لوگ بھی تھے جو مغرب جاکر وہاں سے مرعوب ہو کر نہیں آئے تھے۔ بلکہ اُس کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں واضح نقطہ نظر کے حامل ہو کر وطن واپس لوٹے تھے۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مغرب سے مرعوب حضرات جب وطن واپس آئے تو انہیں مغرب کا ہر گوشہ فردوس کی مانند نظر آتا ہے۔ اقبال کو صرف یہ دکھ نہیں تھا کہ ہندوستان انگریزوں کی غلامی قبول کر چکا ہے بلکہ اُسے اس بات کا رنج تھا کہ تمام عالم اسلام یورپی اقوام کی ہوس گیری کا شکار ہو گیا ہے۔ اس بات نے اقبال کے دل میں مغربی تہذیب کے خلاف نفرت کے جذبات بھر دیے ورنہ اقبال نے اُس کے روشن پہلوؤں کی جابجا تعریف کی ہے۔
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی خامیاں:
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ تین سو سال سے یورپ میں پیدا ہوئی اور جن کی بنیاد عقلیت، مادیت اور سائنسی ترقی پر ہے اقبال نے یورپی تہذیب کی خامیوں کو کھل کر آشکارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں اس تہذیب کی بڑی بڑی خامیاں حسبِ ذیل ہیں۔
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پر مرادل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
مادیت:
اقبال کے نزدیک اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اور کسبِ زر کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے۔ انسانی اخلاق اور روحانی اقدار کی ان کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔ چنانچہ انسانی زندگی میں توازن، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی۔
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
اقبال کی پیش گوئی:
سائنسی ترقی نے مغرب کی مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخش دی ہے اور اُسے ظاہری شان و شوکت سے مالا مال کیا لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا یہ علوم و فنون انسان کو حقیقی راحت اور آسودگی پہنچانے کی بجائے اُس کی موت کا پروانہ بن گئے۔ انہی آثار کو دیکھ کر اقبال نے پیش گوئی کی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ظاہری فلاح و بہبود:
اقبال کو مغربی تہذیب سے یہی شکایت ہے کہ وہ ظاہری اور خارجی فلاح و بہبود پر نظر رکھتی ہے اور روح کی پاکیزگی اور بلندی کا کوئی دھیان نہیں کرتی۔ حالانکہ یہی انسانی افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے یورپ نے عناصر ِ فطرت کوتو تسخیر کر لیا لیکن روحانی نشو و نما اور صفائی قلب کی طرف توجہ نہ دے سکا۔
عقائد سے رو گردانی:
مغرب میں اخلاقی اور روحانی اقدار سے روگردانی کا سبب یہ بنا کہ سائنس کے انکشافات قدم قدم پر ان کے جامد دینی عقائد سے ٹکراتے تھے۔ علم کی روشنی نے ان جامد عقائد کو متزلزل کیا تو و ہ مذہب اور مذہب کی پیش کردہ روحانی اقدار سے ہی منکر ہو گئے مادی اسباب کی فراوانی نے تعیش اور خود غرضی کو فروغ دیا۔ عورت کو بے محابا آزادی مل گئی اور معاشرہ میں فساد برپا ہو گیا۔ روحانی اور اخلاقی اقدار کی غیر موجودگی میں مے خواری، عریانی، سود خوری اور اخلاقی پستی نے جنم لیا اور ان امراض نے یورپی تہذیب کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ اقبال کو اسی لیے ایوان ِ فرنگ سست بنیاد نظر آیا تھا اور وہ اسے ایک سیل بے پناہ کی زد میں سمجھتے تھے۔
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
عقلیت پرستی:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کی بنیاد عقلیت پرستی پر ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جدید ترین تمدن انسانی افعال و افکار کو عقل کے علاہ کسی اور کسوٹی پر پرکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اقبال کے نزدیک عقل حقیقت تک پہنچنے کا کوئی موزوں پیمانہ نہیں، اس ناموزوں پیمانے سے حاصل شدہ نتائج ہمارے لیے حتمی درجہ نہیں رکھتے۔ اگرچہ مغرب کے سارے فلسفی عقل پرستی کا شکار ہیں لیکن اقبال اس کے مخالف ہیں۔
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
سائنس کی ہلاکت آفرینی:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے فرزندوں نے مظاہر فطرت کو تسخیر کرکے اپنے فائدے کو پیش نظر رکھا لیکن بحیثیت مجموعی انسانیت کے لیے ہلاکت آفرینی کے اسباب پیدا کیے۔ مغربی ممالک بے پناہ قوت حاصل کرنے کے بعد کمزور ممالک کو اپنی ہوس کا شکار بنانے پر تل گئے مغرب والوں نے کارخانے بنائے جو سرمایہ داروں کے ہاتھ آ گئے اور مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی سے محرو م ہو گئے۔ نئی تہذیب کے پرور دہ تاجرانِ فرنگ کے اسی رویے کے خلاف اقبال یہ کہہ کر احتجاج کیا۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مغربی تہذیب کی خوبیاں:
بعض نقادوں کے نزدیک اقبال کا نقطہ نظر مغربی تہذیب کی نسبت یکسر مختلف ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کا یہ کہنا درست نہیں کہ ”کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔“ یہ رائے اقبال کے حق میں منصفانہ نہیں ہے اقبال نے تو مغربی تہذیب کی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔
سائنس کی اجارہ داری:
اہل مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے وہ بے حد معترف تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان بھی اس میدان میں ان کی تقلید کریں ان کے نزدیک سائنس پر اہل فرنگ کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے یہ مسلمانوں کی گم شدہ متا ع ہے۔ جسے حاصل کرنا ان کا فرض ہے تسخیر کائنات کے لیے کی جانے والی سائنسی ایجادات کو وہ بہت تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں چنانچہ اقبال سائنس کوفرنگی زاد نہیں مسلمان زاد بتاتے ہیں۔
حکمت اشیاء فرنگی زاد نیست
اصل اور جز لذتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلماں زادہ است
ایں گلے از دست ما افتادہ است
اندھی تقلید کی مذمت:
اقبال نے مغربی تہذیب اور علوم کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھاوہ مغربی معاشرہ کی خامیو ں اور خوبیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے مغربی تہذیب کی خامیوں پر نکتہ چینی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مشرقی رہنماؤں کی بھی مذمت کی ہے جو مغرب کی اندھی تقلید کو شعار بنا کر ترقی یافتہ قوموں کے زمرہ میں شامل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ انہوں نے مغرب کی حقیقی خوبیوں کو چھوڑ کر صرف ظاہری باتوں کو اپنا لیا اور ضروری اور غیر ضروری میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی۔
مغرب کی اندھی تقلید:
اقبال کو اس بات کو بہت رنج ہے کہ مشرقی ممالک اپنی نا سمجھی کے باعث تہذیب ِ مغرب کی اندھی تقلید کے پھندے میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اس غفلت پر وہ اس طرح نوحہ کرتے ہیں:
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
عقل محض کا شاہکار:
اگر علامہ اقبال تہذیب فرنگ کو جو ”عقل محض“ کا شاہکار ہے وہ گزر سبیل بے پناہ میں دیکھتے ہیں اور عیش جہاں کا دوام پانے کو تمنائے خام کہتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے! بحیثیت مجموعی یورپ نے اپنے باشندوں کی تعلیم و تربیت میں سے مذہب کا عنصر حذف کر دیا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس بے لگام انسانیت کا کیا حشر ہو گا۔
بندہ کز آب و گل پیروں نجست
شیشہ خود رایسنگ خود شکست
……٭……٭……