جواب:اقبال کا تصور:
اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بات ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ اقبال کی فکر کا کوئی پہلو اور اُن کے تصورات کی کوئی جہت ایسی نہیں جو اسلام کے اصول سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ اقبال کی پختہ رائے یہ رہی ہے کہ انسان کو زبان، نسل، علاقے اور اسی طرح دیگر تمام آلودگیوں سے نجات پا کر بالآخر واحد اجتماعی نظام کے تحت یکجا ہونا ہے۔ اقبال نے زور دے کر یہ باور کرایا ہے کہ یہ واحد اجتماعی نظام، نظامِ اسلام ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام نہ تو قومی دین ہے نہ نسل اور نہ ہی انفرادی، اسلام خالصتاً انسانی دین ہے اور اس کا مقصد باجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔
:اقبال کا تصور قومیت…اسلامی قومیت
علامہ اقبال کے تمام افکار میں مسئلہ قومیت سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہندی قومیت چھوڑ کر اسلامی قومیت کا واضح نظریہ پیش کیا اور خطبہ الہ آباد میں فرمایا کہ اگر مسلمان اسلام سے وابستہ ہو جائیں گے تو بچ جائیں گے ورنہ کوئی چیز انہیں ہلاکت سے نہ بچا سکے گی۔قومیت ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق بعض ہم وطن، ہم زبان، ہم نسل اور ہم رنگ لوگ اپنے مادی مفادات کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اور اپنا علیحدہ سیاسی، عسکری اور اجتماعی نظام بنالیتے ہیں۔
دو قومیں:
اقبال کے نزدیک ”دنیا میں صرف دو ہی قومیں ملتیں ہیں، ایک ملت اسلام اور دوسری ملت کفر حضرت علامہ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
”کیا خدا کی بارگاہ سے امت مسلمہ کا نام رکھوانے کے بعدبھی یہ گنجائش باقی تھی کہ آپ کی ہیت اجتماعی کا کوئی حصہ عرب، ایرانی، افغانی، انگریزی، مصری یا ہندی قومیت میں جذب ہوسکتا ہے۔ امت مسلمہ کے مقابل میں تو صرف ایک ہی ملت ہے اور وہ ”اللکفر ملتہ واحدہ“ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسلامی ہو نامعقول و مردود ہے۔“ (مقالات اقبال 274)
وحدتِ عربیہ کے متعلق:
علامہ اقبال نے اس مسئلے کے بارے میں بہترین دلیل دیتے ہوئے فرمایا: ”حضور رسالت مآبﷺ کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا دیگر کفار مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں۔مگر نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان موجود ہے، ایک وحدت عربیہ قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر حضورؐ نعوذباللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزمان کی راہ نہ ہوتی“۔اسلام میں قومیت کی اساس اگر نسل، زبان اور وطن قرار پاتی تو نبی کریمؐ اہل مکہ سے جو آپ کے ہم نسل، ہم زبان اور وہم وطن تھے، اختلاف نہ فرماتے۔ قومیت کا ملکی تصور جس پر زمانہ حال میں بہت کچھ حاشیے چڑھائے گئے ہیں اپنی آستین میں تباہی کے جراثیم کو خود پرورش کررہاہے۔ اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔
اپنی ملت پرقیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
اسلام سے نسبت:
علامہ اقبال کے نزدیک اسلام سے علیحدگی کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے اور اپنے معنوی اثرو نفوذ سے معاشرے کو ایک مخصوص ہیئت عطا کرتا ہے۔ دین اسلام مسلمان کی زندگی کے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، عسکری، قانونی اور انتظامی تمام شعبوں کی روح و رواں ہے۔ لہذا کوئی مسلمان اپنی زندگی اسلامی قوانین سے ہٹ کر بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان کوائف کے پیش نظر علامہ اقبال نے ہندوستان میں مسلمانوں کی مستقل زندگی کو اسلام کا مرہون منت قرار دیا۔ اقبال کے نزدیک ہندوستان میں اسلام نے ایک عظیم قوت کے طور پر مسلمانوں کی زندگی کو ہر دور میں استحکام بخشا اور ان کی قومی حیثیت یا ملی خودی کو قائم رکھا۔ ان کے وجود کو ہندو قوم میں تحلیل یا جذب نہ ہونے دیا۔ اسلام نے اپنی خاص اخلاقی روح کا یہاں بہترین مظاہرہ کیا۔ خطبہ الٰہ آباد میں فرمایا: ”اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر مبنی ہو جو اسلام کے اصول اتحاد کے منافی ہو۔ یہ مسئلہ ہے جو آج مسلمانان ہندوستان کے سامنے ہے۔“
ہندی وطنیت سے انکار:
ہندوستان میں سب سے پہلے ہندی وطنیت کے نعرے کی روح کو جس مفکر نے سمجھا اور اس کا شعور اجاگر کیا وہ علامہ اقبال ہیں – اقبال کا تصور وطنیت (Nationalism) اسلام کے آفاقی و روحانی اصولوں پر مبنی ہے جبکہ افرنگ کا تصور وطنیت استعماری اور خالصتاً مادہ پرستانہ ہے جس کی بنیا د نسلی، لسانی و جغرافیائی ہے-یہی وجہ تھی کہ اقبالؒ نے قومیت کے مغربی تصور کو رد کیا اور”خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ“ سے مسلم نیشنلزم کے تصور کی تشریح پیش کی-اقبال کے اِسی نظریہ قومیت نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کو ایک نئی اساس بخشی-
قومیت پرستی:
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ”اقبال1905ء تک نیشنلزم کے حامی رہے لیکن نیشنلزم کے زوال پذیر انجام کو دیکھ کر بعد میں اسے ترک کر دیا۔ ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ کی جگہ ”مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ کا نظریہ اختیار کیا۔ یہ ذہنی سفر محدود وطن پرستی سے اسلامی بین الاقوامیت کی طرف تھا۔ اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کسی ایک علاقے میں محدود نہیں ہے۔ وہ مکانی اور زمانی حدود سے آزاد ہے جبکہ وطنی قوم پرستی قید مقامی کی زد میں ہے۔ اقبالؒ ملت کو ’قید مقامی‘ کے خطرات سے نہ صرف آگاہ کرتے رہے بلکہ آفاقی کردار کے لیے آمادہ کرنے کی خدمت بھی سرانجام دیتے رہے۔
مغربی وطنیت کے متعلق:
آپؒ نے مغربی وطنیت کی رد میں فرمایا:
”اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وطنیت بھی بت پرستی کی ایک لطیف صورت ہے۔ مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے سے عبارت ہے۔ اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا -بلکہ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے- اس لیے اسلام جس چیز کو مٹانے کیلئے آیا اُسے مسلمانوں کی سیا سی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا-پیغمبر اسلام (ﷺ) کا اپنی جائے ولادت مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیا م و وصال غالباً اِسی حقیقت کی طرف ایک اشارہ ہے۔“
نام نہاد نیشنلزم کے متعلق:
علامہ صاحب نے دیکھا کہ نام نہاد نیشنلزم نے نہ صرف اقوامِ فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے بلکہ جغرافیائی حدود کے اِس پار اور اُس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ بجنگ رہتے تھے۔ اقبالؒ نے اپنی فکری بصیرت سے بھانپ کر اس جدید فرنگی و فرنگی زدہ نظریے کے انسان دشمن مضمرات کو خلق خدا کے لے قطعی طور پر نا قابل قبول قرار دیا اور اپنی شہرہ آ فاق نظم ”وطنیت“ میں اسے کچھ اس طر ح بے نقاب کیا ہے کہ قصرِ فرنگ کے در و دیوار آج تک اس مومنانہ استدلال کی ہیبت سے کانپ رہے ہیں۔ حب الوطنی اور وطنیت کے تضادات کو نمایاں کرنے کے لیے حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی اس نظم کو ایک ذیلی عنوان بھی دیا ہے جو ”وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے ہے۔“
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
قومیت کی مثال:
آپ ؒ نے قومیت (Nationalism) کے نسلی، لسانی اور جغرافیائی تصور کو سامراج کے تراشیدہ بت قرار دیا-آپؒ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
توحید پرستی:
اقبالؒ کے مطابق مسلمان توحید پرست ہے، ایک خد ا کو ماننے والا ہے، خاتم ا لنبیین (ﷺ) کا امتی ہے اس لیے اس کا حقیقی وطن اسلام ہے۔ اس فرنگی تصورِ وطنیّت سے مسلمان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں فرنگی اور فرنگ زدہ نظام اور تصورات کو ترک کر کے اسلام کے عالمگیر، روحانی اور آفا قی نظام کو ا پنا ا وڑھنا بچھونا بنانا ہے- اقبال کے مطابق ہمارا وطن اسلام ہے۔
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظریہ وطنیت:
اقبال کے نظریہ وطنیّت پہ بہت شاندار اور جدید تحقیق اُبھرتے ہوئے فلاسفر جناب ادریس آزاد کی ہے جو کہ ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل 2017ء کے اقبال نمبر میں شائع ہوئی۔ ادریس آزاد صاحب نے اس کو اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی سے جوڑا ہے۔ اقبالؒ نے جغرافیائی وطنیت کی نفی،قرآنی استدلال، ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقاء اور اپنی سائنسی منطق کے ذریعے کی جس کی ایک جھلک ہم اس پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں کہ ارضی کا لفظ ارض یعنی زمین سے لیا گیا ہے اور ارضی پیوستگی سے مراد زمینی پیوستگی ہے جو اصل انگریزی اصطلاح ”ارتھ روٹڈ نیس“ کا ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر اقبال ؒ نے یہ اصطلاح اپنے خطبات ”The reconstruction of Religious Thought in Islam“ میں سب سے پہلے استعمال کی اور اردو میں ”قید مقامی“کہہ کر پکا را۔ عربی کی ایک ٹرم ”خسف“یعنی زمین میں دھنس جانا، غا لباً اقبال کی ارضی پیوستگی کے لیے مناسب ترین متبادل اصطلا ح ہے۔
اقبال کا تصور قومیت خطبہ علی گڑھ کی روشنی میں:
اس خطبے میں اقبال کا اصل موضوع مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے عمرانی پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس خطبے میں کھل کر اور بڑے مدلل و مربوط انداز میں اپنے تصور قومیت کی صراحت کی ہے۔ اقبال اس خطبے میں مسلمانوں کو دنیا کی دیگر اقوام و ملل کے مابین بنیادی فرق تصور قومیت کو قرار دیتے ہیں، وہ اس فیصلے میں کہتے ہیں:
”مسلمانوں اور دنیا کی دیگر قوموں میں جو بنیادی فرق ہے، اس کی وجہ ہمارا قومیت کا مخصوص تصور ہے۔ ہمارے تصور قومیت کے اصول اشتراک زبان یا اشتراک وطن یا مشترکہ معاشی مفادات کی اساس پر استوار نہیں ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ حیات و کائنات سے متعلق ہمارا عقیدہ ایک ہے۔ ہم سب مشترکہ تاریخی روایات کے امین ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اس معاشرے کے رکن ہیں جسے پیغمبر اسلام نے قائم فرمایا تھا۔ اسلام تمام مادی قیود سے نفرت کا اظہار کرتا ہے، اس کی قومیت اس کی بنیادیں ایک مجرد تخیل پر استوار ہیں جس کا ظہور محکم شخصیات پر مشتمل ایک ایسی جماعت میں ہوتا ہے جو بڑھنے پھیلتے رہنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اسلامی زندگی کے اصول مخصوص لوگوں (یا کسی خاص قوم) کے کردار و خصائل اور فطانت کے ساتھ مشروط نہیں ہیں۔ یہ زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہیں۔“ (خطبہ علی گڑھ، ملت اسلامیہ ایک عمرانی مطالعہ)
مجموعی جائزہ:
اقبال کے تصور قومیت کی بنیاد ایک خالصتاً مجردتخیل یعنی مذہب پر استوار ہے جب کہ مغربی تصور قومیت ایک خالصتاً مادی شے یعنی وطن پر انحصار کرتا ہے۔
……٭……