سوال: اداریہ کیوں لکھا جاتا ہے؟ اداریہ کی اقسام اور اداریہ نگار کے اوصاف بیان کریں۔

جواب: اداریہ:

اداریہ کے لغوی معنی اداریہ نگار کی سوچ، تحریر یا اس کے انداز میں اظہار کے ہیں لیکن عام مروجہ مفہوم میں اداریے سے وہ خبر یا تحریر مراد ہے جو اخبار یا رسالے کے ادارتی صفحے کے ادارتی کالم پر اس اخبار یا رسالے کے نام کی لوح کے نیچے چھپتا ہے۔ اداریہ کے اصطلاح کے اور بھی مترادفات الفاظ موجود ہیں۔کچھ انگریزی میں اور کچھ اردو میں سب اصطلاحات مستعمل ہیں۔
اداریہ (انگریزی: Editorial) ایک ایسا مضمون ہے جسے کوئی تجربہ کار اخبار یا رسالے کے ادارتی عملے کا رکن یا پھر کوئی ناشر کا تحریر کردہ ہے۔ اداریہ عام طور سے غیر دستخط شدہ شدہ ہوتے ہیں۔
اکثر اداریوں میں حالات حاضرہ کے موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے۔ اداریوں میں کئی مربوط واقعات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ کئی موضوعات کو باریک بینی سے چھانا جاتا ہے۔ کئی واقف لوگ اداریوں کو اخبارات کی ذاتی رائے بھی قرار دیتے ہیں۔ عام طور سے یہ کالم اخبارات کے بیچ میں ہوتا ہے۔ تاہم کئی بار جب کوئی سلگتا ہوا مدعا ہوتا ہے، تب اداریے صفحہ اول پر لکھے جاتے ہیں۔

اداریہ کی اہمیت:


اداریہ مدیر کی خاص تحریر کو کہتے ہیں جو اس کی طبع زاد تحریر ہوتی ہے۔ اخبار روزنامہ ہو یا ہفتہ وار، پندرہ روزہ ہو یا ماہنامہ میگزین، ان سبھی کے لیے اداریہ لازمی جز وکی حیثیت رکھتا ہے۔ ادارے کے بغیر اخبار۔بے جان جسم کی صورت ایک لاش کی مانند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اداریہ کو کسی بھی اخبار یا رسالے کی ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اداریہ کو روحِ بدن سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔ اور جسم میں تندرست دماغ سے بھی، در اصل اداریہ ایک رہنما خطوط ہوتاہے۔ مدیر اس کے ذریعہ سے آئینہ دیکھاتاہے اور رہبری، رہنمائی کے فریضہ کے ساتھ اصلاح کاکام بھی انجام دیتاہے۔ مگر وہ کوئی واعظ یا مذہبی پیشوا نہیں ہوتا، بلکہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتاہے۔ اسی وجہ سے اسے ملک کا ذمہ دار شہری کہا جاتاہے۔ مدیر کا کام ذمہ داری بھرا ہوتا ہے۔
مدیر کا ایک اہم کام یہ بھی ہوتاہے کہ وہ اپنے قارئین کے لیے ایک اچھے استاذ، مربی، رہنما، رہبر اور نگراں کی حیثیت سے اس کی تربیت کرے، چوں کہ وہ اپنے مخصوص فکر ونظر سے اپنے قارئین کو روشناس کراتاہے، اور رفتہ رفتہ قاری مدیر کی فکر سے ہم آہنگ ہوتاجاتاہے۔

ریڑھ کی ہڈی:


اگر ہم دیکھیں تو صحافت، صحافی اور اداریہ، یہ تینوں ایک دوسرے سے اس طرح پیوست اور مربوط ہیں کہ جس طرح جسم، پسلی اور ریڑھ کی ہڈی سے زنجیروں کی طرح ایک دوسرے سے پیوست ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح صحافت، صحافی کے بغیر بے معنی ہے۔ اگر صحافی ایماندار، دیانت دار، حق گو، بے باک اور جرأت اظہار سے خالی ہو تو پھر اداریہ بھی روحِ اداریہ سے خالی رہتی ہے، اور پھر اس کی اہمیت ایک رسمی اداریہ کی ہو جاتی ہے، جس کی اہمیت نہ فی زمانہ ہوتی ہے اور نہ ہی بعد کے زمانوں میں کوئی وقعت ہوتی ہے۔ اس طور پر اگر ہم جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا رشتہ ہے، مصنف نے لکھا ہے کہ”اداریہ ایک رسالے یا اخبار کا لازمی اور اہم جزو ہوتا ہے۔“
”اداریہ قارئین کو پرووک کرنے والا ہو،جوبے ساختہ اور برجستہ آپ کے قارئین کو اپنے جذبات واحساسات کے اظہار پر مجبور کرے۔“

عوام کی رہنمائی:


کسی بھی اخبار میں اداریے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اخبار میں ادارتی صفحے کے لیے ایک الگ صفحہ مخصوص کیا جاتا ہے۔ اداریہ ملکی و بین الاقوامی خبروں سے وابسطہ کسی بھی خبر یا واقعہ پر لکھا جاسکتا ہے۔ اداریہ کے ذریعے عوام کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ کسی بھی اہم موضوع پر اداریہ لکھا جا سکتا ہے خصوصاً ایسا موضوع یا واقعہ جس پر عوام کی دل چسپی ہو۔ مختلف اخبارات میں بہت سی خبریں تو ایک جیسی ہو سکتی ہیں لیکن اداریے نہیں۔ کیونکہ ہر اخبار کی پالیسی دوسرے اخبار سے مختلف ہوتی ہے اور اداریہ اخبار کی ترجمانی کرتا ہے اس اخبار کی پالیسی کا ضامن ہوتا ہے۔ ماضی میں بہت سی نامور شخصیات نے اپنے اخباروں کے اداریوں کی وجہ سے لوگوں میں انقلاب برپا کردیا تھا قوموں کو بیدار کرنے میں ماضی کے اخبارات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سر سید احمد خاں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، ابو الکام آزاد جیسے نامور صحافیوں نے اپنے اخباروں کے اداریوں کی وجہ سے قوموں میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ اداریہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اداریہ کو اخبار کی روح تصور کیا جاتا ہے۔

حقائق کا ترجمان:


اداریہ میں کسی اہم مسلئے سے متعلق حقائق کا بھی خلاصہ کیا جاتا ہے، تاکہ عوام کی دُرست زاویہ سے رہنمائی ہو سکے۔ اداریہ نویس واقعہ یا مسائل کے ہر پہلو کو اس طرح سامنے رکھ کر اس کی وضاحت کرتا ہے کہ کوئی پہلو بھی تشنہ نہ رہے۔ مختصر اداریہ حالات و واقعات کی مکمل وضاحت کر دیتا ہے۔

اخبار کی پہچان:


اداریے کسی بھی اخبار کی پہچان ہوتے ہیں، مختلف اخبارات میں خبریں تو ایک جیسی ہو سکتی ہیں لیکن اداریے نہیں، کیونکہ اداریے اخبارات کی پالیسی کو مدنظر رکھ کر لکھے جاتے ہیں۔ ہر اخبار کی پالیسی دوسرے اخبار سے مختلف ہوتی ہے،اس لیے اُن کے اداریے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

عوام کی رہنمائی یا رائے عامہ کی تشکیل:


اداریے عوام کی رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اداریہ لکھنے والے شخص پر یہ ذمداری عائد ہوتی ہے کہ وہ حلات کا مکمل جائزہ لے کر سارے حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد اداریہ لکھے۔ کیونکہ اخبارات کے اداریے لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں لوگ اداریہ نویس کی رائے کو اپنی رائے تصور کرتے ہیں۔

سنجیدگی:


اداریہ کا طرز بیاں سنجیدہ نویت کا ہوتا ہے۔ اسی سنجیدگی کی وجہ سے لوگ اداریہ کو غور سے پڑھتے ہیں اور کسی مسلئے سے مکمل طور پر آگاہ ہو کر اس کے حقائق کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

تجزیہ:


اداریہ کے ذریعے کسی واقعہ پر تجزیہ یا تبصرہ کیا جاتا ہے۔اداریہ اخبار کا تجربہ کار صحافی لکھتا ہے۔ اداریہ نویس ایک لیڈر کی طرح قارئین کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔

حکومتی محکموں کا احتساب:


اداریہ کے ذریعے حکومتی محکموں کا احتساب کیا جاتا ہے۔ ان محکموں میں کام کرنے والے کرپٹ افسران کی طرف حکومتی توجہ مبذول کروائی جاتی ہے، تا کہ حکومت ان کے خلاف کوئی اقدامات کر سکے۔ مختصر یہ کہ اداریہ کی مدد سے بہت سارے مسائل، واقعات کو عوام کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ عوام انہیں اداریہ نویس کے نقطہ نظر سے بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ بعض اوقات ہنگامی صورت حال میں بھی اداریہ نویس قلم کی طاقت سے لوگوں میں امن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اداریوں کی اقسام:


مواد کے اعتبار سے اداریوں کی تین اقسام ہیں:
٭معلوماتی اداریے
٭استدلالی اداریے
٭تفریحی اداریے
اس کے علاوہ اداریوں کو سیاسی اداریے، معاشی اداریے، معاشرتی اداریے اور سائنسی معلوماتی اداریے میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔
معلوماتی اداریے:
ایسے اداریے عموماً کسی خاص رائے کا اظہار نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو شدومد سے نہیں کرتے۔ان میں واقعات کا ٹھنڈے دل سے اور حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان میں کسی واقعے کا پس منظر بیان کیا جاتا ہے جس کے تمام پہلو واضح کیے جاتے ہیں۔ شخصیات اور تحریکات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔
استدلالی اداریے:
استدلالی اداریوں میں قاری کو یقین دلایا جاتا ہے کہ فلاں طرز فکر صحیح ہے۔ اداریہ نگار مسئلہ پیش کرتا ہے، اس کے حق میں یا خلاف دلائل دیتا ہے۔ ایک خاص انداز فکر کی تخلیق یا خدمت کرتا ہے اور آخر میں اپنی رائے پر زور دیتا ہے۔
تفریحی اداریے:
ہلکے پھلکے یا تفریحی اداریے بھی ھالات حاضرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ برطانیہ کا مشہور صحافی مینز فیلڈ لکھتا ہے کہ تفریحی اداریہ نگار قوم کا بہت بڑا مخصوص فرد ہوتا ہے کیوں کہ وہ ادارتی صفحے کی ثقالت اور بھاری پن کو کم کر دیتا ہے اور لوگوں کے لیے مسرت کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے ہاں تفریحی اداریوں کا رواج کم ہے لیکن کبھی نہ کبھی کوئی تفریحی اداریہ اخبار میں دے دیتا ہے۔ مثلاً کسی اداریے کے موضوع کو کھیل کی شکل دے کر مطلب نکال دینا تفریحی اداریہ کہلاتا ہے۔

اداریہ نگار کے اوصاف:


اداریہ نگار اخبار کے اداریے میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادارتی کالموں میں وہ جس رائے کا اظہار کرتا ہے، اسے اخبار کی رائے اور پورے حلقہ قارئین کا ترجمان سمجھا جاتا ہے اور اس کے خیالات تجاویز اور تبصرے ملکی سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ عوامی خواہشات اور رجحانات کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی رائے کو فکر و نظر کی روشنی بھی دیتا ہے۔ اچھے اداریہ نگار میں مندرجہ ذیل اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔
زبان پر دسترس:
اداریہ نگار بننے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اس کو زبان و بیان پر دسترس حاصل ہو۔ اگر یہ خصوصیت موجود نہ ہو تو اداریہ لکھنا ناممکن ہے۔ زبان پر عبور ہونے کی بدولت اداریہنگار مختلف واقعات، خیالات، تجاویز کو موثر اور مدلل بنا سکتا ہے اور موزوں الفاظ کا انتخاب اور ان عوامل کا برمحل استعمال کر سکتا ہے۔
منطقی ذہن:
آج کے سائنسی دور میں ہر بات حقائق اور دلائل کی روشنی میں بیان کی جاتی ہے اور قارئین جزبات میں بہنے کی بجائے ہر معاملے کو عقل اور استدلال کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر بات منطقی اصولوں کے مطابق ہو کیوں کہ جب تک اداریہ نگار دلائل پیش نہیں کرے گا، وہ قارئین کو متاثر نہیں کر سکے گا۔
اخبار کی پالیسی سے آگاہی:
آج کے دور میں اداریہ ہی اخبار کی آواز اور پالیسی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اداریہ نویس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اخبار کی پالیسی سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔ اس کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا اخبار کس مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرے مکاتب فکر سے ان کی پالیسی کیا ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر اداریہ نویس کو اداریہ لکھنا چاہیے۔
مطالعے کی وسعت:
ویسے ہر صحافی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مطالعے کی وسعت عام لوگوں سے زیادہ ہو لیکن اداریہ نویس کے لیے اس خصوصیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ اسے معاشرے کے مختلف مسائل پر لکھنا پڑتا ہے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ دلائل اور تجاویز بھی دینا پڑتی ہیں۔ لہٰذا جب تک وہ کسی مسئلے کی تہہ تک نہیں جائے گا، اپنے قارئین کو متاثر نہیں کر سکے گا۔
معاشرتی حالات سے واقفیت:
اداریہ نویس کے یہ ضروری ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہتا ہو، اس کی تہذیب و ثقافت لوگوں کے عقائد اور رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو۔ کیوں کہ ان چیزوں سے لاعلمی کی صورت میں ممکن ہے کہ اداریہ نویس کے قلم سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس سے قارئین کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال ہو اور وہ اس اخبار کو ناپسند کرنے لگیں۔
رہنمائی کا جذبہ:
اداریہ نویس کا قلم صرف حالات و واقعات اور مسائل کو پرکھنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی موجود ہونی چاہیے کہ وہ اپنی عقل و دانش کی روشنی سے قارئین کے ذہن کو منور کرے اور انھیں تاریک و بند کمرے سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کے جذبے سے سرشار ہو۔
قوت فیصلہ:
اداریہ نویس ایک ایسا جج ہوتا ہے جو دلائل سنے بغیر اپنی تحقیق و تجربے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اداریہ نویس کے فیصلوں سے پوری قوم کی تقدیر متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اداریہ نویس میں کسی مسئلے کو پرکھنے اور دلائل دینے کا صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔
غور و فکر کی صلاحیت:
اداریہ نویس کا یہ فرض ہے کہ وہ قاری کی ذہن میں سوچنے کی عادت ڈالے۔ لیکن یہ فریضہ تب ادا ہو سکتا ہے جب خود اداریہ نویس اعلیٰ فکری صلاحیت کا مالک ہو اور بنے بنائے نظریات و تصورات کو قبول کر لینے کی بجائے اپنے علم اور بالغ نظری کی بدولت ہر معاملے میں سوچ بچار سے کام لے۔
فنی چابک دستی:
چوں کہ اداریہ نویس کو مختلف النوع مسائل پر رائے پیش کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے اسے چوکنا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس میں یہ وصف موجود ہونا چاہیے کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کر سکے۔
قومی تقاضوں کا احساس:
اداریہ نویس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ملکی اور قومی تقاضوں کو ہر حال میں ملحوظ رکھے۔ ان تقاضوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان میں اقتصادی مسائل سے دفاعی ضروریات تک ہر طرح کے امور شامل ہیں۔ بیرونی ملکی پالیسی پر تبصرہ کرتے وقت اداریہ نویس کو دوست اور دشمن کا خیال رکھنا چاہیے۔
……٭……

Leave a Comment