ہمارے دور میں پانچ سال کا بچہ سکول داخل کروایا جاتا تھا اور یہی اس کی سیکھنے کی سب سے بہترین عمر ہوتی تھی ۔ چار یا ساڑھے تین سال کے بچے کو سکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا ۔ پھر زمانہ پلٹا ، ہر محلے اور گلی میں پرائیویٹ سکول کھلنا شروع ہوگئے ۔ جہاں تعلیم کے ابتدائی مدارج کو پلے گروپ ، پری نرسری ، کے جی یا پریپ کا نام دے دیا گیا ۔ اب گھر بیٹھی ماوں کو تین سال کی عمر میں بچوں سے جان چھڑانے کا موقع مل گیا ، جیسے ہی بچہ بولنا شروع کرتا ان کو لگتا سکول داخل کرانے کا وقت شروع ہوچکا ہے ۔نجی سکولوں کو اور کیا چاہیے تھا ، وہ اڑھائی سال کا بچہ داخل کرنے پر بھی تیار ہوگئے اور دھڑا دھڑ ایڈمیشن ہونے لگے ۔
وہ بچہ جسے ماں کی نرم آغوش چاہیے تھی ، کھیلنے اور جی بھر کے سونے کی عمر میں سکول یونیفارم پہن کر پلا سٹک اور لکڑی کی کرسیوں پر نیند سے جھولتا رہتا ۔ جس بچے نے ابھی پیشاب پر کنٹرول نہیں سیکھا وہ صبح سات سے دو بجے تک ایک ایسی بھیڑ میں بھیج دیا گیا جہاں آنے کا مقصد اسے خود نہیں معلوم نہیں۔ گیٹ پر چیختے چلاتے اور بلکتے بچے گارڈ کے حوالے کرکے ماں باپ فخر سے گھر کو چل دیتے ۔ ٹ
پچھلے پانچ سال کے سروے کے مطابق نجی سکولوں میں سوا دو لاکھ ایسے بچے داخل ہوئے جن کی عمریں بمشکل تین برس ہیں ۔ جو رکشوں ، ویگنوں ، موٹر سائیکلوں پر دھکے کھاتے سکول پہنچتے ہیں اور سارا دن روتے دھوتے اور اونگھتے گھر واپس چلے جاتے ہیں ۔
2015 میں ایک معروف ادارے میں مجھے پری جونئیر سیکشن کا ہیڈ بنایا گیا ۔ جو بچے دوسرے سکول سے پلے گروپ اور نرسری پاس کرکے آتے وہ ہنوز صفر تھے ۔ دو سال خوار ہونے کے باوجود نصف بچوں کو الفاظ کی شناخت یا حروف کو جوڑنا نہیں آتا تھا، ان بچوں میں علم کا شوق بھی کم تھا، ان کی طبیعت میں سکول سے بیزاری بھی عیاں ہوتی تھی ، ان کے چہرے تھکے ہوئے اور آنکھوں کے نیچے حلقے ہوتے تھے ۔ یہ ایک آدھ بچے کی بات نہیں ، میں پوری پوری کلاس کا مشاہدہ کرتی تھی اور ہر بچے کو سامنے بٹھا کر انٹرویو کرتی تھی ۔
اس کے برعکس ہر وہ بچہ جو پانچ سال کی عمر میں سکول داخل ہوا تھا اس کے اندر سکول سے واضح محبت ، سیکھنے کے عمل میں تیزی اور صحت زیادہ بہتر تھی، اس قد کاٹھ اور اعتماد ان بچوں سے بہتر تھا جو تین سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کرنے پہنچے تھے ۔ بات یہ نہیں کہ نجی سکول محنت نہیں کرتے ، اصل میں بچہ اتنا کم عمر ہے کہ اس میں اتنا کچھ جذب کرنے اور چھ گھنٹے بیٹھنے کی سکت و صلاحیت ہی نہیں نتیجہ صفر نکلتا ہے ۔
اگرچہ ٹیچر ہونے کی وجہ سے میرے بچوں کی سکول فیس نصف تھی لیکن میرے دونوں بچوں نے پانچ سال کی عمر میں داخلہ لیا اور وہ بنیادی سلیبس گھر میں ہی پڑھتے رہے یہی وجہ ہے وہ آج اپنی اپنی جماعتوں میں نمایاں پوزیشنز پر ہیں ۔
اگر کوئی مجبوری نہیں ہے تو پانچ سال سے پہلے بچوں کو ہر گز سکول داخل مت کروائیں ، بنیادی حروف کی پہچان اور ریڈنگ گھر میں کروائیں ، پیار سے گود میں بٹھا کر ان کو پینسل پکڑنے کا طریقہ سکھائیں ۔ نجی سکول سال بھر میں ان کو اتنا نہیں سکھا پاتے جتنا ماں ایک مہینے میں سکھا سکتی ہے۔
بطور استاد اگر میں ماوں کو مشورہ دوں تو خدا کے لیے ہوم سکولنگ کی طرف آئیں نہ صرف اضافی خرچے کی بچت ہوگی بلکہ مستبقل میں ایک صحت مند اور ذہین ترین بچہ آپ کی نسل میں پروان چڑھے گا ۔
یہ شمعیں چھوٹی چھوٹی سی
کل ممکن ہے_ خورشید بنیں
🖊️آصفہ عنبرین قاضی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ