بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ دربان نے جاسوس کے نام کی صدا بلند کی تو وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا اندر آیا اور کورنش بجا لایا۔
”کیا خبر لائے ہو؟“ باشاہ نے رعب دار آواز میں پوچھا۔
”میرے آقا، عظیم شوگن! اطلاع درست تھی۔ سارتو کی افواج ہمارے شہر اوکاسا پر حملے کی بھرپور تیاری کر رہی ہیں۔ قوی امید ہے کہ وہ لگ بھگ ایک ماہ تک حملے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے اور پندرہ دن اُنھیں یہاں پہنچنے میں لگ جائیں گے۔“ جاسوس نے جھک کو تعظیم بجا لانے کے بعد اطلاع دی۔
”مطلب کہ ہمارے پاس اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے ڈیڑھ ماہ کا وقت ہے۔ کل دربار میں سب اپنی تجاویز پیش کریں گے۔“ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے دربار برخواست کرنے کا اشارہ کیا۔
پیارے بچو! گذشتہ کہانی میں یہ تو آپ جان ہی چکے ہیں کہ ہیناٹا کیسے اپنی عقل مندی سے شاہی محل میں پہنچ گئی تھی، مگر امرا کے لیے یہ بات ناقابل قبول تھی، اس لیے وہ دل سے ہنیاٹا کی عزت نہ کرتے تھے۔ البتہ بادشاہ ہیناٹا اور اور اس کے باپ سے خوش تھا۔
اِن دونوں کے لیے دربار میں خاص نشستیں تھیں۔ ہیناٹا نہ صرف عقل مند بلکہ بہت ذہین بھی تھی اور بہت تیزی سے شاہی آداب اور امور سلطنت سیکھ رہی تھی۔ گو وہ زیادہ تر خاموش رہتی تھی، مگر معاملات پر اس کی نظر خوب گہری ہوتی تھی اور گھر واپس جا کر وہ اپنے باپ تودے سے خوب گپ شپ کرتی۔ تودے اپنے تجربے کی روشنی میں اسے کافی باتیں سمجھاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہیناٹا کی صلاحیتیں روز بہ روز نکھر رہی تھیں۔
آج دربار میں ریاستی امور پر بات چیت ہو رہی تھی کہ جب دربان نے ایک جاسوس کے آنے کی اطلاع دی۔ بادشاہ نے فوراً اسے اندر طلب کیا۔ اس جاسوس کو تقریباً دو ماہ پہلے سارتو ریاست میں تعینات کیاگیا تھا، جس کے برے عزائم کی خبر ایک دوست ریاست نے شاہ اوکاسا کو دی تھی، اِس لیے بادشاہ نے جاسوس کو سارتو کی مکمل خبریں لانے کے لیے بھیجا تو واقعی یہ خبر درست نکلی تھی۔
”بابا! اپنے دفاع کے لیے سب سے زیادہ اور سب سے اہم کیا چیز ہو تی ہے؟“ رات کا کھانا کھانے کے بعد اچانک ہیناٹا کو جاسوس کی اطلاع یاد آگئی تھی۔
”سب سے ضروری چیز ہوتی ہے اپنا حصار مضبوط کرنا، جس کے اندر آپ خود محفوظ رہ کر دشمن پر حملہ کر سکیں۔“ تودے نے دور آسمان پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”تو آپ کے خیال میں شوگن سارتو کے حملہ آور ہونے کی صورت میں کیا حکمت عملی اختیار کریں گے؟“ ہیناٹا نے پوچھا۔
”حملہ کی صورت میں شہر سے نکل کر سب قلعہ بند ہو جائیں گے اور وہیں سے سارتو کی فوج پر حملے کریں گے۔“
”کیا سارتو کی فوج قلعہ پر حملہ نہیں کر سکتی اور کیا قلعہ ناقابل تسخیر ہو تا ہے؟“
”حملہ آور فوج کی پہلی کوشش قلعہ پر قبضہ ہی ہوتی ہے۔ ہر ریاست اپنے قلعہ کو ناقابل تسخیر بناتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ فتح نہ ہوسکے۔“
”ارے اب سو بھی جاؤ۔“ ہیناٹا کی ماں نے ان کے مسلسل بولنے پر کہا۔
”ماں! بس آخری بات، پھر ہم اپنے زرخیز دماغوں کو سلا دیں گے۔“ہیناٹا نے لاڈ سے ماں کو کہا جس پرتودے قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
”بابا! میں اوکاسا کا قلعہ اندر باہر سے مکمل طور پر دیکھنا چاہتی ہوں، کیا ایسا ممکن ہے کہ کل ہم دربار شروع ہونے سے پہلے قلعہ کا چکر لگا لیں۔“
”ہاں! ہو تو سکتا ہے، مگر تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟“ تودے نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ابرو چڑھا کر ہیناٹا کو گھورا۔
”دماغ میں تو قلعہ کو دیکھتے ہوئے چلے گا نا۔ ابھی ہم سونے چلتے ہیں ورنہ ماں نے ہمیں ابھی قلعہ کے لیے چلتے کر دینا ہے۔“ ہیناٹا نے ماں کی طرف شرارت سے ڈرتے اور اشارہ کرتے ہوئے کہا اور سونے کے لیے بھاگ گئی۔
صبح سورج پوری طرح طلوح بھی نہیں ہوا تھاجب انھوں نے قلعہ کا رخ کیا۔ دربار آج وقت سے پہلے بھر گیا تھا اور ہرکوئی اپنا اظہار خیال کرنے میں مصروف تھا۔ بادشاہ کی آمد کے ساتھ ہی سب مودب ہو گئے۔
”مجھے امید ہے آپ سب بہترین دفاعی حکمت عملی کے منصوبے لائے ہوں گے۔“ بادشاہ نے اپنی بات کا آغاز کیا: ”سب سے پہلے میں آپ کی رائے جاننا چاہوں گا شرائیکن۔“
”عظیم شوگن! میرا خیال ہے آج ہی سے جنگی مشقیں شروع کر دی جائیں۔“
سپہ سالار نے تعظیماً جھک کر کہا۔
”بلاشبہ، یہ تو پہلا کام ہے۔ اس کے علاوہ یہ دیکھیں گے کہ ہم اپنے مضبوط دفاع کے سلسلے میں اور کیاکیا اقدامات کر سکتے ہیں؟“ کافی دیر تک امرا اور وزرا اپنی اپنی رائے پیش کرتے رہے۔ہیناٹا سب کی آرا سن رہی تھی۔ آخر کار وہ اٹھی اور بولی:
”عظیم شوگن! میرے پاس قلعہ کے دفاع کے لیے ایک منصوبہ ہے، امید ہے ہماری افواج کو قلعہ سے باہر نکلے بغیر فتح حاصل ہو جائے گی۔“ ہیناٹا کی بات پر کچھ فوجی وزرا کے چہروں پر تمسخر بھری مسکراہٹ ابھری۔
”لگتا ہے محترمہ کسی جادوگر کی خدمات حاصل کرنے والی ہیں۔“ ایک افسر نے کہا۔
”ہمیں عقل مند ہیناٹا کے منصوبے پر پورا بھروسا ہے۔ وہ یقینا بہت عمدہ اور فائدہ مند ہو گا، جیسا کہ پچھلے مقابلے میں ہیناٹا نے اس انداز میں محل بنانے کا سوچا کہ بڑے بڑے دماغوں میں بھی وہ خیال نہ آسکا۔“
”عظیم شوگن کا اقبال بلند ہو۔“ہیناٹا خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ پرُ جوش انداز میں تعظیم بجا لائی اور کہنے لگی:
”عالی جاہ! اس کے لیے آپ مجھے ایک اجازت نامہ لکھ دیجیے جس کے تحت ریاست کے تمام لوہار، کمہار اور بڑھئی چالیس دن کے لیے میرے ساتھ تعاون کریں۔ اُنھیں ان کے کام کا پورا پورا اور بہترین معاوضہ دیا جائے گا۔“
”لیجیے جناب! اب فوج کی جگہ اوکاسا کا دفاع بڑھئی، کمہار اور لوہار کریں گے۔ میرا خیال ہے ہمیں سوپ کا ٹھیلا لگا لینا چاہیے۔“ دوسرے نے طنز کیا۔
ملک کی حفاظت اور دفاع ہمیشہ سے افواج کا کام رہا ہے اور ہتھیاروں کے سلسلے میں لوہاروں کا کام بھی سمجھ میں آتا ہے، مگر ہیناٹا کمہاروں اور بڑھئی سے کیا کام لینا چاہ رہی تھی۔ یہ بات فوج کے افسران کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ انہیں توہین بھی محسوس ہو رہی تھی۔
”ہم آج ہی اس کے لیے اعلان کروا دیتے ہیں۔“ بادشاہ نے تالی بجانے کے لیے جونہی ہاتھ بلند کیا ایک آواز ابھری:
”عظیم شوگن! میرا خیال ہے آپ پہلے ہیناٹا سے ان کا منصوبہ سن لیں تو بہتر ہو گا۔“ سپہ سالار کو ہیناٹا کی اتنی پذیرائی شروع دن سے کھٹکتی تھی۔
”شرائیکن! یقینا ہیناٹا! کے دماغ میں جو منصوبہ آیا ہے وہ عام دفاعی منصوبوں سے ہٹ کر ہوگا، مجھے یقین ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے ہمیں کوئی نئی چیز ملے۔“
”آپ بہتر سمجھتے ہیں عظیم شوگن!“ سپہ سالار نے کینہ توز نظروں سے ہیناٹا کو گھورا۔
”قلعہ میں تین ماہ کا سامانِ زندگی جمع کیا جائے اور لوگوں کو بھی متوقع حملے سے خبردار کر دیا جائے تاکہ وہ قلعہ بند ہونے کی اپنی اپنی تیاری کر لیں۔“
چند مزید ہدایات دینے اور ہیناٹا کے لیے اجازت نامہ جاری کروانے کے بعد بادشاہ سلامت نے دربار برخاست کرنے کا اشارہ کیا۔
ایک ماہ گزر گیا۔ بادشاہ سلامت کو شہر باہر سے دشمن کی غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاعات ملنا شروع ہو گئیں اور اس کے ساتھ ہی شہریوں کو قلعہ بند کرنا شروع کر دیا گیا۔ فوجی دستوں کی قلعہ سے باہر نکل کر دشمن فوج پر چھاپہ ماری کی مشقیں اور منصوبہ بندی پر ایک بار پھر غور و خوض کیا جانے لگا۔
دور چوکیوں پر موجود فوجیوں کو زیر زمین جانے کا حکم دے دیا گیا۔ ہیناٹا اس عرصے میں خوب مصروف رہی۔ بالآخر سارتوکی فوج قلعہ کے باہر آکر مورچہ زن ہو گئی۔ بادشاہ سلامت نے ایک بار پھر دفاعی حکمت عملی پر بات چیت کے لیے دربار منعقد کیا۔
”عظیم شوگن کا اقبال ہمیشہ بلند رہے! میرے سینکڑوں کاریگر محل سے باہر اپنا ہنر لیے کھڑے ہیں۔ اس ہنر کو آزمانے اور فصیلوں پر پہنچانے کا بندوبست کرنے کے لیے فوج سے مدد کی درخواست ہے۔ امید ہے شرائیکن میری معمولی کوشش ایک بار ضرور آزما کر دیکھیں گے۔“ہیناٹا نے بادشاہ اور سپہ سالار دونوں سے اجازت طلب کی۔
”شرائیکن!“ بادشاہ نے سپہ سالار کو مخاطب کر کے دیکھا۔
”عالی جناب!“ سپہ سالار سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکا جس کا مطلب تھا حکم کی تعمیل ہو گی۔ ہیناٹا نے سپہ سالار کو اپنے ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ سمجھایا۔ اس کے علاوہ ایک اور کام فصیل کے باہر تھا جو وہ شہریوں کے قلعہ بند ہونے کے بعد دو راتوں میں مزدوروں سے کروا چکی تھی۔
اگلے دین سارتو کے فوجیوں نے قلعہ کی فصیل توڑنے کے لیے صف بندی کی اور آگے بڑھے۔ حیرت کی بات تھی کہ ان کو روکنے کے لیے سامنے کوئی فوج موجود نہ تھی۔جب وہ ایک کلو میٹر دور رہ گئے تو قلعے کی فصیل پر موجود اوکاسا کی فوج کے جھنڈے نظر آنے لگے جس کا مطلب تھا کہ وہ قلعے کی فصیل کے اوپر ہی سے جنگ لڑیں گے۔ باہر نہیں آئیں گے اور قلعے کے دروازے مکمل طور پر بند رہیں گے۔
سارتو کے فوجی جب قلعہ سے تیس گز کے فاصلے پر پہنچ گئے اور ان کی طرف سے فصیل توڑنے کے لیے تیر اور بھاری پتھر پھینکے جانے لگے تب ان پر تیروں سے جوابی حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ کسی چیز کی بوریاں الٹی گئیں۔
قلعہ کے قریب آتے سارتو کے فوجیوں کے گھوڑے اور ہاتھی بے قابو ہو کر گرنے لگے۔ کئی گھوڑے اور ہاتھی تو اُٹھ ہی نہیں پا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کو زمین نے پکڑ لیا ہو۔ جو اٹھ رہے تھے وہ بھی تھوڑی دیر بعد عجیب بے ہنگم انداز میں زمین بوس ہو جاتے۔ اوکاسا کے فوجی نہ صرف ان پر مسلسل تیروں سے حملہ کر کے زخمی کر رہے تھے بلکہ سارتو کے فوجیوں کی حالت دیکھ کر ان کے قہقہے بھی بلند ہو رہے تھے۔
سپہ سالار شرائیکن فوجیوں کو مختلف ہدایات دیتے ہوئے سارتو کی بکھری فوج کو رہا تھا اور دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے ہیناٹا کی ذہانت کا معترف بھی ہو رہا تھا۔ پہلے دن سارتوکی افواج قلعہ سے تیس گز کے فاصلے سے آگے نہ بڑھ سکیں اور سورج ڈھلنے پر انہیں واپس لوٹنا پڑا۔ اس دوران ان کا خوب جانی نقصان ہوا اور بے شمار فوجی، گھوڑے اور ہاتھی مرے۔ اس میں مزے کی بات یہ تھی کہ اوکاسا کی فوج کا ایک فوجی زخمی تک نہ ہوا تھا۔ بادشاہ تک ساری اطلاعات پہنچ رہی تھیں۔ وہ ہیناٹا کے منصوبے پر بہت خوش تھا۔
قصہ مختصر، سارتو کی ریاست نے اسے بہت آسان مہم سمجھ کر اپنی فوجوں کو اوکاسا بھیجا تھا اور اب مسلسل جانی اور مالی نقصان اُٹھا کر انھیں چند دن بعد ہی پسپائی اختیار کرنا پڑی کیوں کہ اوکاسا کی اس دفاعی حکمت عملی کا ابھی ان کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ روزانہ حملہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے مزید فوجی مروا رہے تھے۔
دراصل ہیناٹا نے لوہاروں سے لوہے،کمہاروں سے مٹی اور بڑھئی سے لکڑی کی گول گولیاں بنوائی تھیں۔ مٹی کی گولیاں بھٹی میں خوب پکا کو سخت کر لی گئی تھیں جیساکہ محل پختہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قلعہ کے چاروں اطراف چھوٹے چھوٹے مگر گہرے گڑھے کھودے گئے جو دور سے نظر نہ آتے تھے۔
سارتو کی فوج جب قلعہ سے کافی قریب آتی تو فصیل کے اوپر سے وہ گولیاں برسائی جاتیں، جن پر پاؤں پڑتے ہی سارتو کے فوجی اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتے اور اِدھر اُدھر پھسل کر گر جاتے یا گھوڑوں اور ہاتھیوں کے پاؤں گڑھوں میں جا پڑتے اور وہ وہاں سے جلدی نکل نہیں پاتے تھے۔
اس دوران اوکاسا کے فوجی ان پر شدید تیر برساتے اور اُنھیں زخمی کر دیتے یا مار دیتے۔ بہرحال یہ ایک سادہ سی حکمت عملی تھی جو حیران کن حد تک کامیاب رہی تھی۔ بادشاہ نے ہیناٹا کو اعزاز سے نوازا اور اپنی نشست کے ساتھ اس کے لیے ایک نشست مخصوص کروائی۔ آج ہیناٹا کے لیے سب کے دلوں میں محبت اور احترام تھا۔
٭……٭……٭