سوال:حفیظ جالندھری کی گیت نگاری پر مفصل نوٹ لکھیے۔


جواب:گیت کی تعریف:


لغت میں گیت سے مراد‘راگ’‘سرور’اور‘نغمہ’کے ہیں۔ اس لیے گیت کو گانے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔اس کا گہرا تعلق موسیقی سے ہے، اس لیے اس میں سر اور تال کو خاص اہمیت حاصل ہے۔گیت میں جذبات و احساسات اور خاص کر ہجر و فراق کو بڑے والہانہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔موسیقی میں گیت سروں کی ایک ایسی لہر ہوتی ہے جس میں انسانی آواز بھی شامل ہو اور وہ گیت کے بول گائے۔گیت کو گایا جاتا ہے اور انسانی آواز جو کہ سر میں ادا کی جاتی ہے اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔بعض گیت ایسے بھی ہیں جن میں آلات موسیقی کا استعمال ممنوع ہوتا ہے اور گیت کے تمام تر جزئیات انسانی آواز پر مشتمل ہوتے ہیں۔
گیت کے بول عام طور پر شاعری پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کو ادا کرتے ہوئے سر اور تال کا تمام تر احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔گیت کو یا تو ایک ہی گائک (سنگر) گاتا ہے یا پھر مرکزی گلوکار کے ساتھ کئی دوسری آوازیں بھی شامل ہوتی ہیں جو کہ سر کو اٹھانے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شامل کی جاتی ہیں۔
گیت کی کئی قسمیں ہیں جو کہ شاعری، آواز اور خطوں کی بنیاد پر درجہ بندی میں ڈالی جاتی ہیں۔لطیف گیت، کلاسیکی گیت، پاپ گیت یا پھر لوک گیت۔ اس کے علاوہ گیتوں کی درجہ بندی موسیقی کی صنف اور گیت کے مقصد کے تحت بھی کی جاتی ہے۔ جیسے کہ ڈانس، ریپ، جاز، کنٹری وغیرہ
مختلف اصناف:
اردو کی دوسری اصناف مثلاً غزل،قصیدہ،مثنوی، مرثیہ تو فارسی سے آئیں لیکن گیت کی صنف کو اردو شاعری میں ہندی سے لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا ہی سے گیتوں کے لیے عناصر کا ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ ایک ہندی لفظ کا استعمال اور دوسرا موسیقیت۔جس طرح ڈرامہ اسٹیج پر پیش کرنے کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح گیت کی تخلیق بھی اس لیے ہوتی ہے کہ اسے گایا جائے گا۔ یہ لکھتے وقت بحروں کے چناؤ اور الفاظ کے داخلی آہنگ کا خیال رکھا جاتا ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گیت جب تحریر کے مرحلے سے گزر کر آواز کی دنیا میں داخل ہو تو موسیقی کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہو سکے۔
گیتوں کے مزاج:
اردو میں گیت نگاری کی روایت کے آثار دکنی دور ہی سے مل جاتے ہیں۔ کیونکہ دوسری منظومات میں بھی ہندی زبان کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دکنی شاعری ہندی گیتوں کے مزاج سے قریب تھی۔ جب اردو کا مرکز دکن سے شمالی ہند میں منقل ہوا تو اردو گیت کا ارتقا کے قریب قریب رک گیا کیونکہ دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں پر فارسی شاعری کے گہرے اثرات تھے اور گیت کی شاعری وہ پودا ہے جا مقامی زمین اور مقامی آب و ہوا میں پروان چڑھتا ہے۔  پھر جب واجد علی شاہ کے دور میں اردو ڈرامے کی بنیاد رکھی تو اردو گیت کو ایک نئی زندگی مل گئی۔خاص طور پر امانت لکھنوی کے ڈرامے اندر سبھا سے اردو کا ایک نیا دور شروع ہوا۔کیونکہ اندر صبھا میں سب سے زیادہ اہمیت گیتوں کو ہی حاصل ہے۔ پھر امانت لکھنوی سے لے کر حاشر کے دور تک گیت ہر ڈرامے کے جزو لازم کے طور پر شامل رہے۔گوکہ ان گیتوں کا ادبی معیار کوئی بہت زیادہ بلند نہیں تھا لیکن ان ڈراموں کا یہ کارنامہ کچھ کم نہیں کہ ان کی وساطت سے گیتوں کو اردو میں ایک باقاعدہ صنف سخن کا درجہ حاصل ہو گیا۔
موضوعات کا تنوع:
حفیظ جالندھری کے گیتوں کی سب سے قابل ذکر خوبی ان کی رنگارنگی اور موضوعات کا تنوع ہے۔ان میں مناظر فطرت کی تصویر کشی بھی ہے، اور جذبات کا والہانہ اظہار بھی، شباب کی سرمستیاں بھی ہیں اور شعور کی گہرائیاں بھی لیکن ہر جگہ انہوں نے بیان کی سادگی نرمی اور لطافت کو قائم رکھا ہے۔ ان کے ابتدائی گیتوں میں انسانی حسن کی مصوری ملتی ہے لیکن ان کی بنائی ہوئی تصویروں میں حرکت بھی ہے اور آہ از بھی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان تصویروں کے سینے میں دل بھی رکھ دیا ہے۔اس طرح ان کے گیتوں کی مخلوق جذبات سے عاری نہیں ہوتی بلکہ الفاظ کی جادوگری سے وہ ان میں جان ڈال دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ایک گیت ”برسات“ کا یہ بندہے:
آموں کے نیچے ڈالے ہیں جھولے        مہ پیکروں نے برق افکوں نے
گیت ان کے پیارے میٹھے رسیلے ہلکی صدائیں سادہ ادائیں
گل پیرہن ہیں غنچہ دہن ہیں خود مسکرانا خودم چڑچڑانا
پھر جھینپ جانا اکھڑ پتے سے آموں کے نیچے ڈالے ہیں جھولے
ماحول سے ہم آہنگی:
نظموں کی طرح حفیظ نے گیتوں میں بھی اپنا رشتہ اپنی زمین اور اپنے ماحول سے پوری طرح قائم رکھا ہے۔انہوں نے اپنے شاعرانہ تخیل کے بل بوتے پر کوئی خیالی دنیا تخلیق کرنے کے بجائے اپنے گردوپیش کے مناظر کو اس طرح ڈھال دیا کہ فطرت ایک جیتی جاگتی شخصیت بن کرہمارے سامنے آجاتی ہے۔
ہر برگ گل پر موتی جڑے ہیں
موتی ہی موتی        بکھرے پڑے ہیں
قدرت کی ہر شے گویا دلہن ہے
باریک ململ تاریک آنچل چہرے پر ڈالے گھونگھٹ نکالے
شب کی ردا میں دھندلی ضیاء میں
اپنی حیا میں چپ ہے مگن ہے
گویا دلہن ہے
موسیقی و نغمگی:
حفیظ کے گیتوں کی فضا موسیقی اور نغمگی سے تعمیر ہوئی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے مترنم بحروں،خوشی نما فارسی تراکیب کے ساتھ ہندی کے نرم شیریں اور رسیلے الفاظ کے انتخاب سے کام لیا ہے۔ ان کے گیتوں کی اس خوبی کے بارے میں ضمیر جعفری نے لکھا ہے:
”اس کے یہاں موسیقیت میں رچی بسی بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب، اس حسن تناسب کے ساتھ ملتی ہے کہ اس کے بغیر ہم اس کے آرٹ بلکہ خود حفیظ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ایک لطیف و متوازن نغمگی بھی اس کے آرٹ کا سب سے بڑا حسن ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ حواس میں بہتی ہوئی ایک بے نام لذت کو اس میں پوری مٹھاس کے ساتھ اشعار میں نچوڑتا چلا جاتا ہے۔اس کے الفاظ گاتے ہیں اور مصرعے گنگناتے  ہیں۔“
قوت اختراع:
حفیظ جالندھری نے اپنی قوت اختراع سے کام لیتے ہوئے گیت کی تکنیک میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔کہیں مصرعوں کی ترتیب  اور قطع وبرید سے اور کہیں ایک ہی گیت میں دو بحروں کے ملاپ سے اور کہیں گیت کے مصرعے کی تکرار سے انہوں نے اپنے گیتوں میں ایک نغماتی وحدت پیدا کی ہے۔ جو ان کے گیتوں میں ایک نئی چیز ہے حفیظ کے قلم نے گیت کو وہ مقام بخشا ہے کہ اردو زبان ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

Leave a Comment