گڑیا…نوشاد عادل

وہ بہت خوب صورت بچی تھی۔
ہلکے بھورے بال، گورا رنگ،چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ……بالکل گڑیا لگتی تھی۔اس کی ماں بھی اسے گڑیا ہی کہہ کر پکارتی تھی۔گڑیا کا اصل نام امبرین تھا۔جو بھی اسے دیکھتا،پیار ضرور کرتا۔اسے دیکھنے والایہی سمجھتا کہ وہ کسی بڑے گھرانے کی بچی ہے،مگر گڑیا کا تعلق ایک غریب اور مفلس گھرانے سے تھا۔وہ لوگ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔گڑیا کا باپ ایک مزدور پیشہ آدمی تھا اور اس کی ماں ایک بنگلے میں ملازمہ تھی۔گڑیا کی ماں جب کام پر جانے لگتی تو گڑیا کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتی تھی،کیوں کہ گڑیا اکیلی رہ جاتی۔دونوں غریب میاں بیوی اپنی حسین بیٹی کو دیکھ کی جیتے تھے اور اس پر جان نچھاور کرتے تھے۔گڑیا عام بچوں کی نسبت کم گو اور سمجھ دار تھی۔بہت سے جاننے والے کہتے تھے کہ گڑیا کو تو کسی امیر گھرانے میں پیدا ہونا چاہیے تھا، تاکہ وہ شہزادیوں کی طرح رہ سکتی۔
گڑیا کے ماں باپ کو بھی اس بات کا بہت احساس تھا، اس لیے وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر گڑیا کو اچھے کپڑے پہناتے اور اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرتے۔جس بنگلے میں گڑیا کی ماں نجمہ خاتون کام کرنے جاتی تھیں، وہ بہت امیر گھرانہ تھا۔وہاں کی فیروزہ بیگم صاحبہ بھی بہت اچھی خاتون تھیں۔وہ اپنے ملازموں کے ساتھ نرمی سے پیش آتی تھیں۔آج تک کسی نے فیروزہ بیگم کو ملازموں سے سخت لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے تلخ رویے سے ملازمین کی دل شکنی ہو۔
فیروزہ بیگم کی بھی ایک ہی بیٹی تھی کرن۔کرن بھی گڑیا کی ہم عمر، لیکن شکل و صورت میں عام سی تھی۔گڑیا اور کرن میں خوب دوستی ہو گئی تھی۔نجمہ خاتون صبح جب گڑیا کے ساتھ وہا ں آتیں تو گڑیا کرن کے ساتھ کھیل کود اور باتوں میں لگ جاتی تھی۔دونوں میں بہت پیار تھا۔کرن کاکوئی بھائی یا بہن نہیں تھی۔وہ پہلے صرف کھلونوں سے اپنا دل بہلاتی تھی۔گڑیا کے آنے کے بعد کرن کا دل بھی بہل گیا تھا۔
فیروزہ بیگم دونوں کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر اکثر کہتی تھیں۔ ”ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں سگی بہنیں ہیں ……گڑیا جب چلی جاتی ہے تو کرن اس وقت تک بے چین رہتی ہے جب تک دوبارہ گڑیا نہ آ جائے۔“
”ماشااللہ دونوں میں بہت ایکا ہے بیگم صاحبہ ……“ نجمہ خاتون اُن کی تائید میں سر ہلا دیتی تھی۔”اللہ نظرِ بد سے بچائے……گڑیا کا بھی یہی حال ہے گھر آنے کے بعد گھڑی گھڑی پوچھتی ہے، امی صبح ہونے میں کتنی دیر ہے۔“
”اللہ ان دونوں کی محبت قائم رکھے……“ فیروزہ بیگم ہاتھ اُٹھا کر کہتیں۔
فیروزہ بیگم اور نجمہ خاتون بھی دونوں بچیوں کو کھیلتا دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں اور اُن کے دل سے ڈھیروں دعائیں نکلتیں۔
لیکن ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ فیروزہ بیگم کے گھر کچھ مہمان آئے۔وہ لوگ فیروزہ بیگم کے قریبی رشتے دار تھے، جو کافی عرصے بعد ملنے آئے تھے۔ ملازمین مہمانوں کا سامان اُٹھاکر کمروں میں رکھ رہے تھے۔نجمہ خاتون کھانے پینے کی اشیاء ٹیبل پر رکھنے لگیں۔
فیروزہ بیگم ایک طرف صوفے پر بیٹھی مہمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔
مہمان عورت نے اُن سے پوچھا”فیروزہ باجی……ہماری کرن کہاں ہے،اب تو وہ بڑی ہو گئی ہو گی……ہم نے اسے تب دیکھا تھا،جب وہ ننھی منی سی تھی،اب تو باتیں بھی کرنے لگی ہو گی؟“
”باتیں ……فیروزہ بیگم ہنسنے لگیں۔”اتنی باتیں کرتی ہے کہ آپ لوگ ہنستے ہنستے تھک جائیں گے، مگر اس کی زبان نہیں رکے گی۔“
”یوں کہیں نا باجی کہ وہ بنی بنائی ریڈیو ہے۔“ اسی عورت نے شرارتی لہجے میں کہا۔
”لیکن وہ ہے کہاں؟……بلائیں تو اسے……“ مہمان آدمی نے اِدھر اُدھر گردن گھماتے ہوئے پوچھا۔
”گڑیا کے ساتھ کھیل رہی ہو گی……یہ جو ہماری نجمہ خاتون ہیں ناں …… اُن کی بیٹی ہے گڑیا……بس گڑیا ہی کرن کی سہیلی ہے۔دونوں میں بڑی محبت ہے۔ میں ابھی بلواتی ہوں۔“
یہ کہہ کر فیروزہ بیگم نے ایک ملازمہ کو اشارہ کیا۔ پھر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ”آپ لوگ بیٹھیں میں ابھی کچن سے ہو کر آتی ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ کچن کی طرف چلی گئیں۔چند منٹ بعد ہی ڈرائنگ روم میں گڑیا اور کرن داخل ہوئیں۔ دونوں نے بڑے ادب سے سلام کیا۔
ایک عورت نے لپک کر گڑیا کو گود میں اُٹھا کر چوم لیا۔”ارے بھئی واہ……ہماری کرن ماشااللہ اتنی بڑی ہو گئی……دیکھو تو کتنی پیاری لگ رہی ہے بالکل شہزادیوں کی طرح……“
”چھوٹی تھی، تب بھی اچھی تھی، لیکن اب تو بہت خوب صورت ہو گئی ہے……“
”اللہ……دیکھو تو بال کتنے پیارے ہیں …… ہیں نا……؟“
”آنکھیں کتنی پیاری ہیں اور چہرے پر کتنی کشش ہے……“
مہمان گڑیا کی تعریف کرتے رہے۔گڑیا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کرن کیوں کہہ رہے ہیں۔وہ کرن تو نہیں ہے، وہ تو گڑیا ہے۔کرن تو وہ ہے، جو خاموش ایک طرف کھڑی ہے اور کچھ بول بھی نہیں رہی۔
اتنے میں فیروزہ بیگم مسکراتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں ……وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں، مگر اندر کا منظر دیکھ کر اُن کا منہ کھلاکاکھلارہ گیا۔وہ حیرانی سے کبھی گڑیا کو اور کبھی کرن کو دیکھنے لگیں۔کرن ٹکر ٹکر مہمانوں کو دیکھ رہی تھی اور گڑیا مہمانوں کی گود میں گھبرائی گھبرائی سی لگ رہی تھی۔
اگلے ہی لمحے فیروزہ بیگم سارا معاملہ سمجھ گئیں۔یقینا مہمانوں نے گڑیا کو ہی اُن کی بیٹی سمجھا ہو گا،کیوں کہ گڑیا کرن سے زیادہ پیاری اور خوب صورت تھی۔اس وقت بھی عام کپڑوں میں گڑیا واقعی گڑیا جیسی ہی لگ رہی تھی، جب کہ کرن اچھے کپڑوں میں بھی عام سی بچی لگ رہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ مہمان دھوکا کھا گئے،لیکن اس میں قصور کسی کا بھی نہیں تھا۔ مہمانوں کا اور نہ گڑیا کا اور نہ کرن کا۔بس ایک غلط فہمی ہو گئی تھی۔
”ارے بھئی……آپ لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے……بھئی یہ تو کرن کی سہیلی گڑیا ہے۔کرن تو یہ ہے……“ فیروزہ بیگم کاچہرہ عجیب سا ہو گیاتھا۔انہیں شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اور دل میں عجیب سا خیال بھی پیدا ہو رہا تھا۔
”واقعی……“مہمان ہکا بکا رہ گئے۔
ایک عورت نے کہا۔ ”مذاق تو نہیں کر رہی ہو فیروزہ……“
”یہ بھی کوئی مذاق کی بات ہے۔“ فیروزہ بیگم شرمندہ اور جھینپی ہوئی لگ رہی تھیں۔
مہمانوں نے کرن کو دیکھا۔ایک عورت نے کرن کو بلایا۔”سوری کرن……آئی ایم سوری……آؤ اِدھر بیٹھو……“
گڑیا اور کرن کو ساتھ ساتھ صوفے پربٹھا دیااور ان سے وہ لوگ باتیں کرنے لگے۔
اس واقعے کے بعد فیروزہ بیگم کے دل میں نفرت اور حسد کی چنگاری بھڑکنے لگی۔جو کچھ بھی ہوا تھا گڑیا کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا اور یوں بھی اس معصوم سی بچی میں اتنی سمجھ بھی نہیں تھی۔فیروزہ بیگم اس نا سمجھ بچی سے،اس کی خوب صورتی سے جلن محسوس کرنے لگیں۔ انہیں بس یہی خیال کھائے جارہا تھا کہ گڑیا ایک غریب نوکرانی کی بیٹی اتنی حسین کیوں ہے؟ان کی بیٹی اس کے مقابلے میں اتنی عام شکل کیوں ہے؟
اس سے پہلے انہیں بھی گڑیا کی خوب صورتی اور معصومیت پرپیار آتا تھا،لیکن مہمانوں والے واقعے کے بعد اُن کے دل میں کینہ بیٹھ گیا تھا۔بظاہر ان کا رویہ پہلے جیسا ہی تھا،نجمہ خاتون سے بھی وہ ہنس بول کر باتیں کر رہی تھیں۔
مہمان تو دو چار روز بعد چلے گئے۔اِن دو چار دنوں میں مہمانوں کی توجہ اور محبت کا مرکز زیادہ تر گڑیا ہی بنی رہی۔یہ دن فیروزہ بیگم کے دل پر آرے کی طرح گزر رہے تھے۔اُن کے رشتے دار گڑیا کو پیار کرتے تو فیروزہ بیگم کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے،کلیجے میں آگ سی بھڑکتی محسوس ہوتی تھی۔نجمہ خاتون اپنی گڑیا کی تعریفیں سن سن کر پھولے نہیں سماتی تھیں۔
سیدھی سادی عورت تھی۔اُن سے خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔فیروزہ بیگم سے بھی اپنی مسرت کا اظہارکر دیتی تھیں۔فیروزہ بیگم اوپری دل سے مسکرا دیتی تھیں، مگر اندر کا حال کسے پتاتھا۔
فیروزہ بیگم کا دل کینے اور نفرت سے لبریز ہو گیا تھا۔وہ بے چین رہنے لگی تھیں۔انہوں نے جان لیا تھا کہ جب تک وہ گڑیا کی بے عزتی نہیں کر دیتیں، انہیں سکون نہیں ملے گا۔
ایک معصوم سی بچی کے لیے فیروزہ بیگم کے خیالات تعجب خیز تھے،لیکن جب بدی انسان کے دل میں گھر کر لے تو وہ کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔
ایک دن شام کے وقت جب نجمہ خاتون نے گھر کا کام مکمل کر لیا تو انہوں نے گڑیا کو ساتھ لیا اور لان میں بیٹھی فیروزہ بیگم کے پاس آئیں۔وہ کوئی رسالہ پڑھ رہی تھیں۔
”اچھا بہن جی…… اب میں چلوں ……وہ آپ کے کپڑے بھی استری کر کے رکھ دیے ہیں۔“
”ہوں ٹھیک ہے۔“فیروزہ بیگم نے رسالے پر سے نظر اٹھاکر دیکھا۔”اور وہ کچن……؟“
”جی وہ بھی کر دیا ……“
فیروزہ بیگم نے گڑیا کو دیکھا۔ اس کے بھولے بھالے چہرے پر کچھ گھبراہٹ کے آثار نظر آ رہے تھے۔وہ فیروزہ بیگم کی طرف دیکھنے سے کترا رہی تھی۔ فیروزہ بیگم کھٹک گئیں۔انہوں نے گڑیا کے ہاتھ میں پکڑا ہوا رنگین کپڑا دیکھا، جس میں کچھ چیز تھی اور گڑیا اسے چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے جاؤ……“ فیروزہ بیگم نے کچھ سوچ کر اسے جانے کی اجازت دے دی۔ اُن کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا۔
نجمہ خاتون سلام کر کے چل دیں۔ گڑیاان کے ساتھ تھی۔فیروزہ بیگم کی نظریں کپڑے پرلگی ہوئی تھیں، جس کے اندر کوئی چیز لپٹی ہوئی تھی۔ابھی وہ چھ سات قدم ہی دور گئی ہوں گی کہ فیروزہ بیگم نے زور سے آواز لگائی”گڑیا……گڑیا ادھر آؤ۔“
گڑیا پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی،فیروزہ بیگم کی آواز سن کے اس کے ہاتھ سے کپڑے میں لپٹی ہوئی چیز چھوٹ گئی۔فیروزہ بیگم نے دیکھا،گری ہوئی چیز سنہرے بالوں والی قیمتی گڑیا تھی،جو کرن کے ڈیڈی نے اسے سال گرہ پر تحفے کے طور پر دی تھی۔تو اس کا مطلب ہے کہ گڑیا اسے چرا کے لے جا رہی تھی،اس نے چوری کی ہے۔فیروزہ بیگم جانتی تھیں کہ گڑیا کو کرن کی یہ سنہرے بالوں والی گڑیا بہت پسند تھی۔اکثر وہ دونوں اس گڑیا سے کھیلتی رہتی تھیں۔آج موقع لگا تو وہ اسے سب کی نظروں سے بچا کر لے جا رہی تھی۔
غصے کے مارے فیروزہ بیگم کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔اگر ان کے دل میں پہلے سے گڑیا کے لیے نفرت و کدورت نہیں ہوتی تو شاید وہ اسے بھول سمجھ کر چھوڑدیتیں یا پھر اسے ہنسی خوشی وہ گڑیا دے دیتیں،مگر اب معاملہ الگ تھا۔فیروزہ بیگم کو موقع مل گیا تھا، بھلا اسے وہ ہاتھ سے کیسے جانے دیتیں۔اُدھر نجمہ خاتون حیران حیران سی کھڑی تھیں۔ وہ کبھی اپنی بیٹی کو دیکھنے لگتیں اور کبھی قیمتی گڑیا کو۔بے چاری معصوم گڑیا ڈر کے مارے رونے لگی۔
فیروزہ بیگم آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑیں۔
”اچھا تو تم یہ چوری کر کے لے جارہی تھیں۔ اتنی سی عمر اور کام دیکھو اس کے……دیکھا نجمہ تم نے ……تمہاری یہ ننھی سی گڑیا نے کیا حرکت کی ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ گڑیا ایسا کر سکتی ہے۔اپنی سہیلی کی چیز چراتے ہوئے تمہیں ذرا احساس نہیں ہوا۔ارے یہ گڑیا اتنی ہی پسند تھی تو مانگ لی ہوتی……میں کیا منع کر دیتی……۔“
فیروزہ بیگم دل کا غبار دونوں ماں بیٹی پر نکالنے لگیں۔فیروزہ بیگم کی جلی کٹی باتوں نے نجمہ خاتون کو دھچکا پہنچایا تھا۔وہ اُن کا نیا روپ دیکھ کر روہانسی ہو گئی تھیں۔فیروزہ بیگم نے ان سے کبھی سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی۔گڑیا کو ہمیشہ کرن جیسا ہی چاہا تھا۔ آج تو فیروزہ بیگم نے کھڑے کھڑے اُن کی بے عزتی کر دی تھی۔گڑیا پر چوری کا الزام لگا رہی تھیں۔
”یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ بہن جی……میری گڑیا بھلاچور کیسے ہو سکتی ہے؟“ نجمہ خاتون نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
”مجھ سے کیا پوچھتی ہو نجمہ۔پوچھو اپنی بیٹی سے……ثبوت بھی تمہارے پیروں میں پڑا ہوا ہے …… یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے؟“
نجمہ خاتون نے روتی ہوئی گڑیا کو جھنجوڑ ڈالا۔ ”تو نے چوری کی …… تو نے چوری کیوں کی …… بول……بولتی کیوں نہیں؟“ نجمہ خاتون نے روتی ہوئی گڑیا کے گال پر ایک تھپڑ رسید کیا۔
اُن کی انگلیوں کے نشانات گڑیا کا گال پر ثبت ہو گئے۔روتے روتے گڑیا کی ہچکی بندھ گئی۔
نجمہ خاتون اسے گھسیٹتی ہوئی دروازے سے باہر لے گئیں۔”چل تو آج ذرا گھر چل……آج تیری خیر نہیں ہے۔ ناک کٹوا دی تو نے اپنی ماں کی……ذلیل کر دیا کم بخت……اتنی پسند تھی تو مجھے بول دیتی،میں بازار سے دلا دیتی تجھے۔“
نجمہ خاتون پر غم و غصے اور درد کی کیفیت طاری تھی۔گڑیا کی حرکت پر انہیں بے تحاشاغصہ آ رہا تھا اور فیروزہ بیگم کے بدلے ہوئے نفرت انگیز رویے نے نہیں دلی صدمہ پہنچایا تھا۔وہ گڑیا کویونہی گھسیٹتی ہوئی گھر لے آئیں اور پھر چپ چاپ کمرے میں بیٹھ گئیں۔گڑیا اب تک رو رہی تھی،اس کی خوب صورت آنکھوں سے نکلنے والے آنسو لکیروں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔
جب بہت دیر تک گڑیا خاموش نہیں ہوئی تو آخر نجمہ خاتون کا دل خود ہی موم کی طرح پگھل گیا۔گڑیا کو اپنے پاس بٹھایا اور نرمی سے پوچھا۔
”اب بتا دے میری بچی……تو نے چوری کیوں کی تھی؟ دیکھا نہیں تو نے،کتنا بے عزت کیا تھا بہن جی نے ہمیں ……بتا دے شاباش؟“
گڑیا نرم و شفیق لہجہ پا کر خاموش ہو گئی اور بمشکل اس کے منہ سے نکلا۔”میں نے چوری نہیں کی تھی امی……میں چور نہیں ہوں۔“
”چوری نہیں کی تھی……مگر وہ……وہ جو گڑیا تیرے ہاتھ سے گری تھی وہ……؟“
”وہ کرن نے مجھے خود کھیلنے کے لیے دی تھی۔“ گڑیا نے آنسو پوچھتے ہوئے بتایا۔”اور میں نے اس سے کہا تھا کہ میں کل کھیل کر واپس کر دوں گی۔“
”کرن نے کیوں دی تھی……اورتو نے کیوں لی؟ اسے معلوم نہیں وہ کتنی مہنگی اور قیمتی گڑیا ہے۔“
”وہ مجھے اچھی لگتی تھی۔کرن نے مجھے خود ہی کپڑے میں چھپا کر دی تھی کہا تھا کہ اسے ممی سے چھپا کر لے جاؤں ……میں نے وعدہ کر لیا تھا کہ کل وہ گڑیا اسی طرح لا کر اسے واپس کردوں گی۔“گڑیا نے دھیرے دھیرے بتایا۔
نجمہ خاتون یہ سن کر چپ ہو گئیں۔پھر کچھ توقف کے بعد بولیں۔”تو پھر تو نے پہلے کیوں نہیں بتایا جب بہن جی پوچھ رہی تھیں ……بلا وجہ چوری کا الزام لگ گیا۔عزت الگ خراب ہوئی۔“
”وہ امی مجھے ان سے بہت ڈر لگ رہا تھا اور مجھے رونا آ گیا تھا۔امی……جب ہم کل وہاں جائیں گے تو وہ مجھے ماریں گی ناں ……ہیں ناں امی؟“
نجمہ خاتون نے گڑیا کو پیار کیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔”نہیں ……اب ہم وہاں نہیں جائیں گے۔ہم غریب ضرور ہیں پر ہماری بھی عزت ہے……جہاں عزت نہ ہو ……وہاں جانا بے کار ہے۔“
”مگر امی کرن……؟“
”اسے بھول جا ……چھوڑ دے اس کاخیال۔“
٭٭٭
”ممی آج گڑیا کیوں نہیں آئی……؟“کرن نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے فیروزہ بیگم سے پوچھا۔
”معلوم نہیں ……اور اچھا ہے،نہیں آئے …… وہ خراب لڑکی ہے……اس نے تمہاری گڑیا چوری کرنے کی کوشش کی تھی،جو ڈیڈی نے تمہیں لاکر دی تھی۔“
کرن لمحے بھر کے لیے ساکت رہ گئی۔پھر دھیمی آواز میں بولی۔”لیکن……لیکن ممی……وہ گڑیا نے چوری نہیں کی تھی۔“وہ تھوڑا ہچکچائی۔”وہ تو……میں نے خود اسے کھیلنے کے لیے ……گڑیا نے کہا تھا کہ ایک دن کھیل کر واپس کر دے گی۔“
فیروزہ بیگم نے حیران ہو کر کرن کی طرف دیکھا۔”کیا کہہ رہی ہوتم؟“
”ہاں ممی ……ٹھیک کہہ رہی ہوں میں۔“
”لیکن وہ اسے چھپا کرچوروں کی طرح کیوں لے جا رہی تھی……“ فیروزہ بیگم کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے انہوں نے گڑیا کی بے عزتی نہیں کی ہے، بلکہ خود وہ بے عزت ہو گئی ہیں۔
”ممی، وہ میں نے ہی کہا تھا کہ آپ سے چھپا کر لے جائے……آپ منع کر دیتیں ناں ممی۔“
”فیروزہ بیگم سوچ میں پڑ گئیں۔”اچھا اپنے کمرے میں جاؤ۔“
”ممی، گڑیا تو کل آ جائے گی ناں؟“کرن کے لہجے میں اشتیاق اور معصومیت تھی۔
”نہیں اب وہ نہیں آئے گی۔“انہوں نے سختی سے کہا۔
کرن چند لمحے انہیں دیکھتی رہی۔اس کا چہرہ اداسیوں سے بھر گیا تھا۔اسے گڑیا سے ایک پل جدا ہونا گوارانہیں تھااور فیروزہ بیگم بتا رہی تھیں کہ اب وہ نہیں آئے گی۔بھلا وہ ہمیشہ کی جدائی کیسے برداشت کر سکتی تھی۔اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭
ڈاکٹر نے کرن کو چیک کیا اور اسٹیتھ اسکوپ گردن میں ڈالتے ہوئے فیروزہ بیگم اور کرن کے ڈیڈی کی طرف مڑا۔
”بخار کافی تیز ہے، دوا لکھ دیتا ہوں اور یہ کچھ ٹیبلیٹس ہیں، لیکن کھانے کے بعد دیجئے گا۔ بخار اُتر جائے گا……ویسے اشرف صاحب، مجھے لگتا ہے، اسے کوئی ذہنی صدمہ پہنچا ہے،کیوں کہ بچی کی آنکھوں میں اب بھی آنسو ہیں ……شاید بہت روئی ہے …… کوشش کریں اسے زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون دیں۔“
”تھینک یو ڈاکٹر……“ کرن کے والد اشرف صاحب نے ڈاکٹر کا شکریہ اور بل ادا کیا۔ڈاکٹر رخصت ہو گیا۔
اشرف صاحب نے فیروزہ بیگم سے کرن کے متعلق پوچھا تو وہ ٹال گئیں۔
اگلے روز تک کرن کے بخار میں کمی نہیں آئی۔ فیروزہ بیگم جانتی تھیں کہ اسے گڑیا کا صدمہ ہوا ہے۔یہ سب خود ان کا کیا دھرا تھا۔فیروزہ بیگم کرن کے پاس بیٹھی تھیں اور ان کے دماغ میں سوچوں کی جنگ ہو رہی تھی،مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟خود انھیں شرمندگی ہوئی تھی،کیوں کہ یہ بات کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ گڑیا نے چوری نہیں کی تھی،بلکہ کرن نے ہی اسے گڑیا دی تھی اور تو اور انہوں نے جذبات میں آ کر نجمہ خاتون سے بھی درشت لہجے میں بات کی تھی۔نا جانے اُن کے دل پر کیا بیتی ہو گی۔مجھے کیا ہوا تھا……میں کیوں شیطان کے بہکاوے میں آگئی تھی۔ فیروزہ بیگم پچھتانے لگیں۔
اپنی کرن کی میں خود ذمہ دار ہوں،میں نے ہی دونوں بچیوں کو جداکیا تھا۔کرن کی بیماری کا سبب بھی میں ہی ہوں ……اور اس معصوم گڑیا کے دل پرکیا بیتی ہو گی……مجھے کیا ہو گیا تھا……کیوں میں گڑیا کو بے عزت کرنے پر تُل گئی تھی۔کہاں وہ ننھی سی بچی اور کہاں میں۔
انہیں ڈاکٹر کی بات یاد آئی۔ڈاکٹر نے کہا تھا کہ کرن کو ذہنی سکون پہنچانے کی کوشش کریں۔وہ جانتی تھیں کہ کرن کو ذہنی سکون پہنچانے کاایک ہی ذریعہ ہے وہ یہ کہ کس طرح گڑیا کو یہاں لایا جائے……مگر اسے کون لائے گا……کیا نجمہ خاتون اور گڑیا یہاں آنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔
اچانک کرن نے آنکھیں کھولیں اورڈبڈبائی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھا……ممی؟“اس کی آنکھوں میں ہزار ہا سوالات تھے۔
”کرن میری بچی……ہاں میں ……میں اِدھرہی ہوں ……تمہارے پاس۔“ انہوں نے کرن کی ہتھیلیاں تھام لیں۔
”ممی ……گڑیا نہیں آئی……وہ کتنے دنوں سے نہیں آئی……ممی اسے بلا دیں،لیکن آپ تو کہہ رہی تھیں، وہ اب نہیں آئے گی۔“
فیروزہ بیگم کرن کی کم زور آواز سن کر تڑپ گئیں۔”آئے گی بیٹا……وہ ضرور آئے گی“۔
فیروزہ بیگم سے کوئی واضح جواب نہیں بن پڑا۔
دفعتاً دروازے کی طرف سے آواز آئی۔ ”کرن……“
فیروزہ بیگم اور کرن نے دروازے کی طرف دیکھاتو انہیں اپنی آنکھوں پریقین نہیں آیا۔وہاں گڑیا اور نجمہ خاتون موجود تھیں۔نجمہ خاتون کے چہرے پر تردّد کے آثا رنمایاں تھے۔
فیروزہ بیگم بیڈ سے اُٹھ کر نجمہ خاتون کی طرف بڑھیں۔”نجمہ ……تم……؟“
وہ بے یقینی کے عالم میں نجمہ خاتون اور گڑیا کو دیکھ رہی تھیں۔
”ہاں بیگم صاحبہ……آپ نے منع کر دیا تھا، مگر میں پھر بھی آ گئی……فضلو بابا شام کو ملے تھے انہوں نے ہی کرن بی بی کی بیماری کا بتایاتھا……گڑیا بھی بہت ضدکر رہی تھی۔میں بھی پریشان ہو گئی تھی……بس ہم ابھی چلے جائیں گے تھوڑی دیر میں۔“نجمہ خاتون کا لہجہ سہما ہوا تھا۔
فیروزہ بیگم کا دل کٹ کر رہ گیا۔پھر اُنہوں نے کانپتے ہوئے نجمہ خاتون کے ہاتھ تھام لیے۔نجمہ خاتون نے حیران ہو کر سر اٹھایا تو فیروزہ بیگم کا بھیگا ہوا چہرہ دیکھ کر چونک گئیں۔
”نجمہ……مجھے بیگم صاحبہ نہیں، بہن جی کہو …… میں بہن کہلانے کے لائق بھی نہیں رہی ہوں …… ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا میری بہن……مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا۔مجھے کرن سے سب کچھ بتا دیا ہے۔ مجھ سے غلطی ہو ئی تھی۔“وہ رونے لگیں۔
نجمہ خاتون تڑپ اٹھیں۔”بس بہن جی……بس کرو خدا کے لیے…… خاموش ہو جاؤ……میرے دل پر کوئی میل نہیں آیا تھا……آپ سے غلطی ہوئی اور آپ کو خود ہی احساس ہو گیا ……بات ختم۔پھر اس میں معافی مانگنے کی کون سی بات ہے۔“
”تم بہت عظیم ہو نجمہ……“
”بس بہن جی ……میرا دل تو صاف ہے۔اب آپ بھی بھول جائیں اس قصے کو……“نجمہ خاتون نے کہاا ور پھر جلدی سے بولیں۔”ارے یہ دونوں لڑکیاں کہاں گئیں؟“
فیروزہ بیگم نے جلدی سے بیڈ کی طرف دیکھا تو کرن اور گڑیا غائب تھیں۔
وہ کرن اور گڑیا کو آواز دینے لگیں۔کئی کمروں میں دیکھا، مگر ان کاپتا نہ تھا۔وہ دونوں پریشان ہو گئیں۔ اتنے میں ملازمہ نے آ کر بتایا کہ وہ دونوں لان کی طرف گئی تھیں۔نجمہ خاتون اور فیروزہ بیگم لان میں پہنچیں تو دیکھا کہ کرن اور گڑیا لان کی گھاس پر بیٹھی تھیں اور دونوں اسی سنہرے بالوں والی گڑیا سے کھیل رہی تھیں۔دونوں ایک دوسرے کو پا کر بہت خوش تھیں۔کرن کا چہرہ بھی خوشی سے دمک رہا تھا۔وہ بھی بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی۔لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ابھی بیمار بھی تھی۔فیروزہ بیگم جا کر اُن دونوں کے پاس بیٹھ گئیں اور دونوں کو بہت پیار کیا۔ انہوں نے سنہرے بالوں والی گڑیا اُٹھائی اور گڑیا کو دیتے ہوئے کہا۔
”یہ تم کو اچھی لگتی ہے ناں ……یہ تم رکھ لینا۔“
گڑیا کی آنکھوں میں ہلکا سا خوف چھلکنے لگا۔ ”گھبراؤ نہیں ……میں خود تمہیں دے رہی ہوں کوئی کچھ نہیں کہے گا……آج سے یہ گڑیا تمہاری ہے اور تم میری گڑیا ہو۔“یہ کہہ کر انہوں نے گڑیا کو سینے سے لگالیا۔
٭٭٭

Leave a Comment