سوال: غالب کے موضوعاتِ شاعری میں حسن و عشق کو کیا اہمیت حاصل ہے؟

جواب: اُردو شاعری میں عشق کا تصور:


اُردو شاعری میں عشق کی دو قسمیں ہیں اور اس کی مناسبت سے حسن کی بھی دو قسمیں ملتی ہیں۔ عشق کی ایک قسم مجازی ہے اور دوسری حقیقی۔ عشق مجازی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان سے کیا جائے۔ مثلاً مرد اور عورت کے درمیان جو عشق ہوتا ہے اسے عشق مجازی کہتے ہیں۔ اُردو غزل میں عموماً عشق کا اظہار مرد کی طرف سے عورت کے لیے جاتا ہے۔ اُردو غزل میں عشق مجازی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ مرد کا عشق مرد سے اور عورت کا عشق عورت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ عشقِ حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان کو خدا کے ساتھ ہو۔ باالفاظ دیگر جس عشق میں عاشق انسان ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور محبوب خدا ہو۔

غالب کا تصورِ عشق:


یوں تو دیوانِ غالب میں ایسے بھی دو چار شعر ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالب کو حسین لڑکے بطور محبوب کے عزیز تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اُردو غزل کے تین قسم کے محبوبوں میں اُنھیں صرف عورت بطور محبوب قابلِ قبول رہی۔ ایک طرف تو وہ ایسے اللہ والے آدمی نہ تھے کہ خدا کو محبوب بناتے۔ دوسری طرف ان کے اندر کوئی ہم جنسی کا جذبہ بھی نہ تھا۔
غالب بعض اوقات کسی کا مرثیہ غزل ہی کی شکل میں لکھ ڈالتے تھے۔ چناں چہ دیوانِ غالب میں دو مرثیے ملتے ہیں۔ ایک زین العابدین خان عارف کا مرثیہ جو ان کے برادر نسبتی تھے اور انھیں بہت عزیز تھے۔ دوسرا مرثیہ اپنی کی محبوبہ کی وفات پر جس کی تفصیل اربابِ تحقیق کو معلوم نہ ہو سکی۔
درد سے میرے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے
شرم رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
گوش مہجور پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل جس پر یہ نا امیدواری ہائے ہائے

غالب کا وہ ایک شعر ملاحظہ ہو جس میں کسی نوخیز لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے:
آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید، خط رخسارِ دوست

کلامِ غالب میں حسن و عشق کی اہمیت:


یہ دونوں موضوع چوں کہ غالب کی شاعری میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے غالب کے نقادوں نے مرزا کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے ان پر بھی بڑی توجہ دی ہے۔ چناں چہ کئی غالب شناساؤں نے غالب کے تصورِ حسن و عشق کے بارے میں مقالات تحریر کیے ہیں۔

ذاتی تجربات و محسوسات:


غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔غالب عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں مثلاً:
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

شرمندگی:


غالب کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن عشق کی راہ میں حقیقی قربانی ایک بھی نہ دے سکے اور وہ غالباً اس لیے کہ ان کے پاس عشق کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ فرماتے ہیں:
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سےشرمندہ

سوائے حسرت تعمیرگھر میں خاک نہیں

زمینی اوصاف کا حامل عشق:


غالب عشق کے پرانے افلاطونی تصور کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کا عشق زمینی اوصاف کا حامل ہے۔
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

جارحانہ انداز:


غالب کے ہاں عشق کی روایتی عاجزی اور مسکینی کے برخلاف ایک جارحانہ انداز پایا جاتا ہے۔ ایک خاص مقام اور مخصوص شان ہے۔ وہ سوتے ہوئے محبوب کے پاؤں کا بوسہ محض اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بدگماں نہ ہو جائے۔ وہ ناراض محبوب کو مناتے بھی نہیں کہ یوں ان کی سبک سری کا پہلو نکل سکتا ہے۔ وہ بزم میں نہیں بلاتا تو یہ راہ میں نہیں ملتے اور جب وہ عجز و نیاز سے راہ پر نہیں آتے تو اس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی جرات رندانہ بھی کر لیتے ہیں۔
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا

غالب کا تصور حسن یا تصورِ محبوب:


حسن کے بارے میں غالب کے تصورات کا سراغ لگانے کے لیے اُن کے محبوب کی تصویر دیکھنا ہوگی اس لیے کہ ان کے محبوب کی ذات میں وہ تمام خصوصیات جمع ہوگئیں ہیں۔ ایک طرف تو غالب نے روایتی تصوارت سے استفادہ کیا ہے۔ اور دوسری جانب بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو قدیم تصورات سے مختلف ہیں۔ ان کے خیال میں حسن میں سادگی و پرکاری دونوں ہونے چاہئیں۔ غالب کو دراز قد، دراز زلف، شوخ و شنگ، سادہ و پرکار، شان محبوبی کا مالک، لمبی لمبی پلکوں والا۔ چاند چہرے کا مالک، ستارہ آنکھوں والا محبوب پسند ہے اور وہ اسی کے حسن کے قصیدے گاتے ہیں۔
سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کوتغافل میں جرا ت آزما پایا


اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے

چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جاکرے کوئی

وحدت الوجود:


غالب اپنے فکری سفر میں وحدت الوجود کے نظریہ کا قائل ہوجاتا ہے۔ بے اختیار خدا کی ازلی و ابدی وجودیت کی گواہی دینے لگتا ہے۔ معرفت الٰہی کی اس سے بہتر مثال ادبیات میں اور کوئی نہیں ہوسکتی:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

کھوج:


غالب کی متلاشی نگاہیں آفرینش میں چھپے گہرے بھید کو ٹٹولنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے اپنی ساری زندگی فلسفیانہ موشگافیوں میں صرف کردی۔ اس کی دھڑکنوں میں زلف رخسار کی چاہتیں بھی تھیں۔ غالب کو امام عشق و جنوں بھی کہا جاسکتا ہے۔ وہ محبتوں کے جذبہ سے سرشار رہا۔ اسے حسن جاناں نے تسخیر کرلیا تھا۔ اس کے شام و سحر میں معشوق کی حشر سامانیاں وجہ نشاط و انبساط تھیں۔ اس کے دل کی آواز اس بیت میں سنی جاسکتی ہے۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

محبت کی کسک:


غالب کے یہ تین شعر محبت کی کسک اور چبھن سے متصف ہیں۔ ایک نیا انداز اور ایک دلفریب رخ ہے۔ اشارے کنائے میں واردات قلب کی تصویرکشی اس سے خوب تر اور کیا ہوسکتی تھی:
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمد فصل لالہ کاری ہے
ہورہا ہے جہاں میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
دل ہوائے خرام ناز سے پھر
محشر ستان بے قراری ہے

تصورِ حسن و عشق کے پہلو:


صورت گری غالب کی شاعری کا موضوع ہی نہیں ہے۔ روایتی تشبیہ نے جا بجا کام ضرور لیا لیکن یہ تشبیہ فی نفسہ اس کے لیے باعث کشش نہیں ہے۔ بالعموم اس کا استعمال ضمنی ہے۔ اس کی ہلکی سی بنیاد پر وہ کسی لطیف نکتے کی تعمیر کرتا ہے۔ لیکن پیکر حسن کی مفصل عکاسی جو روایتی سراپا سے مخصوص ہے غالب میں کہیں نہیں ملتی۔

حسن کی تاثیر:


دراصل غالب کو حسن کی تصویر سے نہیں، حسن کی تاثیر سے سروکار ہے۔ جہاں کہیں اسے حسن کی مصوری مقصود ہے، وہاں اس نے صرف اشارات سے کام لیا ہے اور بہت کچھ پڑھنے والے کے تخیل پر چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح پڑھنے والے کا شعور تخلیق کے عمل میں شاعر کے ساتھ ساتھ شریک رہتا ہے۔
اُلجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

اب یہ ہمارے تصور کا کام ہے کہ آئینے میں دہکتے ہوئے اس شوخ و شنگ چہرے کے خدوخال کی نقش بندی کرے۔ شاعر نے دوسرے مصرعے میں ہماری رہنمائی کے لیے ایک ہلکا سا اشارہ اس کے متعلق کر دیا ہے کہ شہر بھر میں اس چہرے کی مثال نہیں۔ اسی قسم کے اور اشعار بھی ہیں:
کیا آئینے خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پر تو خورشید عالم شبنمستاں کا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا

لیکن یہ اشارات کسی پیکر حسن کے قریب پہنچ کر میسر آتے ہیں۔ بعض دفعہ اس پیکر کے صرف بیرونی حاشیے کی جھلک ہم کو دکھائی دیتی ہے۔ وہ پیکر کیسا ہے، جس کا یہ حاشیہ ہے۔ اس میں ہمارے تخیل کی رسائی کا امتحان ہو جاتا ہے۔
ترے جواہر طرفِ کلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفسِ عطر سائے گل

نسائیت کے حسن کا معیار:


حسن کے وہ پہلو جن کا خطاب روح کی بجائے حواس سے ہے ”نسخہ حمیدیہ“ میں رہ رہ کر سامنے آتے ہیں۔ بعد کے کلام میں رُو بہ رُو ملاقات کم میسر ہوتی ہے۔ اس کے بجائے شعر کے ذہن میں حسن کی پیدا کی ہوئی کیفیتیں زیادہ ملتی ہیں۔ ان ابتدائی اشعار کا تعلق غالب کی نوجوانی سے بلکہ با رہا اس دورِ بلوغ سے ہے جو تمہیدِ شباب ہوتا ہے۔ اُس پرجوش زمانے میں حسن ظاہری کی کشش عروج پر تھی اور اُردو غزل کی مقبول عام روش سے نو عمر شاعر کی بغاوت نے اظہار و بیان کے معاملے میں اُسے بہت ڈھیل دے رکھی تھی۔ اس زمانے میں ہاتھ پاؤں کی مہندی اور ہونٹوں کی مسی کا کثرت سے ذکر ہے مگر یہ آنی جانی دل چسپیاں معلوم ہوتی ہیں۔ برعکس اس کے نسوانی حسن کے تین عنصر ایسے ہیں جنھیں غالب کے تخیل میں نمایاں اور مستقل جگہ ملی ہے۔

قامتِ یار:


ایک خاص کیفیت جو اس زمانے میں اور اس کے بعد بھی توجہ کو بدستور دعوتِ نظر دیتی رہی قامتِ یار کی رعنائی ہے۔دوسرے اجزائے حسن مثلاً چہرے کی خوبی کا ذکر بھی ضرور ہے لیکن با رہا اس ذکر کے ساتھ خوبی قامت سے شاعر کی دلی وابستگی کا اظہار شامل ہوتا ہے۔
اگر وہ سرو قد گرمِ خرام ناز آ جاوے
کفِ ہر خاکِ گلشن شکلِ قمری نالہِ فرسا ہو
اسد بہار تماشائے گلستانِ حیات
وصالِ لالہ عذارانِ سرو قامت ہے

زلفِ سیاہ:


سیاہ، لمبے بالوں کی چمک غالب کی شاعری کے ہر دور کو اس طرح منور کرتی ہے کہ سرسری مطالعہ کرتے ہوئے بھی اس کی جھلکیاں بار بار سامنے آتی ہیں۔ ”زلفِ سیاہ“ یوں بھی اُردو اور فارسی شاعری کا خاص الخاص سرمایہ ہے۔ لیکن غالب نے حسبِ معمول اس پر بہت سے ذاتی اضافے کیے ہیں اور اپنی شخصیت کے پیچ و تاب کو اس خلوص و جوش سے شاملِ حال کیا ہے کہ اس پامال مضمون میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

چشم نگاہ:


غالب کے لیے جو تین عناصرِ حسن بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں سے تیسرے اور سب سے بڑے جزو کا ذکر اس نے اسی کے مقابل کے مصرع میں کر دیا ہے:
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے

اس شعر میں زلف زلف و نگاہ کا یہ ربط اتفاقی نہیں بلکہ غالب کے تصور حسن کی گہری خصوصیت پر مبنی ہے۔ قد و گیسو کے باہمی تاثر کی طرح اس کے تخیل میں زلف بھی نگاہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لطافتِ اعضا میں صفائے زلف کا عکس ہے، حلقہ زلف میں شوخی نگاہ کی جھلک ہے اور پھر اس سے آگے نگاہ کی تیزی میں شعلہ آواز ہے۔ چناں چہ دورِ اوّل کے ایک پر لطف شعر میں زلف و نگاہ کا باہمی رشتہ اس طرح قائم ہے:
حلقے ہیں چشم ہائے کشودہ بسوئے دل
ہر تار زلف کو نگہِ سرماسا کہوں

حقیقت یہ ہے کہ غالب کے نزدیک محبوب کی چشم و نگاہ کی لذتیں حسن کے سب سے بڑے انعامات میں داخل ہیں۔ زلفِ سیاہ کی طرح بھی چشمِ سیاہ شاعر کے لیے سرمایہ نشاط ہے۔ سرمگین نگاہیں اسے پسند ہیں۔ یہ بات اس لیے دل چسپ ہے کہ شاعر کو رُخسار کے غازے اور ہاتھ کی مہندی پر تو پھبتی سوجھتی ہے:
پوچھ مت رسوائی اندازِ استغنائے حسن
دست مرہون حنا، رہنِ غازہ تھا

لیکن آنکھ کا سرمہ ہمیشہ اعتراض سے بالا ہے بلکہ سرمے کا احسان آنکھ پر مسلم ہے:
سرمہ ء مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

رنگ برنگ مضمون:


غالب نے چشم و نظر کے موضوع پر وہ رنگ برنگ مضمون پیدا کیے ہیں کہ سرسری طور پر دیکھنے پر شبہ ہونے لگتا ہے کہ اس کے سوا حسن کے سراپا میں اسے اور کوئی چیز بھائی ہی نہیں۔
کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغ نگہہ کو آب تو دے

فلسفیانہ شدت:


غالب کے ذوقِ نظر کی کیفیت صرف یہی نہیں کہ وہ نمایاں طور پر ”جمالیت“ کے قریب اور جنسیت سے دور ہے۔ اس کا ایک اور امتیاز اس کی فلسفیانہ شدت ہے۔ شاعر کو محض ایک تماشائی کا اندازِ نگاہ پسند نہیں۔ وہ یوں سراپا نظارہ بن جاتا ہے کہ اس کے روح اور جسم کی تمام قوتیں اس کی آنکھوں میں سمٹ آتی ہیں۔ وہ حسن کو صرف دیکھتا ہی نہیں، اس کے نظارے میں کھو جانا چاہتا ہے:
ہنوز محرمیِ حُسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُن مُو کام چشمِ بینا کا
کیوں جل گیا نہ تابِ رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
……٭……٭……

Leave a Comment