جواب:کلام غالب اور فلسفہ وحدۃ الوجود:
وحدت الوجود کے معنی یہ بتائے گئے ہیں کہ کائنات میں خدا کے سوا کسی اور چیز کا وجود نہیں ہے۔ یہ نظریہ انسانی عقل و فہم کو سخت الجھن میں ڈال دینے والا نظریہ ہے۔ معمولی سے معمولی آدمی اپنی جسمانی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ یہ کائنات بے شمار چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر وہ نہیں دیکھتا تو صرف خدا کو نہیں دیکھتا جس کے بارے میں وحدت الوجود کا نظریہ بتلاتا ہے کہ خدا کے سوا اس کائنات میں کسی اور چیز کا وجود نہیں ہے۔
وحدت الوجود:
وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علما اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔
مولانا عبدالرحمٰن کیلانی:
مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں:
”انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتا ہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔“
غالب اور تصوف:
شاعری میں تصوف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ صوفیا کبھی بھی اپنا علم بلا واسطہ ظاہر نہیں کرتے لیکن بہت سے صوفیا نے شاعری کے ذریعے اللہ کی ذات، قرآن کے معنی اور اللہ سے اپنے عشق کو بیان کیا ہے۔ صوفیا نے اپنی بات کو شاعری کی شکل میں اس لیے بھی بیان کیا کہ اس طرح بات بدلتی نہیں ہے کیونکہ شعر کو ہمیشہ لفظ بہ لفظ نقل کیا جاتا ہے۔ ادب جتنا اپنے نفس کو صورت پزیر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اتنا ہی اعلیٰ متصور ہوتا ہے۔ صوفی جب اپنے نفس میں جھانک کر آگہی کو اشعار کا روپ دیتا ہے تو تخلیق کے عمل سے گزر کر ایسا کر پاتا ہے۔ صوفی کا اپنی زندگی کے ساتھ ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی گہماگہمی شامل بھی ہوتا ہے اور خارج بھی، یہی حال شاعر کا ہوتا ہے اس لیے صوفی کے لیے یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو شعر کی شکل دے کر اپنا مدعا بیان کرے۔
شاعری اور تصوف:
شاعری پر بھی تصوف کا بہت گہرا اثر پڑا۔ شاعری نے تصوف کی تعلیمات میں رازداری کی لہر سے ہی ”اخفائے راز“ کا گُر اور رمزیت سیکھی۔ بہت سے شعراء ایسے گزرے ہیں جنہیں عموماََصوفی نہیں سمجھا جاتا تھالیکن انہوں نے صوفیانہ شاعری کی، دراصل وہ خدا کی ذات سے معرفت حاصل کر چکے تھا لیکن جیسا کہ صوفی کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ اُسے عام آنکھ نہیں پہچان سکتی۔
خواجہ میر درد جنہیں تصوف کا سب سے بڑا اردو شاعر گردانا جاتا ہے دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں:
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
بہت سے صوفی شعراء دونوں نظریات کو صحیح مانتے ہیں جیسا کہ سید جلال الدین توفیق لکھتے ہیں:
جدھر دیکھو انہی کا ظاہر و باطن میں ہے جلوہ
کبھی وہ دل میں رہتے ہیں کبھی چشمِ تماشا میں
غالب کی انفرادیت:
ان تمام شعراء میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ حالی ؔکہتے ہیں: ”لٹریری قابلیت کے لحاظ سے مرزا(غالب) جیسا جامع حثیت آدمی فیضی ؔاور خسروؔ کے بعد آج تک نہیں آیا۔“ غالب کے کلام میں فلسفہ، حکمت، تصوف اورفکر سب کچھ ملتا ہے۔ غالب کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ شاعروں کی محفل میں سندِصدارت پر نظر آتے، صوفیوں کی صحبت میں شاہدو مشہود کے راز بیان کرتے، مذہب کے حقائق کو اشعار میں بیان کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ اور انہیں اس بات کا دراک بھی تھا آپ فرماتے ہیں:
بر آورید گر ایں جابو سخند انے
غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد
یعنی اگر شہر میں کوئی سخن ور ہے تو اسے میرے سامنے لاؤ کیونکہ مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
”میں شاعر بننے پر آمادہ نہ تھا لیکن فنِ شاعری نے مجھ سے خود استدعا کی کہ مجھے اپنا لیجیے۔“
غالب کے خیال:
کسی قدیم شاعر کی زمیں یا خیال پر شعر لکھا جاتا تو فرماتے کہ میں نے توارد نہیں کی بلکہ اس شاعر نے ازل میں ہی میری متاع چرا لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ غالب زمانے کی نہ قدری سے تنگ آ کر قنوتیت پسند بن گئے تھے، آخر ایک وقت ایسا آ گیا کہ آپ کو زمیں و آسمان بھی جام و اژگوں نظر آتے تھے پھر بات یہاں تک پہنچی کی خدا اور عشق کی بات کرتے ہوے بھی بادہ و ساغر کہے بغیر نہ رہے۔
غالب کی نسبت:
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ عمر خیامؔ، حافظؔ اور غالبؔ مئے معرفت سے سرشار ہیں لیکن تینوں شراب نوشی میں اتنے مشہور ہوئے کہ عام لوگ انہیں صوفی نہیں بلکہ مئے خوار ہی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کے بہت سے اشعار جن میں تصوف کو گوندھا گیا ہے لوگوں نے محمل قرار دیا۔ جبکہ غالب حضرت کالے صاحبؒ جیسے بڑے بزرگ کے مکان میں رہتے رہے اور ان سے سیکھتے رہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں کہ ”علمِ تصوف میں جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ ’برائے شرگفتن خوب است‘ اس سے مرزا غالب کو خاص نسبت تھی۔“آزادؔلکھتے ہیں ”غالب مولانا فخرالدین دہلوی کے خاندان کے بیعت تھے“۔ لیکن اس سب کے باوجود غالب کو خالص صوفی شاعر نہیں کہا جا سکتا، وہ معرفت رکھتے تھے لیکن شاعری میں تصوف کم جگہ پر دیکھنے کو ملتا ہے، اسکی دو وجوہات تھیں ایک تو فارسی شاعری میں تصوف کواہمیت حاصل تھی اس لیے غالب تصوف کی طرف ٖ مائل ہوئے دوسرا طبیعت بھی غم و الم اور بغاوت کی طرف مائل تھی۔ لیکن جب جب آپ نے شاعری میں صوفیانہ انداز اختیار کیا آپ نے کمال درجے تک عشق اور خدا کی ذات کو بیان کیا۔ غالب نے اس شعر میں خدا کی خدائی کی حقیقت کو چند لفظوں میں بیان کرنے کی سعی کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب اور وحدت الوجود:
غالب بھی وحدت الوجود کے ماننے والے تھے، انکا کہنا تھا سب کچھ خدا کی ذات کا حصہ ہے انسان، جن، کائنات، مۂ، پتھر سب خدا کی ذات کا حصہ ہیں، اور وہ اسی بات پر ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا! کیا ہے؟
صوفیانہ انداز:
غالب خدا کے ایک ہونے پر اپنے یقین کو بھی صوفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں، اور ایسے خوب بیان کرتے ہیں کہ کوئی کافر بھی سنے تو پکار اٹھے کہ ہاں خدا ایک ہے۔ غالب کہتے ہیں:
اُسے کون دیکھ سکتا ہے یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی، توکہیں دوچار ہوتا
غالب کے دیوان کا آغازاس شعر سے ہوتا ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِتصویر کا
کاغذی پیراہن:
بعض ناقدروں نے اس شعر کو کیفِ شراب کا ماحاصل سمجھ کر بے معنی قرار دیا جب کہ اگر صرف استعارہ’کاغذی پیرہن‘ کو سمجھ لیا جائے تو شعر سمجھ آ سکتا ہے۔ ایران میں دادخواہ کاغذی پیرہن پہن کر بادشاہ کے سامنے فریاد پیش کرتے تھے، غالب کہہ رہے ہیں کہ ہر پیرہن کاغذی دکھائی دیتا ہے تو بادشاہ کون ہے؟ در اصل اس شعر میں بھی غالب وحدت الوجود کا ذکر کر رہے ہیں۔
غالب کی بے خودی اور مے خوری:
صوفی کی یک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بے خود ہوتا ہے، بے نیاز ہوتا ہے، غالب چونکہ باقائدہ یا خالص صوفی نہ تھا اس لئے وہ بے خودی کی کیفیت محسوس کرنے کے لیے مۂ نوشی کرتے، ان کے لیے یہ خدا کی ذات سے رابطے کا ذریعہ تھا۔ غالب ہر وقت اس کیفیت میں رہنا چاہتے تھے اور اپنے ایک شعر میں اس بات کا ذکر یوں کرتے ہیں:
مئے سے غرض نشاط ہے، کس رو سیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
عرفان:
غالب خود اعتراف کر تے ہیں کہ وہ عرفان رکھتے ہیں، وہ اپنی شاعری میں کئی بار اس بات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہ علم اور فقر کے حامل ہیں۔ جیسا کہ اس شعر میں غالب اسی بات کو بیان کر رہے ہیں:
غالبؔ! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں بندگئی بوترابؑ میں
خدا پرستی:
غالب بہت بڑے خدا پرست اور حق شناس تھے، انہوں نے خدا کو دیکھا، جانا، اپنی فکر کے مطابق سمجھا اور پھر اپنے اشعار میں اپنے سننے، پڑھنے والوں کو بھی ان حقیقتوں سے روشناس کروایا۔ غالب خدا کو اپنے اردگرد پاتے ہیں وہ کہتے ہیں:
ذرے ذرے میں ہے خدائی دیکھو
ہر بت میں شانِ کبریائی دیکھو
اعدا د تمام مختلف ہیں باہم
ہر ایک میں ہے مگر اکائی دیکھو
ہر جانب خدا کی ذات:
غالب خدا کی ذات کو ہر شے پہ حاوی پاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر شے کو ہر ہر پہلو سے دیکھا، پرکھا اور سوچا لیکن آخر میں نتیجہ ایک ہی نکلا وہ سب خدا کی ذات تھی ہر جانب اللہ، اللہ اور بس اللہ کا نور ہے۔
عام آدمی کے نقطہ نگاہ پر اعتراض:
اگرچہ حالی نے غالب کو وحدت الوجودی قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے عام آدمی کے نقطہ نظر سے وحدت الوجودیت پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے ایک مشہور قطعہ بند میں سوالات اُٹھائے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکنِ زلف عنبریں کیوں ہے نگہہ چشم سرمہ سا کیا ہے
لالہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
انسانی عظمت کا تصور غالب کی شاعری میں اگر انسانی عظمت کا کوئی تصور ہے تو وہی آدم اور فرشتوں کے قصے کے حوالے سے ہے ورنہ انسان یا تو مجبور محض ہے:
رو میں ہے رخش عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب پر
آدمی اور انسان میں فرق:
غالب نے آدمی اور انسان میں بڑے فرق کی نشان دہی کی ہے۔ ان کے نزیک آدمی وہ ہے جسے انسان بننا میسر نہیں آتا۔ یہ اور بات ہے کہ عام زبان میں آدمی اور انسان میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ غالب نے اپنے ایک شعر میں انسانی صورت حال کو اُسلوب میں بیان کیا ہے:
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا نے
غالب کا اندازِ فکر:
نمود عالمِ اسباب کیا ہے؟ لفظِ بے معنی
کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامل ہے
اپنے اس انداز فکر کی بنا پر غالب نے خود کو اے نہیں ہے کہہ کر مخاطب کیا ہے:
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالب
آخر تو کیا ہے، اے نہیں ہے
یعنی غالب نہ ہستی کے قائل تھے نہ عدم کے، نہ اس دنیا کے ہونے کے قائل۔ اس لحاظ سے انھوں نے اپنا نام اے نہیں ہے رکھا اور اپنے آپ کو اس نام سے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر آپ ہیں کیا یا آخر یہ دنیا ہے کیا! یا تو یہ دنیا ہے یا نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان تو کوئی چیز ہو نہیں سکتی۔
……٭……٭……