جواب: غالب کی مشکل پسندی کی صورتیں:
مرزا کو اپنی فارسی پر بہت ناز تھا۔ اس فارسی دانی کے اثرات ان کے کلام میں بھی غالب نظر آتے ہیں۔ بہت سے اشعار میں صرف ایک آدھ لفظ ہی اُردو کا ہے بلکہ وہ فارسی کے حروف جار (تا، از) بلکہ کہیں کہیں تو فارسی کے مصدر میں بھی اُردو میں بے تکلف استعمال کر جاتے، مثلاً:
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
تو اور ایک وہ شنیدن کہ کیا کہوں
تا کجا اے آگہی رنگ تماشا یاختن
تلمیحات:
مرزا کے کلام میں ایسی فارسی تلمیحات کا استعمال ہوا ہے جن کی اُردو کے کسی اور شاعر کے ہاں مثال نہیں ملتی مثلاً ان کے اُردو دیوان کے پہلے شعر میں کاغذی پیرہن کی تلمیح خالصتاً ایرانی پس منظر رکھتی ہے۔ ایک اور شعر:
سبزہ ء خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دیا
یہ زمرد بھی حریفِ دم اُفعی نہ ہوا
اگر تلمیح صاف ہوجائے تو ظاہری معنی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اشعار کا مشکل ٹھہرنا خود ان اشعار پر نہیں بلکہ پڑھنے والے کی ذہنی اور علمی استعداد پر منحصر ہے یا پھر اس کے ذہن کی ساخت پر۔ بعض لوگ معمے جلد حل کرلیتے ہیں لیکن دوسرے معاملات میں معمولی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض لوگ معمے حل کرنے میں احمق ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی ذہانت مسلم ہوتی ہے۔
نہ بٹھا حلقہ ماتم میں گرفتاروں کو
نیل گوں خط توبہ گرد خط رخسار نہ کھینچ
ابہام:
غالب ابہام اور اشکال کے اس لطیف فرق سے ناواقف تھے، اس لیے انھوں نے اپنے ابہام کو بھی اشکال ہی سے تعبیر کیا ہے، لیکن وہ ابہام کی حقیقت سے فی نفسہ واقف تھے کیوں کہ انھوں نے اشکال کی جو تعریف کی ہے وہ دراصل ابہام ہی پر پوری اترتی ہے۔ ابہام کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ شعر ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ معنی رکھتا ہو۔ اشکال کا تقاضا ہے کہ شعر کے معنی اس کو معلوم ہوں جو اس کے معمے کو حل کرسکے اور جب وہ معنی کھل جائیں تو وہ قطعی اور آخری ٹھہریں۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
پھر مجھے دیدہ ء تر یاد آیا
دل جگر تشنہ ء فریاد آیا
ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
محاورے اور اصطلاحات:
اس قسم کے اشکال کی مثالیں قصیدے اور مرثیے میں قدم قدم پر ملتی ہیں۔ خود غالب کے قصیدے ایسے شعروں سے بھرے پڑے ہیں جن کا مفہوم سمجھنے کے لیے محاورے اور اصطلاح کا علم ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ سطحی اور خارجی اشکال محض غالب کا طرہ ء امتیاز نہیں، ناسخ اور مومن کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں یہی کیفیت ملتی ہے۔ غالب کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنی مشکل گوئی ترک کردی، گویا یہ کہنا کہ انھوں نے فطرت بدل دی۔
تجربہ اور عقلیت:
غالب کے کلام کی اساس جذبے سے زیادہ تجربے اور جذباتیت سے زیادہ عقلیت پر ہے، اس لیے انھیں وہ پیچیدگیاں بھی عزیز تھیں جو شعر میں ظاہر کیے ہوئے تجربے کو لفظی صنعتوں کے ذریعے ایک ایسی کیفیت بخش دیتی ہیں جو پڑھنے والے کے رد عمل کو مختلف راہیں تلاش کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ قاری سمجھتا ہے کہ شعر کا متقضا وہ نہیں ہے جس کی طرف اس کا ذہن منتقل ہورہا ہے، لیکن مفہوم کے واضح ہوتے ہوئے بھی وہ نسبتاً غیرمتعلق رد عمل جو ذہن میں پیدا ہورہے ہیں، شعر کے لطف کو دوبالا کررہے ہیں، اس لیے وہ ان غیرمتعلق رد عمل کو بھی اپنے محسوسات میں در آنے دیتا ہے۔
فطرت کی مجبوری:
غالب اس لیے مشکل گو تھے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ ان کی فطرت میں منفرد ہونے کا تقاضا شدت سے ودیعت ہوا تھا، اس لیے انھوں نے خود کو دوسروں سے مختلف وممتازکرنے کے لیے ایسی راہ جان بوجھ کر اختیار کی جو مذاق عام کے منافی تھی۔ گویا انھوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ مجھے دوسروں کے مقابلے میں مختلف شعر کہناہیں اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے مروجہ اسلوب کے برخلاف ایک پیچیدہ اسلوب اختیار کیا۔ محمد حسین آزاد کی تشخیص یہی ہے اور بہت صحیح ہے لیکن یہ تشخیص اپنی منطقی انتہا تک نہیں لے جائی گئی ہے، کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ غالب نے مختلف ہونے کے لیے پیچیدہ اسلوب ہی کیوں اختیار کیا؟
نفسیاتی معاملات:
غالب کی مشکل پسندی نفسیات کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو انسانی ذہن بہت سے پیچیدہ مسائل کی آماجگاہ نظر آتا ہے۔ ان کا تجزیہ کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عام آدمی کے تجزؤں کو اہمیت نہیں دی جاتی لیکن جب یہی بات ہمیں کسی شاعر کی شاعری‘ مصور کے فن پارے‘یا کسی ادیب کی تحریر میں نظر اتی ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ اس نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہانسانی ذہن تک رسائی بہت مشکل ہے۔ مگر نفسیات کو سمجھنا اور اس سے فن پارہ تشکیل دے دیناخالصتاً فن کی معراج ہے۔ اردو دان طبقہ بجا طور پر“ غالب“ کو اردو غزل کا سب سے بڑا شاعرتسلیم کرتے ہیں۔ غالب نفسیاتی لحاظ سے مشکل پسند شاعر تھے۔ ان کی غزلیں ان کی اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی نے ان میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ شعر کا مضمون ہو یا الفاظ کی تراکیب‘ اسلوب بیان ہو یا بحروں کا چناؤ غالب نے نہایت آسانی سے مشکل پسندی کو برتا۔ غالب کے کلام کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ الفت ذات اور محبوب کی چاہ نے ان کے شعروں میں مشکل پسندی کے خد و خال ابھارے۔ اور وہ اپنی علمیت کا احساس دلاتے چلے گئے۔ ابتدائے شاعری ہی میں شعور اور لا شعور میں پیدہ ہونے والے سوالات سے شعر کی تخلیق، فارسی تراکیب کا استعمال غالب اپنی علمیت کا سکہ جماتے نظر آتے ہیں۔
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
بیدل کا رنگ:
ان کی ابتدا شاعری میں بیدل کا رنگ نظر آتا ہے۔ مگر جب وہ عرفی اور نظیری سے ہوتے ہوئے میر کی شاعری سے متاثر ہوئے تو سادگی اور سہل پسندی کی انتہا پر پہنچ گئے۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ ان کا اصل کلام فارسی کلام ہے مگر جب اردو کلام میں ان کا نام ہر جگہ گونجنے لگا تو غالب کو فارسی کی مشکل پسندی سے میر کی سہل نگاری کی طرف سفر کرنا پڑا مگر رمز کا مارا دل مشکل پسندی کو ترک کر نہ سکا۔ ایک تنقید نگار کا کہنا ہے کہ غالب کی شاعری کا ارتقا بہت تیزی سے ہوا۔ وہ بہت سے شاعروں سے متاثر ہوئے مگر میر کی طرف سب سے آخر میں آئے۔ غالب کی شاعری کی نمایاں خصوسیات میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کو جس دور میں بھی تنقید کی نظر سے دیکھا گیا وہ ہر معیار پر پورا اترا۔ ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیوں پر پرکھا جدید تخلیقی تصورات بھی بہت نمایاں رہے مگر کوئے ان کی شہرت کو داغ نہ لگا سکا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کاہمیت مسلم ہے۔ غالب کے ادبی دشمن بھی ان کی عظمت اور علمیت کے معترف رہے اپنے عصر سے دور حاضر تک ان کی شہرت بڑھتی رہی کبھی کم نہ ہوئی۔ آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء میں اسد اللہ پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں شادی ہوئی خاندانی عظمت اور نسلی برتری کا احساس غالب رہا۔ آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا پھر بھی آن بان سے رہے۔ مے نوشی اور جوئے کے شوقین تھے گرفتار بھی ہوئے مغل دربار سے بھی وابستہ رہے۔گھریلو زندگی ہمیشہ کبھی نہ سلجھنے اور نہ سلجھانے کا معما بنی رہی۔ جس کا اظہار ان کے لطائف اور شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ مفلوک الحال‘مقروض‘ خود پسند‘ حسن پرست‘ نفسیاتی مسائل کو موضوع سخن بنانا‘ محرومیوں کے ساتھ ساتھ زندہ دلی کی تصویر پیش کرنا اس عظیم شاعر کے مقام کو متعین کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں ہر شاعر پہنچنے کا آرزومند ہے مگر یہ مقام غالب کے علاوہ کسی کو نہ مل سکا۔ ان کی شاعری میں جہاں سدگی اور موضوعات کا تنوع نظر اتا ہے وہیں خیال کی بلندی اور تراکیب کا اچھوتا پن بھی نمایاں ہے۔ ان کی مشکل پسندی میں بھی ایک سہل پرستی ہے جو ہر دور کے انسان کی زندگی کے تصورات کو منعکس کرتی ہے تبھی ہر دور کا قاری ان کا گرویدہ ہے۔
خیال آفرینی:
غالب کے ہاں خیال آفرینی زوروں پر ہے۔ اس میں فارسی شاعری کا اُسلوب شامل ہے جسے سبک ہندی کہا جاتا ہے۔ کاغذی پیرہن، فریاد اور ناپائیدار دونوں کی طرف اشارہ ہے اور شوخی تحریر نقش گر یعنی خالق کائنات کی قدرت ہے کہ اس نے انسان کو اتنا ناپائیدار بنایا اور انسان کے لیے شکوہ سنج ہے۔
ہوائے سیر گل، آئینہ بے مہری قاتل
کہ اندازِ بہ خوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا
اس شعر پر بھی فارسی اُسلوب غالب ہے۔ اسی بات کو غالب نے مندرجہ ذیل شعر میں قدرے آسان میں بیان کیا ہے:
انھیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا ہے
اُٹھے تھے سیر گل کو دیکھنا شوخی بہانے سے
اس قسم کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدہ ء یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
ابتدائی دور کی مشکل پسندی:
غالب کا ابتدائی اُردو کلام بہت مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں وہ فارسی کے عظیم شاعر بیدل کی پیروی کر رہے تھے۔ بیدل کی پیروی تو فارسی میں مشکل ہے طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا ویسے ہی مشکل ہے۔ اس لیے ابتدائی کلام کی مشکل پسندی بعد کے کلام کی مشکل پسندی سے نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ابتدائی دور کے بعد غالب نے اپنے تجربات و مشاہدات کو اشعار کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہاں بھی کہیں کہیں مشکل کا اظہار ضرور ہوتا ہے لیکن بے معنویت کا نہیں۔ غالب کی مشکل پسندی اپنی جگہ لیکن انھوں نے آخری عمر میں آسان شعر بھی کہے ہیں، ان کی اُردو شاعری کی مقبولیت انھی اشعار پر مبنی ہے، چند مثالیں:
لاگ ہو تو اس کو سمجھیں ہم لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
……٭……٭……