جواب:کلام غالب میں روایت کی پاس داری اور اجتہادی رویہ:
غالب کے ہاں اجتہاد کے پہلو بہ پہلو روایت کی پاس داری سے جو شغف ہے وہ عشقیہ شاعری میں بھی قائم نظر آتا ہے۔ غزل کے روایتی عاشق، مجنوں سے لے کر پروانے تک اور روایتی معشوق لیلیٰ سے لے کر شمع محفل تک سبھی یہاں موجود ہیں۔ ان اشعار کا پس منظر مغلیہ دور کی وہی معاشرت ہے جو غالب کے معاصرین کے کلام میں بھی جھلکتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ غالب کے بیان میں اسے زیادہ وسعت، شدت اور وضاحت میسر ہوئی ہے۔ لیکن یہ درجے کا فرق ہے، کیفیت کا نہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ معاشرتی پس منظر کے لحاظ سے غالب اور اس کے ہم عصر شعرا میں ایک بنیادی اشتراک ہے۔ اس مشترک کیفیت کے ہوتے ہوئے بھی غالب کی شاعری میں حسن و عشق کا ایک الگ مقام ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ شاعر کی اپنی شخصیت اور شخصیت کی یکتائی نے اس حصہ کلام کو بھی ایک بالکل دوسری سطح پر پہنچا دیا ہے۔
حسن و عشق کو ہم یہاں بہ طور ایک ملی جلی حقیقت کے دیکھ رہے ہیں کیوں کہ دونوں ایک ہی ذہنی کیفیت کے دو بظاہر مختلف ظہور ہیں۔ عشق وہیں ہوتا ہے جہاں حسن نظر آئے اور جہاں عشق ہو وہاں حسن ضرور نظر آتا ہے:
شوخی حسن و عشق ہے آئینہ دار ہم دگر
خار کو بے نیام جان، ہم کو برہنہ پا سمجھ
عامیانہ انداز:
اس یگانگت کے باوجود ہم حسن و عشق کے درمیان عام گفتگو میں فرق کرتے ہیں۔ حسن کو ایک بیرونی حقیقت قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی چیز جو ہمارے ذہن سے علیحدہ ایک مستقل وجود رکھتی ہے اور عشق اسی بیرونی حقیقت سے ہمارا وہ ذہنی تعلق ہے جو بالعموم خواہش کے رنگ میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر حسن میں نہیں تو عشق میں یقینا ہماری اپنی شخصیت منعکس ہوتی ہے۔
غالب کے ہاں تصور حسن و عشق:
غالب کا تصور حسن و عشق کیا تھا، یہ دراصل غالب کی شخصیت کا مسئلہ تھا۔ شدید عمیق احساس کی حالت میں انسانی فطرت اپنے چہرے سے ہر نقاب اُلٹ دیتی ہے اور عشق تو زندگی کے سب سے گہرے اور سب سے تیز جذبات میں سے ہے۔ اسی لیے یہ سوال کہ غالب کس حسن سے کس قسم کا عشق کرتا تھا، اگرچہ بجائے خود بھی دل چسپ ہے لیکن نقاد کے لیے اس میں ایک خاص کشش یہ ہے کہ اس کی بنا پر غالب کی ذہنی حدود متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
تصویر کشی:
غالب نے حسن کی تفصیلی تصویر کشی کہیں نہیں کی، نہ کہیں اس قسم کا سرا باندھا ہے جو مثلاً میر حسن، یا جرات یا ذوق یا بعض انگریزی شاعروں کے کلام میں مل سکتا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہی کم ہے جن میں شاعر نے:
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کیے ہوئے
کی حد تک صراحت سے کام لیا ہے اور یوں بھی بیشتر اشعار حسن کے بجائے عشق کے موضوع پر ہیں۔ بحیثیت مجموعی دیوان میں حسن کی مصوری رسمی تشبیہ کی حد سے آگے نہیں بڑھی۔ حسن کا جلوہ ”صورت مہر نیم روز“ ہے اور ”حسن مہ بہ ہنگامِ کمال“ سے بڑھ کر ہے ”حورانِ خلد“ میں بھی وہ صورت نہیں ملتی۔ اس کی جھلک یوں ہے کہ جیسے آنکھوں کے آگے ایک ”بجلی کوند گئی“، ”قد یار کا عالم“ فتنہ محشر کی یاد دلاتا ہے۔ اس کی کمر موہوم ہے اور دہن نامعلوم۔
کلام غالب میں روایتی موضوعات:
معمولی شعر:
غالب رکیک، متبذل اور معمولی شعر کہنے کی صلاحیت سے محروم نہیں تھے۔ انھوں نے ایسے اشعار کہے بھی ہیں لیکن ہم ان کے ایسے اشعار کو مزاح یا ظرافت کا نام ہرگز نہ دیں گے۔ مثلاً ان کے کچھ اشعار دیکھیے:
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے لکیریں
ہاں منہ سے مگر بادہ دوشینہ کی بو آئے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
غزل کی تکمیل:
غزل مکمل کرنے کے لیے معمولی اور کمزور شعر بھی گوارا کر لیے جاتے ہیں۔ غالب بھی اس کمزوری سے مستثنا نہ تھے۔ ان کی بعض شاعرانہ کمزوریاں ان کے عہد کی روایتوں کے راستے سے ان کے اندر آتی تھیں۔ انھیں اپنے عہد کے بعض مخصوص موضوعات سے متعلق مضامین پیدا کرنے پڑتے تھے۔ وہ مضامین ہمیشہ اونچے درجے کے نہیں ہوتے تھے۔ مثلاً:
گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کر کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
قدیم فارسی رنگ:
حالی نے ان کے کلام کی قدیم فارسی شعرا کے حوالے سے شناخت کی۔ عبد الرحمان بجنوری نے مغربی ادب اور سائنس کے حوالے سے غالب کو جاننے کی کوشش کی۔ بعد میں غالب کے فکری پہلوؤں کے علاوہ ان کے عمل اور حرکت پر بھی زور دیا گیا۔ ترقی پسندوں نے اپنے طور پر غالب کی تشریح کی۔ غالب کے نفسیاتی تجزیئے بھی کیے گیے۔ غالب پر بہت کام ہوا ہے۔مگر۔۔۔ میرے لیے غالب کے اشعار غالب کی احساس محرومی کا پرتو ہیں۔ یہ احساس محرومی ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کا ہو جسے غالب نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا یا یہ احساس ان کی مالی تنگدستی کا ہو یا اولاد سے محرومی ہو، غالب کی شخصیت اور فن پر اس محرومی کا ایک گہرا اثر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں وہ اس محرومی کے سامنے سرنگوں ہوا بلکہ غالب کی عظمت ہی یہی ہے کہ ان تقاضوں نے انہیں ماؤف نہیں کیا جو کسی بھی شخص کے لیے صبر آزما ہوتے ہیں بلکہ اپنے عہد سے بلند تر رہا اور ان صداقتوں کو بیان کرنے میں کامیاب رہا جو زمانے کی سرحدوں سے دور ہیں۔
عشق مجازی:
اس کے باوجود عشق غالب کی شاعری کا غالب عنصر ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ غالب نے عشقیہ اشعار نہیں کہے۔ ان کے بہت سے اشعار عشقی مجازی کا نمونہ ہیں۔
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
معشوقہ کی موت کا مرثیہ:
کہا جاتا ہے یہ ایک ایسی معشوقہ کے موت کا درد ناک مرثیہ ہے جسے غالب نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔ اسی غزل کا مقطع ملاحظہ کریں:
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے
لطیف انداز:
غالب اپنے عشق کا ذکر نہایت لطیف طریقہ سے کرتے ہیں:
وائے دیوانگء شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیران ہونا
بجنوری:
بجنوری مرحوم نے درست فرمایا ہے کہ ”مرزا غالب کی معشوقہ مریم نہیں جو خیال غیر سے پاک اور جنس مقابل سے پاک ہے۔“
غیر کو یا رب وہ کیوں کر منعءِ گستاخی کرے
ڈاکٹر وحید قریشی نے کہا:
”بقول ڈاکٹر وحید قریشی تفہیمِ غالب ہر دور کا مسئلہ رہا ہے۔ غالب کی عظمت یہی ہے کہ وہ ہر دور کی فکری اور جذباتی ضرورتوں کو کو پورا کرتا ہے۔ وہ زندگی کی مرکب صورتوں کا ترجمان ہے۔ پیچیدہ تجربات اور نرم و نازک احساسات کا بیان پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے غالب کو مشکل پسند کہا گیا اور اسی مشکل پسندی کی وجہ سے ہر دور نے غالب کی پہچان اپنے عصری رحجانات کے حوالے سے کی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مشکل پسندی کے باوجود غالب آج بھی زندہ و جاوید ہے۔“
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
شوق:
اس میں عشق سے مراد وہی عشق ہے جسے دوسرے ایک شعر میں غالب نے شوقیہ کہا ہے اور ایسا شوق جو جنون اختیار کر جائے اور یوں انسان کی تباہی و بربادی کا باعث ہو۔
شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
یعنی شوق جو کہ جنون کی حد پر پہنچ جائے جیسے مجنوں کا عشق۔ اسی طرح جو شوق بھی عشق اور جنون کی حد کو پہنچے گا وہ انسان کی بربادی کا شاخسانہ ہوگا۔
روایتی موضوع کو برتنے کا زاویہ:
بعض اوقات غالب نے روایتی موضوع سے متعلق مضمون کو اس زاویے سے باندھا ہے کہ وہ شعر غالب کے دوسرے اچھے اشعار کی طرح زبان زد عام ہو گیا۔ مثلاً:
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس شعر میں غالب نے ایک روایتی مضمون (محبوب کے ہاتھوں عاشق کا قتل ہو جانا) میں ایک دائمی دل کشی پیدا کر دی جس کی وجہ سے یہ شعر روزمرہ زندگی میں کام آنے والا شعر بن گیا۔ اب جب کسی کو کسی کے ہاتھ سے ایسا نقصان پہنچے گا جس کے بعد نقصان پہنچانے والا ازراہِ ندامت نقصان پہنچانے سے توبہ کر لے تو یہ شعر اس طرح کے ہر موقع پر کام آتا رہے گا۔
……٭……٭……