جواب:مرزا فرحت اللہ بیگ:
فرحت اللہ بیگ نسلی اعتبار سے ترک تھے۔ آپ نیک وقت محقق، نقاد، شاعر، خاکہ نگار، انشائیہ نگار، مرقع نگار اور مزاح نگار تھے۔ اُن کی شخصیت جلوہ صد رنگ کا مظہر نظر آتی ہے جس کی جھلک اُن کے علمی سرمائے میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ نابغہ ہونے کی حد تک طباع اور ذہین تھے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کو اردو ادب کے کامیاب مزاح نگاروں میں بلند مقام حاصل ہے وہ محقق، دانشور، انشاپرداز بھی تھے لیکن ان کی وجہ شہرت مزاح نگاری ہے۔ یہی ان کافن ہے اور اس فن کے اظہار کے لئے شخصیت نگاری ان کا محبوب موضوع ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے ارد گرد انگریزی اقتدار کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ مغل تہذیب اور قدیم اقدار کے اثرات مٹ رہے تھے۔ انہوں نے مٹتے ہوئے تہذیب و تمدن کو ”دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ“ جیسی تحاریر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔بقول پروفیسر حسن عسکری:
”وہ ظرافت اور قصہ نگاری کو ملا کر شخصیت نگاری کا خمیر اٹھاتے ہیں۔ جس سے ان کے شخصی مرقعوں میں ادبی حسن اور فنی عظمت آجاتی ہے۔“
مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر کی نمایاں خصوصیات:
زبان کی چاشنی:
فرحت اللہ بیگ کی نثر کی ایک نمایاں خوبی ان کی کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان ہے۔ ان کی زبان میں مخصوص چٹخاروں کے ساتھ ایک خاص چاشنی ہے۔ آپ زبان کی لطافت، جملوں کی چستی اور زورِ طبیعت سے ایک ایسی فضا پیدا کردیتے ہیں کہ معمولی مواد اور عام سی بات بھی شگفتہ اور غیر معمولی بن جاتی ہے۔ اپنے مضمون ”ایک وصیت کی تعمیل“ میں رقمطراز ہیں:
”آج کل کامرنا بھی کچھ عجیب مرنا ہوگیا ہے۔ پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہہ دیتے تھے۔ بتی جلتی،تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا، لوبیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا اب چراغ کی جگہ زندگی بجلی کا لیمپ ہوگئی ہے۔ ادھربٹن دبا ادھر اندھیرا گھپ۔“
اُسلوب کی رنگینی:
فرحت اللہ بیگ کے مضامین پڑھ کر دل خوشی و مسرت کی بہاروں میں ڈوب جاتا ہے۔ وہ قاری کو فطری مسکراہٹ سے مالامال کردیتے ہیں اور آپ نے مزاح نگاری کو ایک نئے اسلوب سے آشنا کروایا،جو آپ کا ہی خاصہ ہے۔
معروف نقاد عبد القادر سروری کہتے ہیں کہ:
”ان کی زبان بڑی دلکش صاف ستھری اور بامحاورہ ہے وہ خیال کو اظہار کے سانچوں میں رہ کر مزاح پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔“
”پھول والوں کی سیر“، ”ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی“ اور ”دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ“ وغیرہ وغیرہ فرحت کی خوش اُسلوبی اور رنگینی بیان کے بہت ہی اعلیٰ نمونے ہیں۔
دہلوی معاشرت کا اثر:
فرحت اللہ بیگ کو ”نذیر احمد اور محمد حسین آزاد“کی طرح دہلویت سے عشق تھا۔ دہلی کی زبان رنگ ڈھنگ، رسم ورواج، ادب و معاشرت اور انداز تمدن ان کی تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے۔
بقول ڈاکڑ وحید قریشی:
”ان کی تحریروں میں نہ صرف دہلوی زبان کا رنگ پوری طرح جھلکتا ہے بلکہ ان کے خاکے بھی قدیم دہلوی تہذیب و معاشرت کے بڑے کامیاب مرقعے پیش کرتے ہیں۔“
فرحت کے مزاح کا انداز:
مزاح نگاری کا بنیادی مقصد تنقید و اصلاح ہوتا ہے۔ فرحت اپنے مزاج سے شگفتہ انداز میں تنقیدکو اتنا دلچسپ بنادیتے ہیں کہ غیر دلچسپ موادبھی بے حددلچسپ ہو جاتا ہے۔نمونہ ء تحریر ملاحظہ ہو:
”ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری،ایسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں“ گاجر ”اور دلّی والوں کی بول چال میں پھلکی کہا جاتا ہے۔گو متانت چھو کر نہیں گزری تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتارمیں خود بخود متانت پیدا کر دی تھی۔“
پروفیسر عظمت اللہ خان کہتے ہیں کہ:
”فرحت زبان کی لطافت، جملوں کی چستی اور زورطبیعت سے ایک ایسی فضاپیدا کردیتے ہیں کہ جس میں معنی خیز تبسم کی ایک لہر نظر آتی ہے فرحت ہنساتے ہیں لیکن بے ادبانہ نہیں ایک اچھے مزاح نگار کی طرح ان کے تبسم کے پیچھے دردمندی کے آنسو پوشیدہ ہوتے ہیں۔
حفظ ِ مراتب کا خیال:
فرحت اللہ بیگ کی تحریر کی یہ خاص خوبی ہے کہ آپ اپنی تحاریر میں حفظِ مراتب کا خصوصی اہتمام فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود کوشش کے آپ ان کی تحریروں میں سے کوئی پست یا غیر معیاری فقرہ کسی کیلئے نہیں تلاش کر سکتے۔ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ ان کے اس کمال کی عمدہ مثال ہے۔ نمونہء تحریر ملاحظہ ہو:
”ان کے نظامِ اوقات میں گرمی اور جاڑے کے لحاظ سے کچھ کچھ تغیر ہو جاتا تھا۔ وہ ہمیشہ بہت سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔گرمیوں میں اٹھتے ہی نہاتے اور ضروریات سے فارغ ہو کر نماز پڑھتے،ان کی صبح کی اور عصر کی نماز کبھی ناغہ نہ ہوتی تھی۔باقی کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ نہ میں نے دریافت کیا اور نہ مجھ سے کسی نے کہا۔“
مرقع نگاری:
فرحت اللہ بیگ اردو کے صف اول کے مرقع نگار ہیں۔ فرحت کی مرقع نگاری میں مصورانہ شعوروآگہی کا پتہ چلتا ہے۔ ”یادگار مشاعرہ میں مشاعرہ پڑھنے والے مرقعے اس خوبصورتی سے لکھے گئے ہیں کہ اُن کے نقوش انمٹ ہو کررہ گئے ہیں۔“ نذیر احمد کی کہانی سے چند سطور ملاحظ ہوں:
”آنکھیں چھوٹی چھوٹی ذرا اندد کو دھنسی ہوئی تھیں، بھویں گھنی اور آنکھوں کے اوپر سایہ فگن تھیں۔ آنکھوں میں غضب کی چمک تھی وہ چمک نہیں جو غضے کے وقت نمودار ہوئی ہے بلکہ وہ چمک تھی جس میں شوخی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اگر میں ان کو مسکراتی ہوئی آنکھیں ”کہوں تو بے جانہ ہوگا۔“
پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب طنزیات و مضحکات میں لکھتے ہیں کہ:
”فرحت اللہ بیگ کو عہد مغلیہ کے آخری دور کی معاشرت اور تمدن کا صحیح اور دلکش ترین مرقع اُتارنے میں بڑی قدرت حاصل ہے۔“
سنجیدہ تحریریں:
آپ کی تحاریر میں سنجیدگی کا عنصر خوب پایا جاتا ہے۔ ان میں ”پھول والوں کی سیر“ اور ”دلی کا تاریخی یادگار مشاعرہ“ آج تک لوگوں کے اذہان میں محفوظ ہیں۔ دلی کے مشاعرے میں انہوں نے جس انداز سے اس مشاعرے کا منظر نامہ تحریر کیا ہے،وہ دل کو ایک دم اپنی جانب کھینچتا ہے۔اجڑتی ہوئی دلی اور برباد ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت نظروں کے سامنے تصویر ہو جاتی ہے۔
اسی لیے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”بعض جگہ تو اُن کا مذاح بھی سنجیدگی کی چادر اوڑھے نظر آتا ہے اور قاری یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے زیرِ مطالعہ کوئی علمی و ادبی مضمون ہے یا ظرافت کی تحریر۔“
جزئیات نگاری:
فرحت اللہ بیگ نے اپنے اظہار کو جزئیات کے ساتھ بے حددلچسپ بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ واقعات اور مناظر کو نہایت سلیقے سے جزئیات کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔آپ کسی بھی منظر کے حصے اس خوبصورتی سے ملاتے ہیں کہ تحریر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بڑی وضاحت سے اپنے پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اس سے مضمون میں طوالت تو آتی ہے،مگر مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً: ََمولوی وحید الدین سلیم کے گھر کا احوال یوں لکھتے ہیں کہ:
”بر آمد ے میں بان کی چار پائی پڑی ہے، وہ تین تختے جڑی ہوئی ٹوٹی پھوٹی کرسیاں ہیں۔ اندر ایک ذراسی دری ہے، اس پر میلی چاندنی ہے سامنے کمرے میں کھونٹیوں پر دو تین شیروانیاں، دو تین ٹوپیاں لٹک رہی ہیں۔“
عورتوں کی زبان پر قدرت:
فرحت اللہ بیگ نے اپنی تحریروں میں دہلی کی بیگماتی زبان کوبڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ یہ ہنر انھیں اپنے استاد ”مولوی نذیر احمد“ سے ورثے میں ملا تھا۔ وہ عورتوں کی نفسیات کو بڑی مہارت سے پیش کرتے ہیں۔نمونہء تحریر ملاحظہ ہو:
”بس اس گھر کا اللہ ہی مالک ہے۔ بچے ایسے نکلے ہیں کہ نوج کسی کے ہوں۔ ہر وقت منہ چلتا رہتا ہے اور اس پر نیت کا یہ حال ہے کہ ذرا کچھ مانگو تو سامنے سے ٹل جائیں کیوں نہ ہوں بی اصغری کے بچے ہیں۔ ایسے نہ ہوں گے تو کیسے ہوں گے۔ یہ تو وہ ہیں کہ دوسروں کے حلق میں انگلی ڈال کر کھایا پیا سب نکلوالیں اور کوئی مرتا بھی ہو تو اس کے حلق میں پانی کی بوند نہ ٹپکائیں۔“
احساس دردمندی:
فرحت اللہ بیگ بڑے صاحب دل اورحساس انسان تھے۔ انہوں نے اپنے مضامین میں ہنسنے ہنسانے کے ساتھ ساتھ قاری کی آنکھوں کو آنسوؤں کے موتیوں سے بھی بھر دیا۔ وہ قاری کو مسکراتے مسکراتے اچانک غم کی کیفیت سے دو چار کردیتے ہیں۔ ان کے بعض مضامین مثلاً:
پھول والوں کی سیر اور مولوی نذیر احمد کی کہانی، کے اختتا میے ذہنوں میں المیہ کا تاثر چھوڑتے ہیں۔
تمہیدکا شگفتہ انداز:
مضمون کی دلچسپی کا انحصار اس کے تمہیدی پیرا گراف پر ہوتا ہے۔ فرحت کو مضمون کا ابتدائیہ شگفتہ انداز میں لکھنے پر کمال حاصل تھا۔ ممتاز کالم نگار نصر اللہ خان اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
”وہ ایک قادر الکلام ااور ماہر فن ادیب ہیں۔ ان کی شگفتہ اور دلچسپ تمہیدیں ان کی مہارت فن اور تخربہ کاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔“
مرزا فرحت اللہ بیگ خاکہ نگاری کے شہنشاہ:
آپ کی تحاریر کے اسلوب نے خاکہ نگاری کو ایک نئی جُہت عطا کی ہے۔ آپ اپنے ممدوح کا اپنے لفظوں اور خوبصورت جملوں کے ذریعے ایسا پیکر تراشتے ہیں کہ وہ ممدوح قاری کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ آپ اپنے خاکوں میں سلاست، ذہانت اور نکتہ آفرینی کا بے مثال اہتمام کرتے ہیں۔ ”نذیر احمد کی کہانی“، ”ایک وصیت کی تکمیل“ اور ”دلّی کاایک یادگار مشاعرہ“ آپ کی خاکہ نگاری اور شخصیت نگاری کی لازوال دستاویز ہیں۔ خاص کر ”دلّی کاایک یادگار مشاعرہ“ میں چلتی پھرتی دلّی کی اہم شخصیات نظر آتی ہیں۔اس طرح اردو شاعری کے کلاسیکی عہد کے شعراء بمع پڑھنے کا انداز اور داد دینے کا انداز تک بیان ہوگیا ہے۔ یوں دلی کا مشاعرہ ایک عظیم تاریخی دستاویز بن گیا ہے، جس میں نواب ضیاالدین احمد خان،مرزا تفتہ، مولوی امام بخش صہبائی،مفتی صدرالدین آزردہ، نواب شیفتہ اور حافظ غلام رسول ویران جیسی شخصیات کا ذکر اَمر ہو گیا ہے۔نمونہء تحریر ملاحظہ ہو:
”میرا نام کریم الدین ہے۔ میں پانی پت کا رہنے والا ہوں۔ یہ قصبہ دہلی سے چالیس کوس پر بہ جانب شما ل مغرب واقع ہے اور اپنی لڑائیوں کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہے۔ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔“
تصانیف:
مضامین فرحت ……پانچ مجموعے، جس میں ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی، بہادر شاہ اور پھول والوں کی سیر، دلّی کا یادگار مشاعرہ،نانی اشّو اور ایک وصیت کی تعمیل وغیرہ بہت مشہور ہوئے۔ دیوان یقین کی ترتیب، دیوانِ یقین پر زبر دست تحقیقی مقالہ،دیوانِ نظیر کا………… وغیرہ وغیرہ۔
تبصرہ کچھ اپنی ناقص رائے میں:
بلا شبہ فرحت اللہ بیگ نئی روایت کے مزاج نگاروں کے قافلے کے سب سے نمایاں سپہ سالار ہیں۔ مزاح میں قہقہہ کے بجائے تبسم زیر لب کو روا رکھا۔ آپ نے مزاح میں شرارت کے بجائے شرافت اور وضع داری کا دامن تھا ما۔ ظرافت کو کاٹ دار بنانے کے بجائے اس میں شگفتگی اور نرمی کے رنگ بھرے۔ ظرافت کو زبان کی رنگینی اور چاشنی سے موثر بنایا۔ مزاح کے پس منظر میں ہمدردی اور دردمندی کا جذبہ کار فر مارکھا۔ آپ نے اپنی مزاح نگاری کو مقصدیت کے تابع رکھا۔ آپ بہترین انشاء پر داز تھے۔ آپ نے اپنے مضا مین میں اپنے دور کی ثقافت اور تمدن کی نہا یت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ آپ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی جب پرانی تہذیب دم توڑرہی تھی۔ سرسید کی تحریک اپنا اثر دکھارہی تھے۔ ایسے ماحول میں آپ نے محسوس کیا کہ پرانی تہذیب میں زندگی کی اعلیٰ اقدار موجود ہیں۔ آپ کو عہدِرفتہ کی ان اقدار سے دلی لگاؤ تھا۔ اسی لیے آپ اپنی بھرپور کوششوں سے پرانی یادوں کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ کا اسلوبِ نگارش خود آپ ہی سے شروع ہوکر آپ ہی پر ختم ہوگیا۔ میں اپنے تبصرے کا اختتام مرزا صاحب کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے چند ناقدین کی آرا پر کرتا ہوں۔ بقول عبدالقادر سروری:
”مرزا صاحب کے قلم سے سلاست اور فصاحت کا دامن بہت کم ہی چھوٹنے پاتا ہے۔“
بقول بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق:
”مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان بہت سادہ و دل آویز ہے جس میں تصنع نام کو نہیں۔“
بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
”فرحت کی زبان شگفتہ فارسی آمیز ہے اور بعض اوقات تمسخر کچھ اس طرح ملا ہوتا ہے کہ جس میں پھول اور کانٹے نظر آئیں۔“
……٭……٭……