چیتھڑوں میں ملبوس وہ ایک آدمی… مقدر کا مارا…اپنوں کا ستایا….ہر طرف سے ٹھوکر کھایا… چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس نے ایک آواز سنی،
”اللہ اکبر…اللہ اکبر….!“ وہ رک گیا۔ سر اٹھا کر دیکھا،اسے پہاڑی ٹیلے پر ایک مسجد نظر آئی۔اللہ بلا رہا تھا…! وہ اس بلاوے پر لبیک کہتا ہوا مسجد کی طرف چل پڑا۔ سو سیڑھیاں چڑھ کر وہ مسجد تک پہنچا۔وضو کرتے مغرب کی جماعت نکل گئی۔ اس اکیلے نے ہی اللہ کے ساتھ لو لگا لی۔وہ نہیں جانتا تھا کہ’اپنی‘مسجد میں ایک’فقیر‘کی آمد ایک’قابض‘کو ناگوار گزری تھی۔ وہ گھورگھور کر اس فقیر کو دیکھ رہا تھا اور انتظار میں تھا کہ فقیر نماز مکمل کرے اور وہ اسے اس کی اوقات دکھائے۔ادھر فقیر نے سلام پھیرا،ادھر قابض نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
”تمہاری یہ جرات… کہ اس حال میں مسجد میں آؤ…!“
”میں تو پاک اللہ کے پاس آیا ہوں….!“
”نکل باہر…!“ ’قابض‘اسے گریبان سے پکڑ کر باہرلایااور سیڑھیوں پر سے اسے دھکا دے دیا۔ اسی پر اکتفانہ کی، اب وہ فقیر کے پیچھے آ رہا تھا۔ لڑھکتے ہوئے فقیر جہاں رک جاتا، وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اسے آگے بڑھا دیتا۔ سو سیڑھیوں کا سفر اس نے ٹھوکروں میں مکمل کیا۔ پہلی سیڑھی تک آتے آتے فقیر پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ قابض اس کے سینے پر پاؤں رکھے فاتحانہ انداز میں کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد فقیر کے حواس بحال ہوئے۔وہ اٹھ بیٹھا۔ اب اس نے ایک عجیب حرکت کی۔وہ اپنے ہاتھوں سے ’قابض‘کی ٹانگیں دبا رہا تھا…
”کیا کر ہے ہو….؟؟؟“
”آپ نے اتنی مشقت کی، بہت ممکن ہے کہ آپ کی ٹانگیں دکھ رہی ہوں گی…!“ فقیر سسک کر بولا۔’قابض‘کھڑے کھڑے ہی فنا ہو کر رہ گیا….!