ایثار ___ علی اکمل تصور

وہ دونوں اس دنیا میں اکیلے تھے۔ نہ کوئی اپنا… نہ کوئی بیگانہ…! ایک رات سیلاب آیا تھا۔پانی کا ریلا اپنے ساتھ ان کے سارے سہارے بہا کر لے گیا۔ اب وہ تھے… اور بے رحم دنیا تھی۔منفی رویّوں نے اسے بھی بے رحم بنا دیا تھا۔ ایک استاد نے اسے روپے کمانے کا ہنر سکھا دیا تھا۔ ہنر وہ نہیں تھا،جو نظر آتا تھا۔ ہنر وہ تھا، جو نظر نہیں آتا تھا۔اب وہ پان والا بن چکا تھا اور ساتھ ہی چونا لگانے کا ماہربھی…

اس دن بھی وہ اپنے گلے میں پان کی دکان لٹکائے گاہک کی تلاش میں تھا۔ اس کی دودھ پیتی بہن اس کے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی۔ گرنے سے بچانے کے لیے اس نے بہن کو کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔دکان داری کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بہن کو بھی سنبھالتا تھا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر ایک آدمی کا دل پسیج گیا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی موجود تھی۔
”ہمیں اس باہمت بچے کی مدد کرنی چاہیے…“
”ہاں…!مگر یہ محنت کر کے کمانے والا بچہ ہے،بھیک قبول نہیں کرے گا….!“
”سچ کہتی ہو…! پان کھانے کے بہانے اس کی مدد کر دیتے ہیں…“ وہ اس پان والے بچے کے پیچھے چل پڑے۔اتنے میں انہوں نے دیکھا۔ بچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔پان والے لڑکے نے اپنی دکان نیچے رکھ د ی اور بچی کو بہلانے کی کوشش کرنے لگامگر بچی تو بس روئے جا رہی تھی…
”کیا ہوا…؟“ وہ آدمی اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
”معلوم نہیں صاحب جی…!“
”میرے لیے میٹھا پان لگاؤ،میں اسے چپ کراتا ہوں…“ اس نے بچی گود میں اٹھا لی مگر بچی تو کسی طور بہل ہی نہیں رہی تھی۔ اب بچی اس آدمی کی بیوی نے اٹھا لی۔ وہ لڑکا جلدی جلدی پان لگانے لگا۔پھر اس نے نشیلا قوام پان پر ڈال دیا۔ یہی وہ ہنر تھا جو اس نے اپنے استاد سے سیکھا تھا۔ نشیلا پان منہ میں رکھتے ہی کھانے والے کی طبیعت خراب ہونے لگتی تھی۔ وہ قے کے لیے جھکتا تو یہ جیب پر ہاتھ صاف کر کے نکل جاتا۔اب اس نے پان لپیٹ لیا تھا کہ اچانک ہی وہ چونک پڑا۔ بچی رو نہیں رہی تھی۔ اس نے سر گھما کر دیکھا۔ اس کی منی بہن کو اس آدمی کی بیوی نے اپنے آنچل میں چھپا رکھا تھا۔اس کے چہرے پر ممتا کا نور تھا۔
”بھوکے کی بھوک مٹانا بھی نیکی ہے۔“وہ آدمی مسکرایا۔پان والے کے ہاتھ میں پان دبے کا دبا رہ گیا۔ ممتا کے ایثار کے آگے ایک لٹیرا خود لٹ چکا تھا۔

Leave a Comment