دریا دل ___ شمس الرحمٰن مانی


عون دوڑتا ہوا گھر میں میں داخل ہوا۔وہ بہت جلدی میں لگ رہا تھا۔وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا۔واپسی پہ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا موجود تھا۔اس تھیلے میں چودہ اگست کے حوالے سے آرائش و زیبائش کا وہ سارا سامان موجود تھا،جو وہ ایک دن پہلے اپنے ابو کے ساتھ بازار سے خرید کر لایا تھا۔عون کی واپسی آدھے گھنٹے بعد ہوئی۔
”عون بیٹا بات سنو!“ گھر میں داخل ہوتے ہی دادی اماں کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”جی دادی اماں!“ عون کا لہجہ مؤبانہ تھا۔
”بیٹا وہ تھیلا کہاں ہے جو باہر لے کر گئے تھے؟“ دادی اماں کی بات سن کر وہ مسکرانے لگا۔وہ ان کی اس (پوچھ گچھ والی) عادت سے بخوبی واقف تھا۔اسے پتہ تھا کہ یہ سوال اس سے کیا جائے گاکیونکہ گھر سے نکلتے وقت دادی اماں نے اسے دیکھ لیا تھا۔
”بتاتا ہوں،سی آئی ڈی انسپکٹرصاحبہ!“ عون کی شرارت بھری بات سن کر سب مسکرانے لگے۔
”دادی اماں جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ پانچ دن چودہ اگست ہے۔اس سلسلے میں ہم سب دوستوں نے کچھ نہ کچھ خرید رکھا ہے۔ابھی کچھ دیر پہلے گلی میں محلے کے بچے ایک دوسرے کو اپنی اپنی چیزیں دکھا رہے تھے…اچانک میری نظر سعد پر پڑی جو حسرت بھری نگاہوں سے سب چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔آپ کو تو معلوم ہے کہ سعد کے ابو اس دنیا میں نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی بڑا بھائی ہے۔اس کی امی جان دوسروں کے گھروں میں کام کر کے کسی نہ کسی طرح بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ان کے پاس اتنی گنجائش نہ ہوگی کہ وہ سب خرید سکیں۔مجھ سے سعد کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اور میں اپنے پاس موجود سارا سامان اٹھا کے سعد کو دے آیا۔اس کی خوشی کا عالم دیکھنے والا تھا۔اس کی آنکھوں میں خوشی کے مارے آنسو آ گئے اور سعد کی امی جان نے مجھے دعاؤں کے ساتھ ساتھ پیاربھی کیا۔“ عون کی بات سن کر دادی اماں نے اسے گلے لگا لیا۔انھوں نے بے اختیار اس کا ماتھا چوم لیا۔عون کے ابو (جوکہ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے) نے اخبار چوڑ کر پیار بھری نظروں سے اسے دیکھا۔یہ ان کی ہی تربیت تھی کہ عون ’دریا دل‘ واقع ہوا تھا۔
عون ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کے محلے کے زیادہ تر بچے اس کے سکول میں ہی پڑھتے تھے۔سب بچے اکٹھے اسکول آتے جاتے تھے۔شام کو اکٹھے کھیلتے تھے۔ان کا محلہ ایک گھرانے کی طرح تھا۔اگست کے مہینے میں وہاں عید کا سا سماں ہوتا تھا۔محلے کو دلہن کی طرح سجایا تھا۔ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ اس کا گھر سب سے زیادہ خوبصورت نظر آئے۔
تیرہ اگست کو محلے میں کافی گہما گہمی تھی۔کوئی چھت پر جھنڈا لگا رہا تھاتو کوئی سبز اور سفید برقی قمقمے….کہیں گلی کو جھندیوں سے سجایا جا رہا تھا تو کہیں سے ملی نغموں کی آوازیں آ رہی تھیں۔سب کی خوشی دیدنی تھی مگر عون اداس تھا۔اس کے گھر کی چھت سونی تھی۔کوئی کام کرنے کو نہ تھا کیونکہ سجاوٹ کا سارا سامان تو اس نے سعد کو دے دیا تھا۔عون کی اداسی میں ایک عجیب سی خوشی بھی چھپی ہوئی تھی۔اتنے میں اس کے دوستوں نے اسے آواز دی۔
”عون…ہماری مدد کرو…!“ اس کے دوست گلیاں سجا رہے تھے۔عون ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گیا۔اب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مسجد والی گلی سجا رہا تھامگر اسے مزمل،فرید اور عاطف نظر نہیں آ رہے تھے۔
”یہ تینوں کہاں غائب ہو گئے؟“ اس نے دوستوں سے پوچھا۔
”وہ تایا غفور والی گلی سجا رہے ہیں۔“اس کے ایک دوست نے جواب دیا۔وہ مطمئن ہو گیا۔کام بہت زیادہ تھامگر جیسے تیسے انھوں نے مغرب سے پہلے مکمل کر ہی لیا۔اب عون تھک چکا تھا،وہ آرام کرنا چاہتا تھا۔وہ اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔جیسے ہی وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا،حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔پھر ان حیرت بھری آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔
جس ایثار کا مظاہرہ اس نے سعد کے لیے کیا تھا،اسی ایثار کا مظاہرہ اس کے دوستوں نے اس کے لیے کیا تھا۔اس کی گلی اور گھر سج چکا تھا۔اب وہ بھی پوری شان کے ساتھ یومِ آزادی کو خوش آمدید کہہ سکتا تھا۔

Leave a Comment