آج دکھ اس کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بہت سے افراد اس کے سامنے کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے۔
”میں پوچھتا ہوں کہ کیا قصور تھا ان کا…؟ آخر قصور تھا ہی کیا ان کا…؟ وہ تو تعلیم حاصل کرنے گئے تھے۔ جنگ لڑنے تو نہیں گئے تھے نا….! بچوں کے سامنے تو ہم مرغی بھی ذبح نہیں کرتے اور وہاں….وہاں بچوں کے سامنے بچے ذبح کیے گئے…!نام پوچھ پوچھ کر ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں…! اتنا پانی تو فرش دھونے پر بھی نہیں لگتا،جتنا اس دن وہاں خون بہہ گیا تھا….! کون تھے وہ بچے….؟ وہ میرے بچے تھے…! وہ آپ کے بچے تھے….! وہ اس قوم کے بچے تھے…! کیا اس نقصان کا مداوا ہو سکتا ہے…ہو سکتا ہے مداوا…؟“
اس کی باتیں سن کر بہت سی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔چند ایک تو سسک بھی پڑے تھے۔ مجھے اس کی باتیں سن کر ایک انجان سی خوشی کا احساس ہوا، پھر وہ چل پڑا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی بیوی نے اسے سبزی لانے کے لیے کہا تھا۔ وہ ایک سبزی فروش کے پاس رک گیا۔
”دو کلو پیاز…ایک کلو ٹماٹر…!“ ایسے میں اس نے ایک آواز سنی،
”صاحب جی…! اپنے بچوں کے لیے بسکٹ، چاکلیٹ بھی لے لیجئے نا…!“
اس نے دیکھا، ہاتھ میں ٹوکری اٹھائے ایک بچہ امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا….
”دور ہٹ…ضرورت نہیں ہے…!“ اس نے پھیری لگانے والے اس بچے کو جھڑک دیا۔ اس بچے میں اسے اپنا…کسی دوسرے کا…یا پھر قوم کا بچہ نظر ہی نہیں آیا تھا…!
میں اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک بچے کی روح ہوں۔ آج مجھے اجازت دی گئی تھی۔ میں انسانوں کے درمیان موجود تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ بھی بس باتیں کرنے والا’درد مند‘ ہے۔اسے بہت کچھ یاد تھا، مگر شاید کچھ بھی یاد نہیں تھا…!