سوال: خاکہ نگاری کے فنی تقاضوں کے پیش نظرمولوی عبدالحق کی کتاب ”چند ہم عصر“ کا تنقیدی جائزہ لیں۔

جواب: اردو میں خاکہ نگاری کا مختصر تعارف:
”خاکہ نگاری“ اصناف ادب میں ایک ایسا موضوع ہے جس کی جامع تعریف پر ابھی اہل ادب متفق نہیں ہیں۔ بعض تنقید نگار اسے مرقع،سیرت نگاری، شخصیت نگاری کا متبادل تصور کرتے ہیں اور بعض اسے مختصر سوانح نگاری کا نام دیتے ہیں۔ اردو کے نامور محقق اور تنقید نگار خلیق انجم کا کہنا ہے:
”خاکہ کا فن بہت مشکل اور کٹھن فن ہے اسے نثر میں ”غزل“ کا فن کہا جا سکتا ہے۔ غزل کی طرح خاکے میں محدود الفاظ میں طویل مطالب مختصر الفاظ میں پوری شخصیت پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔ اس لیے خاکہ لکھنا بہت آسان ہے مگر اول درجے کا خاکہ لکھنا بہت مشکل۔“
احمد انصاری اس فن کو مرقع نگاری کا نام دیتے ہوئے مرقع نگاری کا منصب اس طرح متعین کرتے ہیں:
”مرقع نگاری کی تہہ میں جو جذبہ پایا جاتا ہے وہ ممدوح کو لفظ و بیان کے ذریعہ حیات نو بخشتا ہے اور اس کی سیرت کے ان گوشوں کو نمایاں کرتا ہے اس لیے لازمی طور پر واقعات کا انتخاب بھی مرقع نگاری کو کرنا پڑتا ہے۔“
مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری اور چند ہم عصر کا جائزہ:
ابن فرید نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا ہے۔
”بابائے اُردو ایسے افراد سے متاثر ہوئے جن میں ایسی خوبیاں ہیں جو عام طور پر دوسروں میں نہیں پائی جاتی ہیں اور جن کا ہونا عجائب و نوادر میں سے ہے۔“
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے جن افراد کے خاکے تحریر کیے، وہ ان کی شخصیت کے کن پہلوؤں سے متاثر تھے، ان کا سرسری جائزہ مولوی صاحب کی تحریروں ہی سے لیا جائے تو بہتر ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق سید محمود کی وفات کوغضب اور قیامت تصور کرتے تھے کیونکہ سید محمود اپنی خوبیوں اور لیاقت میں عدیم النظیر تھے۔
چند عم عصر کی عظمت:
ابتدائی خاکہ نگاری کی تاریخ میں“چند ہم عصر”کا شمار عظمت کا حامل ہے۔مولوی عبدالحق بلا شبہ ایک صاحب طرز انشا پرداز ہیں۔صاف،سادہ،شستہ،دلنشیں اور سنجیدہ نثر لکھنے کا جو طریقہ انھوں نے ایجاد کیا ہے وہ قابل تقلید ہے۔چند ہم عصر میں عبدالحق کی ساری خوبیاں بھر پور رنگ میں ظاہر ہوئی ہیں۔یہ کتاب1937 میں شائع ہوئی۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں خاکوں کو مجموعہ کی شکل میں یکجا کیا گیا ہے۔ترمیم شدہ ایڈیشن 1959 میں کل چوبیس افراد کے خاکے ہیں۔بابائے اردو مولوی عبدالحق کا تعلق ہاپوڑ ضلع میرٹھ سے تھا۔ان کی پیدائش 1870 کو“سرواہ”میں ہوئی۔میٹرک کا امتحان پنجاب سے پاس کیا مزید تعلیم کے لئے انھیں علی گڑھ بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے1894  میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا اس کے بعد ملا زمت کے غر ض سے بمبئی چلے گئے پھر وہاں سے حیدرآباد چلے گئے اور مترجم کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا اور ماہنامہ ادبی رسالہ”افسر”کی ادارت کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔انجمن ترقی اردو جو 1903 میں معرض وجود میں آئی تھی جس کے لئے ایک رہبر کی تلاش تھی آخر کار اہل علم کی نگاہیں مولوی عبدالحق پر مرکوز ہوئیں اور 1911 میں انھیں انجمن کا سکریٹری منتخب کیا گیا۔تقسیم وطن کے بعد وہ پاکستان چلے گئے جہاں اردو کی ترویج واشاعت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے بالآخر اردو کا یہ مجتہد 16 اگست 1961 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔
مولوی عبدالحق کی ذات……ایک انجمن:
مولوی عبدالحق کی ذات ایک انجمن تھی اگرچہ انھوں نے بڑ ا تصنیفی سرمایہ نہیں چھوڑا تاہم جو بھی تنقید وتحقیق کا کام انھوں نے کیا ہے اسے اردو ادب فراموش نہیں کر سکتا۔ایک اہم کارنامہ جسے اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ ان کے خاکوں کا مجموعہ ”چند ہم عصر ہے”عبدالحق نے ان خاکوں میں محبت یا عداوت سے بلند ہو کر تقریبا معروضیت کے ساتھ شخصیات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ وہ انسان اور انسانیت کی عظمت کے شناسا ہیں۔جس شخص کا خاکہ تحریر کرتے ہیں اس شخصیت کے کسی روشن پہلو کو مد نظر رکھتے ہیں اور نہایت پر اثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔شخصیت کی پرکھ میں اس کی بڑی اہمیت ہے کہ خاکہ نگار کے ذہن میں خوبیوں اور خامیوں کا کیا معیار ہے؟ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خاکہ نگار نے شخصیت کے کن خوبیوں کی ستائش کی ہے اور کن کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔
غیر جانب داری:
مولوی عبدالحق نے محاسن ومعائب بیان کرنے میں دوستی،تعلقات اور شخصیات کی عظمت وشہرت کی کبھی پرواہ نہ کی۔مولوی محمد علی جوہر کے خاکے میں دونوں پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:“مولانا محمد علی مرحوم عجیب وغریب شخص ہوئے ہیں۔وہ مختلف،متضاد اور غیر معمولی اوصاف کا مجموعہ تھے۔اگر انھیں ایک آتش فشاں پہاڑ یا گلیشیئر سے تشبیہ دی جائے تو کچھ زیادہ مبالغہ نہ ہوگا۔ان دونوں میں عظمت وشان ہے۔لیکن دونوں میں خطرہ وتباہی بھی موجود ہے۔
شائستگی اور تہذیب:
محمد علی مرحوم کے خاکے میں مولوی عبدالحق نے شخصیت وکردار کو ایک متحرک شکل وصورت عطا کی ہے جو کامیاب خاکے کا غماز ہے۔مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری میں شائستگی اور تہذیب کا عنصر نمایاں ہے۔وہ اپنی زندگی میں چند افراد کے طرف دار ہیں۔انسان کی محبت،جفاکشی،راست گفتاری،بے لوث جذبہ خدمت اور وضع داری پر انھوں نے زیادہ زور دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف معروف شخصیات بلکہ عام انسانوں کی محنت،لگن اور ہمہ جہتی ان کی توجہ کا مرکز بنی اور غیر معروف شخصیات کو بھی انھوں نے اپنے زور قلم سے معروف بنا دیا۔نورخاں اور نام دیو مالی اس کا بہترین نمونہ ہیں۔نور خاں کے خاکے کی شروعات کتنی دل پذیر ہے ملاحظہ فرمائیں:
سید محمود کی وفات:
”ان کا لہجہ، ان کے شیریں بیانی اور بعض اوقات ان کی ڈرامائی حرکات انسان کو بھڑکا دیتی تھیں۔ ان کی گفتگو میں جو سحر تھا وہ میں نے آج تک کسی میں نہیں دیکھا۔“
مولوی چراغ علی:
”مولوی چراغ علی مرحوم ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے بل بوتے پر آپ کھڑے ہوئے آئے اور اپنی محنت سے دنیا میں جاہ و ثروت، لیاقت و فضیلت حاصل کی۔ وہ حسین مضمون کا خیال کرتے اس کی تہہ تک پہنچتے مجھے اس کے مالہ و ماعلیہ کے سوراخ میں پتے پتے اور ڈالی ڈالی پھرتے اور پاتال تک کی خبر لاتے۔
مولوی محمد عزیز مرزا:
مولوی محمد عزیز مرزا مرحوم نے اپنے فرائض نہایت دیانتداری اور دلچسپی کے ساتھ ادا کیے اور نہ کبھی کام سے عہدہ اور نہ آج کا کام کل پر چھوڑا۔
حکیم امتیاز الدین:
حکیم امتیاز الدین اپنے فن اور رنگ میں ایک تھا۔ اگرچہ طبیعت کا کمزور اور لاابالی تھا مگر دوستی کا سچا اور دھن کا پکا تھا۔ یہ سچ ہے کہ وہ دنیا کے کام کا نہ تھا مگر خیال میں اس نے ایک ایسا عالم بنا رکھا تھا کہ عالم مثال بھی اس کے سامنے ہیچ تھا۔“
محسن الملک:
”محسن الملک کو قدرت نے بہت سی خوبیاں ادا کی تھیں۔ وجاہت، ذہانت،خوش بیانی اور فیاضی ان کی ایک ایسی عام صفات تھیں کہ ایک راہ چلتا بھی چند منٹ کی بات چیت میں معلوم کر لیتا تھا۔“
مولانا محمد علی جوہر:
”مولانا محمد علی جوہر مرحوم متضاد اور غیر معمولی اوصاف کا مجموعہ تھے۔ اگر انہیں آتش فشاں پہاڑ سے تشبیہ دی جائے تو وہ کچھ زیادہ مبالغہ نہ ہو گا۔ ان دونوں میں عظمت و شان ہیں لیکن دونوں میں خطرہ اور تباہی موجود ہیں۔“
شیخ غلام قادر:
”شیخ غلام قادر بے نیاز، بے پرواہ، دنیا کے معاملات سے بے خبر اگرچہ دنیا کی نظروں میں دیوانہ تھا مگر شعر کہنے میں فرزانہ تھا۔“
مولانا حالی:
”مولانا حالی کی سیرت میں دو ممتاز خصوصیات تھی ایک سادگی، دوسری درد دل اور یہی شان ان کے کلام میں ہیں ان کی سیرت اور ان کا کلام ایک ہے یا یوں سمجھئے کہ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔
سرسید:
سر سید کا مزاج اور مذاق کچھ ملا جلا تھا کچھ ہندی اور کچھ انگریزی لیکن دونوں کو انہوں نے اس سلیقے سے ملایا تھا کہ خاص نفاست اور حسن پیدا ہوگیا تھا۔میرن صاحب جیسی وضع داری محبت و شفقت اور ایثار اب کہاں اپنے آپ کو مٹا کر دوسروں کی خدمت کرنا یہی جوہر انسانیت ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال:
ڈاکٹر محمد اقبال بڑی خوبیوں کے آدمی تھے۔ محبت اور ہمدردی ان کی گھٹی میں تھی۔ اگرچہ وہ خاموش طبع تھے۔
مولانا حسرت موہانی:
مولانا حسرت موہانی کے اس بی ڈول قالب میں بے پایاں روحانی قوت اخلاقی جرات اور خلوص و صداقت تھی۔ آزادی کا ایسا شیدائی بھائی کوئی کام ہوگا۔
عبدالرحمٰن صدیقی:
عبدالرحمن صدیقی راست گوئی،اخلاقی جرات، بیباکی اور آزادی میں نیک نام نہیں بد نام تھا۔وہ کسی سے مرعوب نہ ہوا ہوا دو دوستوں کی ناراضگی اور لیڈروں کی خفگی برداشت کی لیکن اصول نہ چھوڑا۔ درویش پروفیسری ہٹ سک کی زندگی عجیب و غریب تھی، اس نے تمام عمر علم کے مطالعہ واہ اور علم کی خدمت میں صرف کی۔ گو درویشوں کی طرح بسر کیں مگر دوسروں کو ہر طرح فائدہ پہنچایا۔
ڈاکٹر بجنوری:
ڈاکٹر بجنوری کی زینت وسیع نظری اور علم و فضل کو دیکھ کر دل میں عزت و احترام پیدا ہوتا تھا دل بے اختیار ان کی طرف کھینچتا تھا۔
نواب عماد الملک:
نواب عماد الملک صادق القول باوضع اور پابند اصول تھے۔ان میں قدیم وضع اور جدید تہذیب کی بعض خصوصیات اس خوش اسلوبی سے باہم ملی ہوئی تھیں کہ اس امتزاج نے ان کی روش یہ زندگی میں ایک قسم کا حسن پیدا کر دیا تھا۔ سرسید احمد خان کا دل قوم کی دردمندی سے لبریز تھا تھا عمر بھر اسی دھن میں لگا رہا اور آخر دم تک مردانہ وار یار بلکہ دیوانہ وار کام کرتے کرتے مجھے دنیا سے چل بسا۔
خالدہ ادیب خانم:
خالدہ ادیب خانم ہم بہت ذہین نکتہ رس درس بخاری کبین دین اور بالغ نظر ہیں ہیں ان کی آواز اور گفتگو میں عجیب شرینی اور دلکشی ہے۔
درج ذیل بالا شخصیتوں کے وہ اوصاف ہیں جو بابائے اردو کے لیے باعث کشش ہوئے اور انھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے سیرت کشی کے اعلی نمونے تراشے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاکے شوق محنت و محبت اور لگن کے ایسے جوہر قابل ہیں جن کی زندگی سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔
خلیق انجم:
چند ہم عصر سر کے خاکوں کا تجزیہ کرتے ہوئے خلیق انجم نے لکھا ہے،”گر مولانا چند ہم عصر کے علاوہ اور کچھ نہ لکھتے تب بھی اردو میں ان کا نام ہمیشہ عزت اور احترام سے صاحب طرز انشا پردازوں کے ساتھ لیا جاتا۔“
خاکہ نگاری کا عروج:
چند ہم عصر میں نام دیو مالی اور گدڑی کا لعل لال نور خان خان ایسے خاکے ہیں جن میں خاکہ نگاری اپنے عروج پر ہے اور ان خاکوں کی تخلیق میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی فنکارانہ چابکدستی کا بھرپور اظہار ہوا ہے اور اگر بابائے اردو اپنے خاکوں کا منظر نامہ صرف ان دونوں خاکوں پر ہی محدود رکھتے تب بھی ان کا نام خاکہ نگاری کی تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے کافی تھا۔چند ہم عصر کے دیگر خاکوں میں مضمون نگاری کا ڈھب ب اور فنی خصوصیات بات پائی جاتی ہیں یا پھر مکتوب نگاری کی پرچھائیں آئی اور تبصرہ نگاری کی ایک اختصار پسندی ہے لیکن متذکرہ دونوں نو کھا کے صرف اور صرف خاکہ نگاری کے خانے میں آتے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق گودڑی کا لال نور خان کا خاکہ اس طرح کھینچتے ہیں:
”وہ حساب کے کھرے۔بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہر و وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہمدرد اور وضعدار کہاں ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے پر نوجوانوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ اسی طرح نام دیو مالی کا ذکر اس طرح ہے:
”وہ بہت سادہ مزاج بھولا بھالا اور منکسر المزاج تھا۔اس کے چہرے پر بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ پھیلتی رہتی تھی چھوٹے بڑے ہر ایک سے جھک کر ملتا۔ کام سے عشق تھا اور آخری دم تک کام کرتے ہیں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔“
خاکوں کا محرک:
بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے ان خاکوں کا محرک ان خاکوں میں کام کی دھن، سچائی اور شرافت ہیں۔ نور محمد خان بہادری انسانیت کا اصل جوہر ہے۔ نام دیو مالی،”سچائی، نیکی، حسن کسی کی میراث نہیں۔“
چند ہم عصر کی زبان اور بیان پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سید معین الرحمن نے تحریر کیا ہے:
”مولوی عبدالحق صاحب نظر تھے سے انہوں نے انسانی سیرت و پر بڑی پرکھ کی تھی اور اس پر کو لفظوں کا متناسب پیرہن ہم عطا کرنے کی غیر معمولی قدرت اور صلاحیت کے بل بوتے پر انہوں نے بعض بزرگوں اور نیاز مندوں کے وہ مرقعے تراشے ہیں کہ رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔“
……٭……٭……٭……

Leave a Comment