بورڈنگ ہاؤس کے ڈائننگ ہال میں جیننگز میز پر موجود پلیٹوں سے روٹی اور کھانے کے دیگر بچے ہوئے ذرات سمیٹ کر اپنے رومال میں باندھ رہا تھا۔
”یہ پرندوں کے لیے پارسل ہے سر! سردیوں کے زمانے میں پرندوں کو اپنی خوراک ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ میں میز پر گرنے والے اور پلیٹوں میں بچ جانے والے کھانے کو جمع کر کے پرندوں کو کھلاؤں گا۔“
جیننگز نے سر کو اپنی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر وضاحت دی۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم یہ کھانا کسی پلیٹ میں کیوں نہیں جمع کر رہے؟اگر میں ایک پرندہ ہوتا تو تمہارے اس میلے رومال میں سے کچھ بھی کھانا پسند نہیں کرتا۔ اس کو دیکھ کر تو کسی گدھ کی بھوک بھی مر جائے۔“
سر نے کڑی تنقید کی۔
جیننگز نے یہ سن کر مسکراتے ہوئے اپنا رومال، پلاسٹک کی ایک پلیٹ میں خالی کر دیا۔
٭
اگلے ہفتے ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ جمعے کے روز بچوں کو ناشتے میں دلیہ کھانے کو ملتا تھا لیکن اس جمعے ناشتے کی گھنٹی بجنے سے پانچ منٹ قبل اچانک کچھ جلنے کی تیز بو سارے بورڈنگ میں پھیل گئی۔ ساتھ ہی ساتھ باورچی خانے کے دروازے اور کھڑکی سے دھواں نکلتا دکھائی دیا۔
باورچی خانے میں مسز ہیکٹ بری طرح کھانس رہی تھیں اور ان کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ وہ اس وقت ایک بہت بڑی پتیلی کو چولہے سے اتار کے نیچے رکھنے کی کوئی جگہ تلاش کر رہی تھیں جو دھوئیں کی وجہ سے انھیں مل نہیں رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ساری تباہی میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ ان کی ذمہ داری تو روز کھانا لگانا اور برتن دھونا تھی۔ لیکن آج صبح باورچن تیز بخار کے باعث بستر سے نہ نکل سکی،لہٰذا مجبوراً مسز ہیکٹ کو دلیہ پکانا پڑا۔
جب وہ ناشتے کے برتن نکالنے برتنوں کی الماری کی طرف گئیں تو اتنی دیر میں دلیہ نہ صرف ابل گیا بلکہ بری طرح جل بھی گیا۔ نتیجتاً صبح آٹھ بجے جو ناشتا بچوں کے سامنے پیش کیا گیا، وہ کھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کوئی فاقہ زدہ بکری تو شاید اس جلے ہوئے ملغوبے کو شوق سے کھا سکتی تھی لیکن بورڈنگ کے بچے بھوکے ہونے کے باوجود فاقہ زدہ نہیں تھے، سو سارا دلیہ جوں کا توں پڑا رہا۔ کوئی بھی بچہ جلے ہوئے دلیے کا پہلا لقمہ کھانے کے بعد دوسرا لقمہ منہ میں ڈالنے کی ہمت نہ کر سکا۔ ان سب نے مکھن لگی ڈبل روٹی پر گزارا کیا۔ نتیجے کے طور پر ناشتے کے بعد جیننگز کے پاس پرندوں کو ناشتا کرانے کے لیے پوری ایک پتیلی دلیہ موجود تھا۔
”لیکن پرندے تو دلیہ نہیں کھاتے؟ وہ تو صرف روٹی کے ٹکڑے وغیرہ کھاتے ہیں۔“
جیننگز کے دوست نے اعتراض کیا۔
”تمہیں کیسے پتا؟ کیا تم پرندے ہو؟“
جیننگز نے اسے گھورا۔
”اچھا، کھاتے ہوں گے۔ مگر اتنا سارا دلیہ؟ وہ اسے کبھی ختم نہیں کر سکیں گے۔“
جیننگز کے دوست نے دوسرا اعتراض کیا۔
”یہ دیکھو، ابھی سے باہر کتنے سارے پرندے جمع ہو چکے ہیں۔ انھیں پتا ہے کہ یہ ناشتے کا وقت ہے۔ تم فکر نہ کرو! یہ سارا دلیہ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں ختم ہو جائے گا۔“
جیننگز نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کے باہر باغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں واقعی بہت سے پرندے گھاس اور درختوں میں چھپے چہچہا رہے تھے۔ جیننگز کا دوست خاموش ہو گیا۔ ان دونوں نے مل کر79 پلیٹوں میں موجود جلا ہوا دلیہ اکھٹا کیا اور باہر لے چلے۔
”ہمیں سارا دلیہ ایک ہی جگہ نہیں ڈالنا چاہیے ورنہ سب کوے کھا جائیں گے اور چھوٹے پرندوں کو کچھ نہیں مل سکے گا۔“
جیننگز نے کہا۔ اس کے دوست نے اتفاق کیا۔ دونوں دوستوں نے مل کر سارا دلیہ باغ کے بیچ موجود روش پر اچھی طرح پھیلا دیا۔
”یہ ہم نے کچھ زیادہ ہی نہیں پھیلا دیا؟“
جیننگز کے دوست نے حسب معمول کچھ پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ اسمبلی کی گھنٹی بج چکی تھی۔ جیننگز نے اطمینان سے اندر کا رخ کرتے ہوئے کہا،
”فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کھانے کے وقفے سے پہلے کوئی نہیں آئے گا اور اس وقت تک پرندے سب کچھ ہڑپ کر چکے ہوں گے۔“
اندر جاتے ہوئے جلدی میں وہ باغ کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کرنا بھول گئے تھے اور یہ ان کی بدقسمتی تھی کیوں کہ چند ہی منٹ بعد اسکول انچارج کا پالتو بلّا جارج دروازہ کھلا پا کر باہر نکل گیا۔
جارج سنہری رنگ کا ایک صحت مند بلا ہونے کے ساتھ ساتھ پرندوں کا اچھا شکاری بھی تھا۔ اس کی شہرت پر دار آبادی میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ عام طور پر صبح کے ان اوقات میں وہ انچارج کے کمرے میں آتش دان کے سامنے سوتا ہوا پایا جاتا تھا۔ لیکن آج وہ نہ صرف جاگ رہا تھا بلکہ ہواخوری کے لیے باہر بھی نکل چکا تھا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سینکڑوں پروں کی پھڑپھڑاہٹ فضا میں گونج اٹھی۔ نیچے اُتر آنے والے سب پرندے اس کی شکل دیکھتے ہی خوف کے مارے اُڑ چکے تھے۔
جارج نے جلے ہوے دلیے کو سونگھا اور فوراً سر پیچھے ہٹا لیا۔ کوئی غیرت مند بلی اس ملغوبے کو نہیں کھا سکتی تھی۔
”لیکن اگر میں نہیں کھاؤں گا تو کسی اور کو بھی کھانے نہیں دوں گا!“
شرارتی بلا یہ سوچ کر وہیں لمبی تان کے لیٹ گیا۔
”اب دیکھتا ہوں کہ اسے کھانے کون نیچے اترتا ہے؟“
وہ اپنی مونچھوں پر تاؤ دینے لگا۔
دوسری طرف اس صورت حال سے بے خبر جیننگز اپنے دوست کے ساتھ اسمبلی ہال میں پہنچ چکا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ابھی تک یہاں نہیں پہنچے تھے کیوں کہ وہ اس وقت فون پر مصروف تھے۔ کچھ لوگ ان کا بورڈنگ ہاؤس اور اسکول دیکھنے آنا چاہتے تھے۔ جیننگز اور اس کا دوست اگلے اتوار کو مچھلی کے شکار پر جانے کا پروگرام بنانے لگے۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکیں گے!
اسمبلی کے بعد سب بچے اپنی اپنی جماعت میں چلے گئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسکول انچارج کو بتایا:
”اسکول دیکھنے کچھ لوگ آ رہے ہیں۔ وہ صاحب خاصے نخریلے مگر امیر معلوم ہوتے ہیں اور اپنے دو بچوں کو یہاں داخلہ دلانا چاہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے دورے کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے اور وہ مطمئن ہو کر جائیں۔“
٭
ایک گھنٹے بعد جب ہیڈ ماسٹر صاحب ملاقاتیوں کو اسکول کا دورہ کرا رہے تھے، جارج اس وقت بھی دلیے کے ڈھیر کے قریب بیٹھا پہرہ دے رہا تھا۔ سارے پرندے مایوس ہو کر اُڑ چکے تھے۔ تاہم سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ تھی کہ مہمانوں کو کرایا جانے والا دورہ قطعاً اطمینان بخش ثابت نہیں ہو رہا تھا۔
جب ہیڈ ماسٹر صاحب نے جماعت پنجم کا دروازہ کھولا تو اندر سارے طالب علم ایک دوسرے پر ڈسٹر پھینکنے کا مقابلہ کر رہے تھے کیوں کہ ان کے استاد نئے مہمانوں کے استقبال کے لیے چائے، پانی کا انتظام کرنے میں مصروف تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھتے ہی سب بچے اپنی اپنی نشستوں کی طرف گرتے پڑتے بھاگے تاہم اس وقت تک آخری بار پھینکا گیا ڈسٹر مہمانوں کے اوپر چاک کا چورا نچھاور کر چکا تھا۔
اس کے بعد مہمانوں کو آرٹ روم دکھایا گیا جہاں اتفاق سے اسی وقت ایک بچے کے ہاتھ سے پیلے پینٹ سے بھرا جار چھوٹ کر گر پڑا تھا اور فرش گاڑھے پیلے پینٹ سے تربتر تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے منہ سمیت مہمانوں کے جوتے بھی پیلے پڑ چکے تھے۔ انھوں نے شرمندگی سے ہونٹ بھینچتے ہوئے مہمانوں کو آگے چلنے کے لیے کہا۔ مہمانوں نے اگرچہ منہ سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا لیکن ان کے چہروں سے صاف ظاہر تھا کہ اسکول کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کو صورت حال کا ادراک تھا اور وہ مہمانوں کی رائے بدلنے کی پوری طرح کوشش کر رہے تھے۔ اب ان کا رخ ڈائننگ ہال کی طرف تھا۔
”ہمارے اسکول میں بچوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں شہر کے بہترین باورچی موجود ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ بچوں کو صبح غذائیت سے بھرپور ناشتا ملے۔“
ہیڈ ماسٹر صاحب نے ڈائننگ ہال میں داخل ہوتے ہوئے کہا، ”اور اس طرف باغ ہے جہاں بچے لنچ بریک میں کھیلتے ہیں۔“
اُنھوں نے ڈائننگ ہال کے دوسری جانب موجود دروازہ کھولا اور اگلے ہی لمحے مہمانوں کو غذائیت سے بھرپور، بہترین ناشتا باہر روش پر دُور دُور تک چپکا ہوا نظر آ گیا۔
سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔
”اب……اب……میں آپ لوگوں کو سوئمنگ پول دکھاتا ہوں۔“
اُنھوں نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”جی نہیں شکریہ! ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ دراصل ہمیں آج ہی ایک اور اسکول بھی دیکھنے جانا ہے۔ چلیں بیگم؟“
مہمان صاحب نے خشکی سے کہا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب خاموشی سے انھیں دروازے تک چھوڑ کے آئے لیکن اس کے بعد جیننگز اور اس کے دوست پر کیا بیتی، اس کا ذکر اب جانے دیتے ہیں!!!
(ویسے اس معاملے میں قصور تو سارا جارج کا تھا، آپ کا کیا خیال ہے؟)