وہ ایک بزرگ تھا۔ عمل صالح ہوں تو پاک اللہ جوانی میں بھی بزرگی عطا کر دیتا ہے مگر وہ ایک بزرگ تھا۔ اس نے بہت اچھی زندگی گزاری تھی۔ اپنے محکمے کی وہ شان تھا۔ اب وہ ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہا تھالیکن اس کا محکمہ جب بھی کسی مشکل کا شکار ہوتا یا پھر لیبر کی بھرتی ہوتی تو اس کی خدمات ضرور حاصل کی جاتیں۔وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا،اس کے محکمے میں ملازمت کے لیے ایک کرسی خالی تھی اور اس کے ذمہ جائز حق دار تک اس کا حق پہنچانا تھا۔اس نے ایک ہونہار نوجوان کا انتخاب کر لیا تھا مگر ایک نوجوان کا انٹرویو ابھی باقی تھا۔ اجازت ملنے پر وہ نوجوان اعتماد کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور اپنی فائل اس بزرگ کے سامنے رکھ دی۔ بزرگ نے پہلا صفحہ پلٹا تو اسے ایک سفارشی خط نظر آیا۔
”سر…! آپ ان سے بات کر لیں…!“
”کرتا ہوں….!“ بزرگ نے نمبر ملایا، دوسری طرف ایک بڑا آدمی موجود تھا۔ اس کی بات سننے کے بعد بزرگ بولا،
”ملک و ملت کو ہونہار نوجوانوں کی ضرورت ہے… سالوں کی نہیں….!“ سفارشی ٹھس’کارتوس‘ کی مانند ’بندوق‘سے باہر نکل گیا۔ واپسی پر وہ بزرگ مطمئن تھا۔ اس نے حق دار تک اس کا حق پہنچا دیا تھا۔ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا، اس کا ایک سالہ پوتا چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ گر پڑے، اس بزرگ نے لپک کر اپنے پوتے کے ہاتھ تھام لیے۔ یہ منظر دیکھ کر اس کی بہو بولی:
”ابا جی…! آپ آرام کریں،خود ہی چلنا سیکھ لے گا…!“
”میں چلاؤں گا تو راستے پر رہے گا، خود چلے گا تو راستے میں گم ہوجائے گا…!“
بہو کندھے اچکا کر رہ گئی۔ بزرگ کی بات اس کی سمجھ سے باہر تھی…!