بددعا ___ علی اکمل تصور

وہ چاروں اس وقت نہ ہی تو زمین پر تھے اور نہ ہی آسمان پر….

’خود کار‘ کار میں وہ کسی’کار‘کے نہیں رہے تھے۔شیشے بند تھے۔ ہیٹر آن تھا، ایل سی ڈی پر نغمہ چل رہا تھا۔ ووفر سے اٹھنے والی آواز قیامت ڈھا رہی تھی۔ پینے کا دور بھی ساتھ ہی چل رہا تھا۔مست ماحول میں وہ ہر فکر، ہر غم سے آزاد بس اڑے جا رہے تھے۔ ہو… ہا…ہا ہاہا…کی آوازیں کار کے اندر گونج رہی تھیں اور شیشے کی دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ رہی تھیں….
”ایک تماشا دیکھو گے….؟“ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود نوجوان خمار بھری آواز میں بولا۔
”ضرور….ضرور….ضرور….!“اس کے ساتھی چلائے۔دوسرے ہی لمحے کار لہرائی اور پھر ہواہو گئی۔ سڑک پر تماشا بن چکا تھا۔
وہ ایک غریب خوانچہ والا لڑکا تھا۔سب برباد ہوچکا تھا… اس کے خوانچے میں موجود سموسے اور چنا چاٹ سڑک پر بکھرے پڑے تھے۔ وہ سر جھکائے رو رہا تھا۔ پھر اس نے سر اٹھایا، آسمان کی طرف دیکھا اور کانپتی آواز میں بولا،
”بیڑا غرق…!“ مجبوریوں نے غریب کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہوتے ہیں۔ مگر بددعا دینے کے لیے اس کی زبان آزاد ہوتی ہے…!
ایک خطرناک موڑ پر تیز رفتاری کے باعث کار کا ڈرائیور اپنا توازن کھو بیٹھا۔ کار پل کے جنگلے میں سے راستہ بناتے ہوئے کھائی میں جا گری اور پھر خوف ناک دھماکے سے پھٹ گئی۔
وہ چاروں اس وقت بھی… نہ تو زمین پر تھے اور نہ ہی آسمان پر… ایک غریب کی بددعا رنگ لائی تھی۔بیڑا غرق ہوچکا تھا…!

Leave a Comment