جواب: بالِ جبریل:
بانگِ درا اور بالِ جبریل کی اشاعت کے درمیان تقریباً بارہ سال کا وقفہ ہے۔ ان بارہ برسوں میں علامہ اقبال کا کوئی اُردو مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا البتہ فارسی کے دو مجموعے چھپے۔
بالِ جبریل جنوری 1935ء میں طبع ہوئی۔ اس میں وہ اُردو کلام شامل ہے جو علامہ اقبال نے بانگِ درا کی تکمیل سے بالِ جبریل کی اشاعت تک کہا تھا۔ اس لحاظ سے یہ کتاب بہت اہم ہے کہ ان کے فارسی کلام میں جو کچھ صراحت سے بیان ہوا ہے وہی بالِ جبریل میں اشارۃً آ گیا ہے۔
اقبال کی دوسری تصنیف:
بالِ جبریل اقبال کی دُوسری اُردو شعری تصنیف تھی۔ یہ پہلی بار ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ اِس میں شامل منظومات پچھلے نو دس برس میں لکھی جاتی رہیں مگر اُن میں سے زیادہ تر آخری دو تین برس میں لکھی گئیں جب اقبال اپنی دو عظیم فارسی شعری تصانیف زبورِعجم(۱۹۲۷) اور جاویدنامہ (۱۹۳۲)، اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید پر انگریزی خطبات (۱۹۳۰) اور مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس کے خطبہ صدارت (۱۹۳۰) کی تحریر سے فراغت پا چکے تھے۔ بالِ جبریل کو اِن تحریروں کی روشنی میں پڑھنا چاہیے کیونکہ اِس میں اُن کی طرف خفی اور جلی اشارے موجود ہیں۔
بالِ جبریل کی ترتیب:
اقبال نے بالِ جبریل کی نظمیں پہلے ایک بڑے سائز کی بیاض میں لکھیں اور پھر وہاں سے اُنہیں صاف مسودے کی شکل میں دوبارہ لکھا۔ یہ دونوں دستاویزات علامہ اقبال میوزیم (جاویدمنزل) لاہور میں اور ان کی نقول اقبال اکادمی پاکستان میں موجود ہیں۔اقبال کی زندگی میں شائع ہونے والا اس کتاب کا واحد اڈیشن اِسی مسودے کے مطابق تھا۔ اِس کے لیے اُنہوں نے کاتب کو واضح ہدایات دی تھیں یہاں تک کہ خود طے کیا تھا کہ کون سی نظم میں اشعار کے دونوں مصرعے ایک دوسرے کے مقابل اور کون سی نظم میں اوپر نیچے لکھے جائیں گے۔ بالِ جبریل کی ترتیب اُس کی معنوی شکل کا حصہ ہے۔ اُسے نظرانداز کر کے ہم اصل مطلب سے دُور ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ ”بالِ جبریل“ کی ترکیب اقبال نے جاویدنامہ میں فلکِ قمر پر استعمال کی تھی مگر وہاں کسی اور معنی میں تھی کہ نبوت وہ حقیقت ہے جس سے جبریل کے پروں کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معراج سے متعلق اُس حدیث کی طرف اشارہ تھا جب ایک مقام پر جبرئیل علیہ السلام بھی رُک گئے تھے جہاں سے آگے رسول اللہ ﷺکو تنہا جانا تھا۔
کتاب کا عنوان:
البتہ بالِ جبریل کی ترکیب جب کتاب کا عنوان بنتی ہے تو اُس پرغور کرنا ضروری ہے۔ یہ اُس فرشتے کا نام ہے جس کے ذمے پیغمبروں کے پاس وحی لانے کا فریضہ تھا مگر اسلامی تصوف میں جبرئیل کے پَروں کی علامت سے کچھ اور راز بھی وابستہ ہیں۔ اشراقی فلسفے کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول جنہیں ۱۱۹۱ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی فارسی میں اُن کی ایک تصنیف آوازِ پرِ جبرئیل ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ جبرئیل کے دو پَر ہیں جن میں سے دایاں خدا کی روشنی سے منور ہے اور اِسے دنیا سے کوئی کام نہیں۔ سچائی کی روشنی اِسی کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ بایاں پَر جبرئیل کی اپنی ہستی کا نمائندہ ہے لہٰذا اِس کی روشنی پر عدم کے اندھیرے کے دھبے ہیں جیسے چاند کے پُرنوُر چہرے پر داغ۔ اِس بائیں پر کا سایہ پڑتا ہے تو دنیائے وہم و فریب جنم لیتی ہے۔
آوازِ پرِ جبرئیل اقبال کی نظر سے گزری ہو یا نہیں مگر وہ شیخِ مقتول کے فلسفے سے اِتنے واقف ضرور تھے کہ۱۹۰۷ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اُن کی فکر پر تفصیل سے لکھا تھا اور ۱۹۲۹ء میں تشکیلِ جدید والے خطبات میں بھی اُن کا ذکر کیا تھا۔ بالِ جبریل کے عنوان پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ حوالہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جب کبھی اِس موضوع پر تحقیق ہوئی کہ کب کون سی کتب اقبال کے مطالعے میں آئیں تو شائد اِس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ اپنی کتاب کا عنوان تجویز کرتے ہوئے اقبال کے سامنے کون کون سے صوفیانہ خیالات موجود تھے۔ اِس تاریخی معلومات کے بغیر بھی یہ حوالہ دلچسپ اورغورطلب ہے۔
فہرستِ مضامین:
اقبال نے فہرستِ مضامین شامل کرنا مناسب نہیں سمجھی۔ اِس سے پہلے شائع ہونے والی شعری کتابوں میں سے پیامِ مشرق، بانگِ درا اورجاویدنامہ کے شروع میں فہرستیں موجود ہیں جبکہ اسرارورموز اور زبورِعجم میں نہیں ہیں۔ موخرالذکر دراصل مجموعے نہیں بلکہ مسلسل بیانات ہیں۔ بالِ جبریل میں بھی فہرست موجود نہ ہونااِس کتاب کو شروع سے آخر تک ایک ساتھ پڑھنے کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے۔ مثال کے طور پر ناولوں کے شروع میں ابواب کی فہرست عام طور پر نہیں ہوتی مگر افسانوں کے مجموعے میں ضرور ہوتی ہے تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ ناول شروع سے آخر تک مستقل پڑھا جاتا ہے جبکہ افسانوں کے مجموعے میں سے اپنی پسند کا افسانہ نکال کر اُسے پہلے پڑھ لیتے ہیں۔
پیر و مرشد:
بال جبریل میں پیر و مرید کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں علامہ اقبال کی رومی سے قلبی انسیت جھلکتی ہی نہیں بھرپوراندازمیں چھلکتی ہے۔ یہ نظم ایک تخیلاتی مکالمے پر مشتمل ہے جس کے ایک شعرمیں مرید یعنی اقبال اپنے پیر یعنی جلال الدین رومی سے عجز و انکساری سے بوجھل لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں:
”آپ خداکے چاہنے والوں کے سردار ہیں۔“
اقبال اور رومی:
ادبیات عالیہ میں ”مثنوی معنوی“ کو منفرد اور خاص مقام حاصل ہے۔ یہ اسرار دین پر مشتمل علم الکلام ہے جسے مداحین رومی کے حلقہ میں مقدس اور الہامی تصور کیا جاتا ہے اور برصغیرپاک و ہند میں اقبال کے کلام کو بھی قریب قریب یہی مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ اقبال اور رومی دونوں کی شخصیات اس حوالے سے خاصی مماثلت رکھتی ہیں۔
صحبت پیرروم سے ہوا مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف
جاوید نامہ میں اقبال فرماتے ہیں:
پیرِ رومی را رفیقِ راہ ساز
تا خدا بخشد ترا سوز وگداز
شرح او کر دند ادراکس ندید
معنی ء اوچوں غزال از مارمید
رقصِ تن از حرفِ ا و آمو ختند
چشم راز رقص جاں بر دوختند
رقصِ تن در گردش آرد خاک را
رقصِ جاں برہم زند افلاک را
علم و حکم از رقصِ جاں آید بدست
ہم زمیں ہم آسماں آید بدست
رقصِ جاں آموختن کارے بود
غیر حق را سو ختن کارے بُود
رومی سے انسیت:
اقبالیات کا عہد بہ عہد جائزہ لیا جائے، رومی سے انسیت اور فیض کے نقوش پا اقبال کے عہد طفولیت تک جا پہنچتے ہیں۔ جب والد کی عقیدت رومی پدرانہ دروس کی صورت اقبال کو وقتاً فوقتاً منتقل ہوتی رہی اور پھر میر حسن جیسا استاد جس نے اپنی جادو اثر روحانی معلمی کے ذریعے اقبال کو رومی کی محبت بچپن سے ہی دی۔ والد اور استاد کے دروس نے مثنوی روم کو اقبال کے جمالیاتی اور روحانی مزاج کا حصہ بنا دیا کہ رومی کے افکار عالیہ اقبال کے ذاتی خیالات میں غیرشعوری طور پر شامل ہوتے گئے۔ اقبال کی زبان رومی کے پیغام رساں کا کردار ادا کرنے لگی۔ اقبال کو شعوری طور پر شاید اس کا کبھی ادارک بھی نہ ہوا ہو کہ وہ مولانا روم کی تعلیمات ہی کو اپنی فکرگردانتے رہے ہیں۔ اقبال کے والد ماجد بوعلی قلندر کی مثنوی کے سحرمیں گرفتار تھے، وہ چاہتے تھے کہ اقبال ان کے انداز بیان کواپنائیں لیکن اقبال مولانا روم کی مثنوی کے لحن و بحر (Metrical composition) سے اس درجہ متاثر تھے کہ ان کی پہلی فارسی تصنیف میں رومیت کا رنگ سرچڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔
عملیت:
علامہ اقبال امت مسلمہ کو عملیت کی طرف راغب کرتے ہیں، وہ قرآن میں بھی ان آیات کی طرف خاص توجہ مبذول کرواتے ہیں جن کا تعلق تسخیرکائنات سے ہے۔ وہ قران سے ”جدت کردار“ کا تصور دیتے ہیں کہ مطالعہ و تدبر قرآن کردار میں وہ عملی وصف پیدا کرتا ہے جس سے انسان تسخیرکائنات کے چیلنج کو عملاً قبول کرتا ہے اور شاہکاران قدرت کے اسرار و رموز کی تہہ تک پہنچ کر دراصل وہ اس انسان ہی کو دریافت کرلیتا ہے جس پر اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک علم و حکمت کا قرآن کے بعد اگر کوئی ماخذ ہو سکتا ہے تو وہ مثنوی رومی ہے۔ مثنوی کو یہ مقام اور درجہ اقبال ہی کے ہاں ملتا ہے۔ اقبال ہی متقدمین و متاخرین سے سبقت لیتے ہوئے مثنوی سے علم و حکمت کے خزائن دریافت کرنے والے وہ صاحب کردار ہیں جنھوں نے مثنوی کی ان جہتوں کو نمایاں کیا اور آج معتقدین اقبال اسی تناظر میں مثنوی کی علمی دریافتوں میں مصروف عمل ہیں۔
بالِ جبریل کا پہلا حصہ:
بالِ جبریل کا پہلا حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں نظمیں ہیں۔ دونوں حصے علامہ اقبال کی شاعری میں فن کے اعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ جہاں تک افکار و خیالات کا تعلق ہے، ان نظموں اور غزلوں میں وہی کچھ کہا گیا ہے جو اُن کی فارسی کتابوں یا بانگِ درا کے تیسرے دور کی بعض نظموں میں ہے، البتہ اس کتاب میں غزل گوئی اور نظم نگاری کے جو تجربت کیے گئے ہیں، وہ فنِ شعر کے اعتبار سے معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حصہ غزل:
حصہ غزل میں سولہ غزلیں بقیہ غزلوں سے الگ درج کی گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ زیادہ تر مابعد الطبیعاتی موضوعات کو محیط ہیں۔ یعنی خدا، کائنات اور انسان کے تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ ان کے بعض اشعار خاصے دقیق ہیں۔
مغرب کے اثرات:
خودی، عشق، کشمکش، حیات فقر، وجدان اور عقل کا تقابل، اصل اسلام کی طرف واپسی یا دوسرے لفظوں میں ان تمام عناصر کا اسلام سے اخراج جو مسلمانوں نے غیر مذاہب سے لے کر اسلام میں داخل کر لیے ہیں۔ ان کے علاوہ صوفی و ملا کی بے عملی، مغرب کے مشرق پر ہلاکت خیز اثرات، مغربی تعلیم کے نقصانات وغیرہ کو بھی بار بار بڑے زور دار اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔
جدت طرازی:
بالِ جبریل کی غزلیات کی غزلیات اُردو غزل کی پوری تاریخ میں ایک نئی آواز ہیں۔ ان کے اندازِ بیان میں ایسی ایسی جدتیں ہیں جو ان سے پہلے کی غزلیات میں نہیں ہیں۔ ان کا ذخیرہ الفاظ نیا ہے۔ ان کی تشبیہات، استعارے اور تصویریں نئی ہیں۔ ان کی زمینیں نئی ہیں جن میں سینکڑوں نئی تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ جو خیالات پیش کیے گئے ہیں وہ بھی اس سے پہلے غزل میں بیان نہیں ہوئے تھے۔ گویا علامہ اقبال نے غزل کا باطن بھی بدل کر رکھ دیا ہے اور ظاہر بھی۔ یہ صنف غزل میں بہت بڑا تجربہ ہے۔ اس تجربے نے جدید غزل گو شعرا کو بہت متاثر کیا ہے۔ جدید اُردو غزل میں تجربات کی جو افراط نظر آتی ہے، ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ سلسلہ بالِ جبریل کی غزلیات تک جاتا ہے۔ یہ غزلیات اپنی نکتہ آفرینی اور اندازِ بیان کی دل کشی کی وجہ سے بہت متاثر کرتی ہیں۔ چند مثالیں یہ ہیں:
اگرچہ بحر کی موجوں میں مقام ہے اس کا
صفائے پاکی طینت سے ہے گہر کا وضو
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ
اختصار:
بالِ جبریل میں اکثر نظمیں مختصر ہیں مگر تین طویل نظمیں بھی اس میں شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کے بارے میں مختلف نقاد یہ آرا رکھتے ہیں کہ یہ علامہ اقبال اقبال کی بہترین نظم ہے۔ ذوق و شوق، مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ ایسے عظیم کارنامے ہیں جن پر کوئی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ زبان بھی فخر کر سکتی ہے۔ زوق و شوق ایک لاجواب نعتیہ نظم ہے۔ مسجدِ قرطبہ اور ساقی نامہ میں علامہ اقبال کے تمام نظریات کا خلاصہ موجود ہے۔ تینوں نظموں کا خلوص، اندازِ بیان اور موضوع کی ہم آہنفی اور زور بیان ایسا ہے کہ بہت کم یکجا ہو پاتا ہے۔ پھر نظموں کا ربط و تسلس دیدنی ہے۔
مختصر نظموں میں طاتق کی دعا الا رض اللہ لالہ صحرا، زمانہ، شاہین وغیرہ بھی قابلِ ذکر ہیں۔ بالِ جبریل کے آخر میں چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں اظہارِ خیالات براہِ راست کیا گیا ہے مثلاً آزادی افکار، یورپ، سینما، فقر وغیرہ۔ اس اندازِ بیان کو علامہ اقبال نے ضربِ کلیم میں اور بھی چمکایا ہے۔
……٭……٭……