اُفتاد ___ عاطف حسین شاہ

”رول نمبر تیرہ!“
سرغلام یاسین نے حاضری لیتے ہوئے باآوازبلند پکارا۔
”حاضر جناب!“
ایک بچہ تقریباً چیختے ہوئے بولا۔استاد صاحب نے اپنی موٹے شیشوں والی عینک کے اوپر سے دیکھا جو ان کے ستواں ناک کے آخری دہانے پر ٹکی ہوئی تھی۔ خوب تسلّی کرنے کے بعدانھوں نے حاضری کا سلسلہ آگے بڑھایا۔
”رول نمبر چودہ!“
”حاضر جناب!“
اگلے بچے نے بھی اسی طرح چیختے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔حاضری کا یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے ’چھبیس‘ پر جا کر رک گیا۔
”اے اللہ! تیرا لاکھ شکر ہے،آج سب حاضر ہیں۔“
سر یاسین منھ میں ہی بڑبڑائے تھے۔خوشی اُن کے چہرے پر نمایاں تھی مگرنہ جانے کیوں ان کے دل کو پھر بھی تسلّی نہیں ہوپائی تھی۔وہ اپنی نشست سے بمشکل اٹھے اور اپنی جھریوں بھری انگلیوں کی مدد سے بچوں کی گنتی کرنے لگے۔گنتی مکمل کرتے کرتے یاسین صاحب حیرت سے اچھل پڑے۔جماعت میں ایک اضافی طالب علم موجود تھا۔
غلام یاسین صاحب ایک سرکاری سکول میں استاد تھے۔وہ اپنی عمر کا ساٹھواں سال مکمل کرنے کے بالکل قریب تھے۔ اب وہ اِس محکمے سے باعزت سبکدوش ہونا چاہتے تھے۔ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ سرکار اچانک سے سکولوں پر اس قدر دباؤ ڈالے گی کہ ان کا یہ ساٹھواں سال پوری سروس پر بھاری ہوجائے گا۔ہیڈماسٹر صاحب نے اُن کی عمر کا لحاظ رکھا اور نرمی اختیار کرتے ہوئے ان کے ذمے یہ کام لگادیا کہ آپ صرف چوتھی جماعت کی حاضری پوری کریں،پڑھائی کے معاملے میں آپ پرزیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔بظاہر تو یہ نرمی تھی مگر یہ کام پڑھانے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔اب غلام یاسین صاحب روز صبح بچوں کی تعداد پوری کرتے تھے،جس میں اُن کا خون پسینا ایک ہو جاتا۔
”ہماری جماعت میں ستائیسواں بچہ کون ہے؟“ یاسین صاحب نے بھنویں اچکاتے ہوئے کلاس سے پوچھا۔کچھ دیرجماعت پر سکتہ طاری رہا پھر سب یک زبان ہوکربولے:
”اُستاد جی یہ رہا ذیشان…!“
اب ذیشان ان کی گرفت میں آچکاتھا۔وہ اس اچانک حملے سے سہم گیا۔
”ہاں بھئی…آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اپنی جماعت میں کیوں نہیں گئے؟“
سر یاسین نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا۔
”اُف….اُف….اُفتاد جی!“
ذیشان نے اتنا سا جواب دینے میں بھی خاصا وقت لیا تھا۔
”ہائیں…!آپ نے ’اُفتاد‘ کسے کہا ہے؟“
سر یاسین نے تعجب سے پوچھا۔جواب میں ذیشان ان کا منہ تکتا رہ گیا۔
”احتشام علی! ذرا اِدھر آؤ!“احتشام ایک انجانا خوف دل میں لیے سر یاسین کے پاس پہنچ گیا۔
”اِس نے مجھے اُفتاد جی کہا ہے…!کیا تم اس کا معنی جانتے ہو؟“
سریاسین نے احتشام سے ایسے پوچھا جیسے وہ کوئی پروفیسر ہو۔احتشام نے بھی اپنے چھوٹے بھائی کی طرح منہ کھولنے پر اکتفا کیا۔
”اُفتاد…اُفتاد کا مطلب ہوتا ہے ’مصیبت‘یعنی میں مصیبت ہوں!“
احتشام یہ تونہ سمجھ پایا کہ سر پوچھ رہے ہیں یا بتا رہے ہیں مگر اتنا ضرور سمجھ گیا کہ’اُستاد‘ کو’اُفتاد‘بالکل نہیں کہنا چاہیے۔ وہ جواب میں اب بھی خاموش رہا۔
”چلو! اپنے چھوٹے بھائی کو نرسری کلاس میں چھوڑ آؤ۔“
سریاسین نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے احتشام کو حکم دیا۔
احتشام نے ذیشان کا ہاتھ تھاما اور اسے نرسری کلاس کی جانب لے کر چل پڑا۔ذیشان منھ بسورتے ہوئے کچھ ہی قدم چلا پھر اس نے ننھے ننھے مکوں سے احتشام کی تواضع شروع کردی۔احتشام بڑا بھائی ہونے کے ناتے یہ مکے سہتا رہااور اسے گھسیٹتے ہوئے نرسری کلاس میں چھوڑ آیا۔
اگلے دن جب غلام یاسین صاحب نے حاضری والا مرحلہ مکمل کیا تو خوشی نے ایک بار پھر ان کے پاؤں چومے کیوں کہ حاضری کے لیے چھبیس آوازیں بلند ہوئی تھیں۔اب اگلا مرحلہ گنتی کا تھا۔ سر یاسین نے اپنی جگہ پر بیٹھے رہے اور انگلی کے اشارے سے گنتی کرنے لگے۔بچے تعداد میں بھی پورے نکلے۔اس کامیابی پر سریاسین صاحب اس قدر خوش ہوئے کہ شکرانے کے طورپراپنے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اٹھا دیے۔ بچے حیرت سے سریاسین صاحب کو دیکھ رہے تھے۔اِک پل کے لیے پورا کمرا سناٹے میں آ گیا۔ اچانک سر یاسین صاحب کو ایک کھٹکا سنائی دیا۔تمام بچوں کی نظریں بھی اسی سمت گردش کرنے لگیں۔یہ کھٹکا ایک بینچ کے نیچے سے بلند ہوا تھا۔سریاسین صاحب نے بینچ کے نیچے جھانکا تو وہاں انھیں ذیشان دبکا ہوا دکھائی دیا۔
”السلام علیکم!“
سر یاسین نے اپنا ہاتھ ذیشان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ ذیشان نے اس ہاتھ کو تھاما اور دھیرے سے اٹھ کھڑا ہوا۔اب ذیشان چورنظروں سے سریاسین صاحب کی جانب دیکھ رہا تھا۔
”آج پھرآپ اپنی جماعت میں نہیں گئے!!!“
”اُف…اُفتاد جی…“
”اوہو…“سریاسین منھ میں بڑبڑائے۔
”پھر اُفتاد…!!! ذیشان بیٹا،اُفتادجی کہنابری بات ہے۔ اُستاد جی کہتے ہیں۔ چلو اپنی جماعت میں جاؤاور وہاں جاکر ساراسبق یاد کرناپھر مجھے آکرسنانا۔آپ کوایک زبردست سا انعام ملے گا۔“ سریاسین نے ذیشان کو ایک بار پھر نرسری جماعت کا راستہ دکھا دیا۔ذیشان بادل ناخواستہ اپنی جماعت کی جانب چل دیا۔
چھٹی ہونے سے کچھ دیر قبل ذیشان چوتھی جماعت میں داخل ہوا۔اس نے اپنا قاعدہ سریاسین صاحب کے سامنے کیا اور دیا گیا سبق سنادیا۔
”شاباش! یہ ہوئی نا بات! یہ رہا آپ کا انعام۔“
سریاسین نے ذیشان کو چاکلیٹ تھماتے ہوئے کہا۔ذیشان نے مسکراتے ہوئے چاکلیٹ پکڑ لی۔
”اچھا بتاؤ میں کون ہوں؟“
سریاسین نے لاڈکرتے ہوئے پوچھا۔
”آپ اُف…(اپناسرنفی میں ہلاتے ہوئے)نہیں، آپ اُستادجی ہیں۔“
ذیشان نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
”شاباش! آئندہ آپ سیدھا اپنی جماعت میں جانااور چھٹی کے وقت مجھے سبق بھی سنایا کرنا۔ایسا انعام آپ کو روز ملا کرے گا۔ٹھیک ہے نا؟“
”ٹھیک ہے اُستاد جی!“
ذیشان نے چہکتے ہوئے ہامی بھری۔ اس بار ذیشان نے اُستاد کہنا سیکھ لیا تھا۔
اگلے روز جب سریاسین صاحب نے حاضری مکمل کی تو انھیں چوتھی جماعت میں کہیں بھی ذیشان دکھائی نہ دیا۔اب وہ مطمئن تھے کیوں کہ انھوں نے اپنا پرانا تجربہ استعمال کرتے ہوئے مستقبل کے ایک شاہین کو روشن راستے پرچلنا سکھادیا تھا۔اس شاہین کے لیے ’اُستاد‘ اب ایک’اُفتاد‘ ہرگز نہیں تھا۔

Leave a Comment