امن ___ علی اکمل تصور

جشن بہاراں کے اس میلے میں بچوں کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہورہی تھی۔ یہ بچے میری امیدوں کا محور تھے۔ میں ان بچوں کے ساتھ ساتھ تھا۔ اب یہ بچے کھلونوں کے ایک سٹال پر آ کھڑ ے ہوئے۔
یہاں ہر قسم کے کھلونے موجود تھے۔چابی والے… لیور والے… بیٹری سیل وا لے… تمام بچے اب اپنے لیے کھلونے پسند کر رہے تھے اور میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ بچے اپنے لیے کون ساکھلونا پسند کریں گے..! پھر میرا دل ٹوٹ کر رہ گیا! تمام بچوں نے اپنے لیے اسلحہ پسند کیا تھا۔ ان میں کھلونا پستول اور بندوقیں تھیں۔ میرے دل کی کھلتی کلی مرجھا کر رہ گئی۔ مجھے چپ لگ گئی تھی۔ گھر واپسی پر یہ بچے جوش میں تھے۔
”اب ہم جنگ، جنگ کھیلیں گے…!“
”میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں… گولی مار دوں گا…!“
وہ خوش گپیوں میں لگے تھے اور میں نے منہ چھپا لیا تھا۔ میں کھیل کھیل میں بھی بچوں کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر میری پروا کسے تھی۔ گھر پہنچ کر انہوں نے اپنا کھیل کھیلا۔ الیکٹرانک کھلوناپستولوں اور بندوقوں سے روشنیاں نکل رہیں تھیں۔ ٹھاہ…ٹھاہ…دھائیں…دھائیں…تڑ…تڑ…تڑ….میں نے تو اپنے کان بند کر لیے۔
رات کو یہ سب بچے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے ایک ایکشن فلم دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ راکٹ لانچر کی دھائیں دھائیں…مردہ اجسام…کٹی پھٹی لاشیں….بچے تو سہم کر رہ گئے۔ فلم ادھوری چھوڑ کر وہ ایک کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ میں سوگواری کے عالم میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”دیکھا تم نے…؟“
”ہاں…!“
”گولی مارنے سے انسان مر جاتا ہے…؟“
”ہاں…!“
”مرنا اچھی بات نہیں ہے…؟“
”ہاں…!“
”گولی چلانے والے گندے لوگ ہوتے ہیں…؟“
”ہاں…!“
”اب کیا کرنا چاہیے…؟“
وہ سب سوچنے لگے… میں اشتیاق سے ان کی طرف دیکھنے لگا ”یا اللہ…! ان کی سوچ میری سوچ کے مطابق ہو!“ میں نے دعا مانگی۔ پھر میں نے دیکھا۔ ان بچوں نے ’اسلحہ‘ اٹھایا اور دور کھائی میں پھینک دیا۔ میں خوشی سے کھل اٹھا۔انہوں نے میرا انتخاب کیا تھا۔ اس عمر میں اگر ان کی سوچ کا یہ عالم تھا تو میں امید رکھ سکتا تھا کہ بڑے ہو کر بھی وہ یقیناً مجھے اپنے لیے پسند کریں گے۔ پھر میری حکومت ہوگی،امن کی حکومت ہوگی۔

Leave a Comment