324

میرا جی کا اردو ادب میں مقام

سوال: نئی نظم کے حوالے سے میرا جی کا مقام متعین کیجیے۔
سوال: ن م راشد نے میرا جی کو ”ادبی گاندھی“ کا لقب دیا۔ آپ میرا جی کی شاعری اور نثر کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
سوال: ”جنس“ میرا جی کی نظموں کا بہت بڑا موضوع ہے۔ آپ اس حوالے سے بحث کیجیے۔
سوال: میرا جی کی شاعری میں ابہام پایا جاتا ہے۔ آپ کے نزدیک ابہام شاعری کا نقص ہوتا ہے یا حسن؟
سوال: میرا جی نے جدید نظم گوؤں کو مصرع لکھنے کا فن کھایا۔ تبصرہ کیجیے۔

جواب: میرا جی کے حالات زندگی:


میرا جی منشی مہتاب دین سب انجینئر ( ریلوے) کے ہاں 25 مئی 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام محمد ثناء اللہ شانی ڈار تھا۔ والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں کا رخ کرتے رہے، اس لیے میرا جی کی تعلیم ادھوری دی گئی اور آپ میٹرک بھی نہ کر سکے۔ میرا جی نے گجرات کاٹھیا واڑ، بلوچستان، بکھر اور ملتان کی سیاحت کی۔ اس سیاحت کے اثرات ان کی شاعری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ ایک ہندو بنگالن لڑکی میرا سین کے عشق میں گرفتار ہوئے اور ثناء اللہ ڈار سے میرا جی ہو گئے۔ آپ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ آپ نے دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کا مطالعہ کیا۔ ادبی دنیا، ساقی (دہلی ) اور خیال (ممبئی) کی ادارت کی۔ آل انڈیا ریڈیو میں آپ نے ملازمت بھی کی۔ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں آپ نے گیت لکھنے شروع کر دیے۔ 3 نومبر 1949ء کو بمبئی میں کنگ ایڈورڈ ہسپتال میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ آپ کے جنازے میں چار آدمی شریک ہوئے اور کمیٹی کے قبرستان میرن لائن میں آسودہ خاک ہوئے۔

میرا جی کا حلیہ:


میرا جی کی ذات سے بہت سی کہانیاں منسوب کی جاتی ہے۔ ان کی ہیئت کذائی بڑی عجیب و غریب تھی۔ ان کے بال لمبے تھے، مونچھیں بڑی بڑی تھیں، ان کے گلے میں موٹے دانوں کی لمبی مالا پڑی ہوتی تھی۔ کٹی پتلونیں پہنتے تھے۔ اس کے اوپر کہنیوں سے پھٹی ہوئی شیروانی پہنتے۔ جیبوں میں ایک پائپ، تمباکو بھری کاغذ کی پوٹلی، پان کی ڈبیا اور ہومیو پیتھک ادویات ہوتیں۔
اعجاز احمد، میراجی کے حلیے کے بارے میں رقم طراز ہیں:
”زندگی کے آخری سالوں میں اس نے اپنے آپ پر کمال عیاری کے ساتھ ایسی ہیئت طاری کر لی تھی کہ دیکھنے والا اسے کچھ بھی کہہ سکتا تھا۔ سادھو، نیوراتی، مجرم، کسی فیکٹری کا ادنیٰ ملازم، چلتی پھرتی لاش، جب اس نے جوانی میں ہی انتقال کیا تو مرنے کی عمر اس کی ابھی نہ تھی۔ مگر جینا اس کے لیے دو بھر بھی ہو چکا تھا اور شاید بے معنی بھی۔ اس کی زندگی کی داستاں دکھوں کی ایک بغچی ہے، جس میں ہر رنگ کی کترن ملے گی اور شخصیت میں جھوٹ، چالاکی، ذہانت،علم، عیاری، درد سب کچھ ہے۔“

میرا جی کی شاعری:


میرا جی کی زندگی شاعری سے عبارت تھی۔ اس کی زندگی اور شاعری یکجا ہو چکے تھے۔ شاعری کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین، جو ”مشرق و مغرب کے نغمے“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں، ان کے صاحب ذوق اور صاحب مطالعہ ہونے کی دلیل ہیں۔ میراجی روس کے شاعر پشکن، فرانس کے فرانساں ویلاں، مغربی شاعر طامس مور، انگلستان کے جان فیلڈ، فرانس کے بادلیئر، بنگال کے چنڈی داس، جرمن کے ہائنے اور انگلینڈ کے ڈی ایچ لارنس سے متاثر تھے۔ ان کی شاعری میں ان تمام شعرا کے نظریات و خیالات دیکھے جاسکتے ہیں۔


میرا جی…جدید شاعری کے بانی:

میرا جی کا شمار جدید شاعری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جدید شاعری کی ہئیت میں نئے نئے تجربات کیے۔ انہوں نے شاعری کو نئے امکانات اور نئے رجحانات سے مالا مال کیا۔ شمیم احمد اس ضمن میں لکھتے ہیں:
”میرا جی نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ ہر اس بنیادی تصور یا اصول پر شدید ضرب لگا ئیں گے، جو شعر کو ماضی کی روایت سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے سب سے پہلے فارم اور ہئیت پر توجہ کی۔ آزاد نظم کی ہئیت ترکیبی ان تمام اصولوں سے روگردانی کرتی ہے، جس پر ہماری شاعری کی بحور کی بنیاد کھڑی تھی۔ آزاد نظم ہماری شاعری کی ظاہری شکل و شباہت اور خارجی تانے بانے سے اس قدر الگ کھڑی ہے کہ اردو شاعری کے نگار خانہ میں ایک عجوبے سے کم نظر نہیں آتی۔ اقبال کی شاعری ہندوستان کے طول و عرض میں گونج رہی تھی۔“
سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصلِ حیات و ممات
میرا جی کی نظم ”اونچا مکان“ میں نئے تجربات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
اس کا ہے ایک ہی مقصد استادہ کرے
بجرا اعصاب کی تعمیر کا ایک نقشِ عجیب
جس کی صورت سے کراہت آئے اور وہ بن جائے ترا مد مقابل پل میں
ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہو جائے
اور وہ نازنیں بے ساختہ بے لاگ ارادہ کے بغیر
ایک گرتی ہوئی دیوار نظر آنے لگے
شب کے بے روح تماشائی کو بھول کر اپنی تھکن کا نغمہ
مختصر ارزش چشم در سے
ریگ کے قصر کے مانند سبک سار کرے
بحر اعصاب کی تعمیر کا اک نقش عجیب
ایک گرتی ہوئی دیوار کے مانند لچک جائے
ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں کہ میرا جی نے شاعری کا کینوس وسیع کیا ہے۔ وہ نئے امکانات اور نئے رجحانات کے شاعر ہیں لیکن نقادوں نے ان کی ہیئت کذائی، ان کے حلیے اور ان کی عجیب وغریب عادات پر زیادہ خامہ فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ دا ینارا ماریکے ، بودلئیر ، ژان زینے ، ایڈ گرایلن پو اور دوستوفسکی جیسے شاعر، ادیب کج روی اور بے راہ روی کا شکار تھے لیکن ان کے نقادوں نے اپنا زور قلم ان کی بری عادات کی بجائے ان کی تخلیقات کی تفہیم پر صرف کیا۔ مذکورہ بالا ادیب، شاعر میراجی کے پسندیدہ فن کارتھے۔ میرا جی نے ان جیسی عادات اپنا ئیں۔ بہر حال میرا جی نے نئی شاعری کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی میرا جی کی جدید شاعری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میرا جی کی شاعری نے اردو شاعری کی شعری ساخت پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ رموز اوقاف کو کامیابی کے ساتھ شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ آج کا شاعر زبان و بیان، طرز و اسلوب اور جدید میشوں کو جس اعتماد کے ساتھ پیش کر رہا ہے، اس میں میرا جی کا حصہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
نئے رنگ:
جب میرا جی کی شاعری منظر عام پر آئی، ان دونوں ترقی پسند تحریک شاعری کو ایک بنے بنائے سانچے میں ڈھال چکی تھی۔ میرا جی نے ان سانچوں سے انحراف کیا اور اپنی شاعری میں نئے موسم اور نئے رنگ متعارف کروائے۔ انہیں بنے بنائے راستوں پر چلنا گوارا نہ ہوا۔ انہوں نے سیدھی سادی منظر کشی اور تصویر کشی سے گریز کیا اور مدہم نقطوں اور مٹی ہوئی لکیروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کی شاعری میں علامات اور استعارے ملتے ہیں۔ بات کو بڑھانا انہیں خوش نہ آیا بلکہ انہوں نے بات کو سمیٹنا اور پیٹنا پسند کیا۔ میراجی ماضی میں جھانکتے ہیں یعنی ان کی شاعری میں ہندی تہذیب مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ جنس ان کی شاعری میں برتی رو کی طرح دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میرا جی کی شاعری پڑھ کر انسان میٹھا میٹھا دردمحسوس کرتا ہے۔ یہاں فیض کی طرح انقلابی لہریں موجود ہیں۔ ساقی فاروقی ، میراجی کی نی نظم کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:
میرا جی نئ نظم کو خام مواد اور امکانات کا ایک نیا ذخیرہ دے گئے ہیں۔ یہ کام بہت اہم سہی لیکن یہی تو سب کچھ نہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر نہ سہی مگر ایک اہم شاعر ہیں۔ بڑے شاعر بھی نہیں، حالانکہ اس کے امکانات ان میں ضرور تھے۔ میرا جی روایت سے نا آشنا اتنے تو نہیں ہوں گے جتنے وہ اپنی نظموں میں لکھتے ہیں مگر وہ اردو شاعری کی معنوی زبان کو توڑنے کی دھن میں پل بنانا بھول گئے۔ اس لیے ایک خلا کا احساس ہوتا ہے۔ موضوعات اور نئے مواد کی فراہمی میں میرا جی، فیض سے بڑے شاعر ہیں لیکن فیض کی نغمگی اور شعریت جو اچھی شاعری اور بڑی شاعری دونوں کے لیے بے حد ضروری ہے، اس سے ان کا دامن تہی نہ سہی، اتنا وسیع ہر گز نہیں ہے کہ ان چیزوں کے لیے پوری گنجائش نکال لے۔ اگر یہ کمی ان کے یہاں نہ ہوتی تو وہ زیادہ قابل قدر نظم نگار ہوتے۔“
میرا جی کی نظموں میں جنسی پہلو:
اگر شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے منسلک شاعروں میں ایک فرق یہ نمایاں رہا کہ دبستان دہلی کے شاعروں کے ہاں حسن و عشق کے معاملات ایک نکھرے ہوئے ذوق اور لطیف جذبات کے آئینہ دار ہیں، جبکہ لکھنوی شاعر خارجی حسن کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عورت کے ایک ایک عضو اور انگ انگ کی تصویر یں ملتی ہیں۔ اس سے لطافت اور نفاست کا خون ہوتا ہے۔ جب میرا جی نے شاعری شروع کی تو اس وقت فن شاعری میں جنس کا اظہار شجر ممنوعہ تھا۔ اردو غزل میں محبوب کا تذکرہ بھی ایک مذکر کردار کے ذریعے ہوتا تھا۔ میرا جی نے جنسی جذبے کو اپنے فن کا حصہ بنادیا۔ میرا جی نے کچھ اس قسم کا اعلان کیا:
”جنسی دخل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی قوت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں اور جس کے گرد جو آلودگی تہذیب وتمدن نے جمع کر رکھی ہے، وہ مجھے ناگوارگزرتی ہے، اس لیے ردعمل کے طور پر دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصویر کے آئینے میں دیکھتا ہوں، جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو میرا آدرش ہے۔“
عمیق حنفی، میرا جی کی جنسیت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
”میرا سین سے عشق میں ناکامی نے میرا جی کو نام ، مذہب ، معاشرت اور عقائد بدلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ نہ تو تعجب کی بات ہے نہ خلاف معمول۔ نام بدل لینا، ہال بڑھالینا، ہندو دیو مالا کے بعض کردار اور چند علامتیں، اشارے اور استعارے اختیار کر لینا اور اپنے دیس کے ماضی میں پناہ گزین ہو جانا، میرا جی کی ابنارمل طبیعت کا نارمل عمل تھا۔ ایسے حادثوں سے متاثر ہو کر بعض نیوراتی (Neurotic) لوگ خود کشی کر کے دنیا ترک کر دیتے ہیں۔ کچھ جوگ لے لیتے ہیں۔ نام بدلنا ، بال بڑھالینا، میراجی کی خود لذتی میں بڑا معاون ہوا ہوگا۔ اس رد عمل کا سبب میرا جی کے لاشعور کے اند ھے اور خشک کنوئیں میں تلاش کرنا فضول اور بے سود ہے۔ اپنی کایا پلٹ کے متعلق میرا جی نے اپنی نسلی یادوں ، موروثی آرئی ذہانت ، حافظے اور طبیعت کو ضروری طور پر ذمہ دار قرار دیا ہے۔“
میرا جی کی عشق میں ناکامی:
میرا جی کی زندگی میں ایک ہندو بنگالن عورت میراسین داخل ہوئی۔ میرا جی اس کے عشق میں اتنے ڈوب گئے کہ انہیں اپنے ظاہر کی کوئی خبر نہ رہی۔ انہوں نے عشق کی ناکامی کا بدلہ اپنی ذات سے لیا۔ میرا جی غلیظ کپڑے پہنتے۔ انہوں نے بال دیوانوں کی طرح بڑھا لیے تھے۔ عام معاشرے کے لیے وہ قابل نفرت تھے۔ ویسے بھی وہ دوستوں کو اپنے سے بے زار اور ناراض کر دیتے تھے۔ شراب اتنی زیادہ پیتے کہ راستوں اور گزرگاہوں میں گرے ہوتے۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ اوپر سے غلیظ اور کثیف دکھائی دینے والا میراجی اندر سے کتنا لطیف، مفکر اور ملائم ہے۔ قیوم نظر، میراجی کے گہرے دوست تھے، ان کی رائے ملاحظہ کیجیے:
”میرا جی کے ہاں جنس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ویسے تو اس کا ئنات کی ہر شے میں اس کا پایا جانا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن میرا جی نے اپنے آپ کو اس سے ذرا زیادہ ہی وابستہ کر لیا تھا۔ اور پھر اس جذبے کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی سے ہم آہنگ ہونے والے نشیب و فراز نے انہیں مختلف ذہنی کیفیتوں سے آشنا کیا تھا، جو بڑھتے بڑھتے ان گنت ذہنی الجھنوں کا روپ دھار چکی تھیں۔“
نفیس اقبال اس ضمن میں رقم طراز ہیں:
”میرا جی نے اپنے گیتوں (اور نظموں) میں ہندوستان کی دھرتی کی سب سے بڑی جنسی علامت یعنی ایک ہندوستانی عورت کو پیش کیا ہے۔ میرا جی نے عورت کے جسمانی پہلوؤں کو بطور خاص اہمیت دی ہے۔ میرا جی نے محبت کے ان گنت موضوعات میں سے صرف جنسی محبت کا پہلو لیا ہے۔ اور اپنی ذات میں چھپے ہوئے درد، پیار اور جسم کی پکار اور روح کی کشاکش کو لفظوں کا روپ دیا ہے۔ ان کے گیتوں کی بکھری ہوئی کڑیاں اکٹھی کر دی جائیں تو ایک افسانہ مرتب ہو سکتا ہے۔ اس داستان میں اس شخص کی ناکامی کی داستان ہے، جس کی زندگی میں ایک موہنی مورت ستارے کی طرح چمکی اور دل دیوانہ اس کی جگمگاہٹ میں ایسا کھویا کہ ہمیشہ کے لیے انجانی دنیا کے سپنوں میں کھو گیا اور ساری زندگی کھو یا کھویا رہا۔“
برقعے، ایک تھی عورت، تن آسانی، تفاوت راہ، رخصت اور دن کے روپ میں رات کہانی، میرا جی کی ایسی نظمیں ہیں، جس میں میرا جی کی نفسیاتی حالتیں سامنے آتی ہیں۔
ان کی نظم ”برقعے“ کا اقتباس دیکھیے:
پہلے پھیلے ہوئے دھرتی پر کوئی چیز نہ تھی
صرف دو پیڑ کھڑے تھے چپ چاپ
ان کے شاخوں پہ کوئی پتے نہ تھے
ان کو معلوم نہ تھا کیا ہے خزاں کیا ہے بہار
پیڑ نے پیڑ کو جب دیکھا تو پتے نکلے
وہی پتے ، وہی بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے نشاں
یہ نظم آگے چلتی ہے اور میراجی کے جنس کے متعلق اچھوتے خیالات سامنے آتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ” کروٹیں“ کا یہ اقتباس دیکھیے:
میٹھی باتوں کے نیچے جو پاتال ہے
اس کی گہرائی سے ایک زہریلی ناگن اُبھر آئے گی
رینگتے رینگتے اپنی پھنکار سے صاف کر دے گی
چا ہو تو مانو اسے
لیکن اس کی ہر بات میں جھوٹ ہے یوں سمویا ہوا
جیسے بادل کے گھونگھٹ میں کھویا ہوا
چاند کا روپ چبھتی ہوئی تان کے بھیس میں پھوٹ پڑتا ہے چشمہ کی مانند لیکن بجھاتا نہیں پیاس کو
اور بھڑکا کے بے چین کرتا چلا جاتا ہے
میرا جی کی جنسی علامات کو سمجھنا آسان نہیں۔ چاند میرا جی کے ہاں محبت اور الفت کی علامت ہے۔ دن فرد کی غیر جنسی زندگی کو ظاہر کرتا ہے اور رات کا سایہ جنس کی علامت ہے۔ جمیل جالبی میرا جی کی جنسیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
”میرا جی نے جنسی خواہشات کو قلبی رفاقت سے علیحدہ کر کے جنسی زندگی کی ساری سماجی اہمیت کو نظر انداز کر دیا اور اس حد تک انتہا پسند ہو گئے کہ جنسی بے راہ روی اور نراج کو بھی برا نہ سمجھا۔ لب جوئے بار، اونچامکان، حرامی، طوائف اور اغوا جیسی نظمیں اس نظریہ کی شاہد ہیں۔“
ایک نظم ”ایذا کے دن سپنے“ سے یہ اقتباس دیکھیے:
سفید بازو
گداز اپنے
زبان تصور میں حفظ اٹھانے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں
سفید باز و گداز اتنے کہ ان کے چھونے سے
ایک جھجک روکتی چلی جائے ، روک ہی دے
اس نظم میں مکمل عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ میراجی عورت کا تذکر نہیں کر رہا بلکہ وہ تو دن میں سپنا دیکھ رہا ہے۔
ابہام:
میرا جی نے جب نئے موضوعات، نئی علامات اور نئی ہیئت و تراکیب کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا تو ایک ابہام پیدا ہو گیا۔ جب نئے نئے راستے دریافت کیے جارہے ہوں، اظہار و ابلاغ کے چبائے ہوئے نوالوں کو چبانے سے گریز کیا جا رہا ہو، جب شاعری کے ان دیکھے جزیروں کی سمت سفر جاری ہو تو ابہام کا در آنا بعید نہیں ہوتا۔ آغاز میں ابہام تک رسائی حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا، رفتہ رفتہ ابہام خود بخود آسان ہوتا چلا گیا۔ جنس نگاری اور جنس پرستی کی بدولت ابہام پیدا ہوا تھا۔ میرا جی کی شاعری کا انسان بزدل، بے حوصلہ اور احساس کمتری کا شکار ہے۔ افسردگی، اداسی اور پریشانی ان کی شاعری کے نمایاں عناصر ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
جیون کی ندی رک نہ جائے
رک جائے تو رک جائے
رک جائے تو رک جائے
میرا جی اپنی شاعری میں ابہام کے بارے میں لکھتے ہیں:
جدید شاعری کی آمد اور مغربی تعلیم و تہذیب کے اثرات سے شاعری میں ابہام کے بعض نئے پہلو بھی نکل آئے ہیں اور ان پر غور و خوض کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ شاعر کی ذہنی اور نفسی حرکات کو بھی تخلیق فن میں پہلے سے اب بہت زیادہ دخل ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہ لیجیے کہ اب شاعری پہلے کی نسبت، بہت زیادہ ذاتی و انفرادی ہوتی جا رہی ہے۔ شاعر کے ذہن میں ایک خیال یا تصور پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کے اظہار کے لیے عام زبان سے ہٹ کر خاص اور مناسب الفاظ کی تلاش کرتا ہے، جو اس کے تصورات سے پورے طور پر ہم آہنگ ہوں اور اس اجنبیت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی شاعر کے نقطہ نظر سے اپنے ذہن کی حرکت کو شروع کریں ورنہ ہمیں اس کی تخلیق میں ابہام اور اغلاق نظر آئے گا اور اگر چہ وہ ابہام ہمارے سمجھنے میں ہو گا یعنی ہماری ذات میں لیکن ہم اسے بے صبری میں شاعر کے سر منڈھ دیں گے۔“
میرا جی کا نفسیاتی المیہ:
میرا جی کی زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھی۔ اس نے جنسی تسکین کے لیے خود لذتیت جیسی بیمار سوچ کو اپنایا۔ یہی اس کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ وہ عورت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور مریضانہ تخیل کی وادیوں میں پناہ لیتا ہے۔ یہ جذبہ اس کی نظموں میں ایک نفسیاتی المیہ بن کر ابھرتا ہے۔ میرا جی انسان کے لباس کومورد الزام ٹھہراتا ہے کہ اس لباس نے انسان کے اندر جذبہ تجسس کو ابھارا، جب انسان کو لباس کی ضرورت نہیں تھی ، اس وقت اس کی آنکھ کو کچھ دیکھنے کی خواہش نہیں تھی۔
میرا جی کی شاعری میں ہندوستانی عورت بطور علامت سامنے آتی ہے۔ میرا جی اس عورت کے جسمانی خدو خال کی تصویریں بناتا ہے۔ میرا جی کی محبت میں پیار، الفت، روح کی بے چینی اور جسم کی پکار جھلکتی ہے۔ اس کے گیت سن کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک عورت نے کسی جوگی کے دل میں پیار کی جوت جگائی اور پھر پیار کی چنگاری بجھ گئی۔ وہ جوگی اس پیار کو عمر بھر فراموش نہ کر سکا اور اس نے اپنے لاشعور کی زندگی کو اپنالیا۔ میراجی نا آسودہ خواہشات اور کچلی ہوئی جنسیت کی ناؤ میں سوار تھے۔ اس لیے ان کی نفسیاتی الجھنوں نے انہیں بھری محفل میں تنہا کر دیا۔ وہ جنس پر معاشرے کی عائد کردہ پابندیوں کے مخالف ہیں۔ وہ جنس کو فطرت کا ایک تحفہ گردانتے ہیں۔ میرا جی نسوانی پیکر تراشتے ہیں۔ وہ رنگ اور روشنی کا اظہار کرتے ہیں۔ میرا جی کی زندگی عجیب و غریب محرومیوں اور الجھنوں کا موقع ہے۔ نقاد ان کی نا آسودگیوں اور محرومیوں کی بڑی وجہ ان کے ناکام عشق کو گردانتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کہتے ہیں کہ میرا جی خود اذیتی اور نا آسودگی کا شکار تھے ۔ کیا یہ خود اذیتی اور نا آسودگی ان کی اپنی پیدا کردہ تھی۔ ن۔ م۔ راشد یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ وہ دوسروں سے منفرد دکھائی دیں۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی کہ میرا جی نے ظاہری زندگی سے منہ موڑ کر اندر کی دنیا میں پناہ تلاش کی؟ انہوں نے جنسی تسکین کے لیے جو حربہ اختیار کیا، کیا یہ مہذب تھا؟ میراجی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اس میں سیاسی و سماجی جبر اور دباؤ موجود تھا۔ اسی جبر اور دباؤ نے انہیں ایک نیا جزیرہ دریافت کرنے پر مجبور کیا۔
میرا جی ایک دکھی ، خوف زدہ اور تھکے ہوئے انسان ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
”میرا جی کی نظموں میں جو انسان ہمیں ملتا ہے ، وہ ایک دکھی اور تھکا ہوا انسان ہے، جسے اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہے۔ اس لیے وہ چیزوں کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ میرا جی اس بے اعتمادی ، دکھ اور خوف کو جدید تہذیب و تمدن کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ میرا جی کی شاعری کا انسان اس سماج سے اسی لیے متنفر ہے۔ یہ انسان افسردہ فضا میں سانس لیتا ہے۔ مدھر لے میں غمگین نغمے چھیڑتا ہے، جن سے جنوں انگیز گھاؤ جاگ اٹھتے ہیں اور جن سے کیف حیات ملتا ہے۔“
میرا جی کو اپنے گردو پیش میں خلا ہی خلا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظم کی یہ سطور د یکھیے:
بہت دور انسان ٹھٹکا کھڑا ہے
ایسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے
مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے
تخیل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے
عدم اس تصور یہ جھنجھلا رہا ہے
نفس در نفس کا بہانہ بنا ہے
حقیقت کا آئینہ ٹوٹا پڑا ہے
تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے وہ کیا ہے
خلا ہی خلا ہے خلا ہی خلا ہے
میرا جی کی علامت نگاری اور اشاریت:
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو شاعری کا اصل مقصد ابلاغ ہے۔ شاعری میں بات قارئین تک پہنچانے کے لیے تشبیہات ، استعارات، اشاروں اور کنایوں سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ شاعر اپنی بات کو مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اسے کھل کر بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ایسے میں علامتیں اور اشارے اس کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ معاشرے میں جبر، حکومتی دباؤ اور دیگر سماجی بندشیں شاعری کو علامتوں کے استعمال پر مجبور کر دیتی ہیں۔ پڑھنے والے اگر شاعر کی ان علامتوں کو سمجھ لیں تو شاعر کا تخیل واضح ہو جاتا ہے۔ میرا جی کا دور سیاسی سماجی لحاظ سے انتشار سے بھرا ہوا تھا۔ ہمارے اردو ادب میں جدید شاعری کی بنا میرا جی نے رکھی۔ میرا جی نے فرانسیسی شاعروں کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے فرانسیسی شاعروں کی علامتوں کو سمجھا اور پھر اپنی شاعری میں علامتوں کو استعمال کیا۔ میرا جی نے جن مسائل پر لکھا ہے، اگر انہیں صاف صاف لکھ دیا جائے تو وہ شاعری نہیں بن پائے گی۔ میراجی علامتوں میں بڑی سہولت سے بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے تھے۔ وہ الگ بحث ہے کہ ان کی علامتیں غیر واضح اور الجھی ہوئی ہیں۔ ”چاند“ میراجی کی شاعری میں محبت اور ”رات“ جنسی جذبے کی علامت ہے۔ ”ندی“ اور ”کنواں“ عورت کی علامات ہیں۔ میرا جی علامتیں استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ سلیقے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے لاشعور کی داستان علامتوں کے پردے میں سنائی ہے۔ وہ جنس کے اجاڑ رستوں کو بادل ، سمندر اور ٹیلے جیسی علامات کے ذریعے سامنے لاتے ہیں۔ میرا جی اشاروں کنایوں کے حوالے سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہیئت اور آہنگ کے لحاظ سے آزاد نظم کو مکمل طور صرف میراجی نے برتا ہے۔ میرا جی نے جس معاشرے میں جن موضوعات کا راگ چھیڑا، اس معاشرے کی سماعتیں ایسے راگ سے مانوس نہیں تھیں۔ یہ تو اُردو ادب میں ایک بہادری کا کام تھا۔
شعری روایات سے انحراف:
میراجی نے بات اپنے انداز میں کی۔ انہوں نے قدیم شعری روایات سے انحراف کیا اور اپنے لیے نئے نئے راستوں کا انتخاب کیا۔ غالب نے کہا تھا:
ہر چند سبک دست ہوئے بُت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
میرا جی بھی بت شکن ثابت ہوئے۔ انہوں نے اردو شاعری کو نئے نئے موضوعات سے روشناس کرایا۔ ہئیت اور عروض کے تجربات بھی کیے۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ آنے والوں کو اظہار و ابلاغ کے نئے راستے مل گئے۔ میرا جی کی تشبیہات ، استعارات اور علامات اردو شعری روایات سے ہٹ کر تھیں۔ انھوں نے جنس کو موضوع بنایا اور پھر اس کے لیے نئی نئی علامات تخلیق کیں۔ صراحی بھی نئی تھی اور شراب بھی نئی۔ میرا جی کا محبوب موضوع جنس ہے۔ انہوں نے ہندی شعری روایت اپنائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عورت کے جسم و روح کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔

مزید مواد حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

https://asaanurdu.com/meera-ji-ki-shaeree-ka-fani-o-fikri-jaaiza/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

میرا جی کا اردو ادب میں مقام” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں