تحریر: نظیر فاطمہ
”بچو! جلدی سے ناشتا کر لو، پھر میرے ساتھ مل کر سارا کام ختم کرواؤ۔مجھے آج تمھاری نانی امّاں کے گھر جانا ہے۔“امّی جان نے سب بچوں اور اپنے لیے آملیٹ پراٹھے کا ناشتا میز پر رکھا۔ گھڑی کی سوئیاں صبح کے نو بجا رہی تھیں۔اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں تھیں، سو بچّے آج کل دیر سے اُٹھتے تھے۔ ابّا جان اپنے مقرر وقت پر ناشتا کر کے کب کے دفتر جا چکے تھے۔
”خیریت امّی جان؟“ ندا باجی باورچی خانے میں امّی جان کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔
ندا دسویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ اس سے چھوٹے دو بھائی اورسب سے چھوٹی ایک بہن تھی۔
”ندا! تمھاری نانی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔رات کو میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ میں نے سوچا آج میں جا کر ان سے مل آتی ہوں۔“امّی جان نے ٹرے میں چائے کے کپ رکھتے ہوئے بتایا۔
”ندا بیٹے! یہ ٹرے اُٹھا کر میز پر رکھو اور باقی بہن بھائیوں کو بھی جلدی سے بلا لاؤ۔“
ندا ٹرے اُٹھا کر چلی گئی۔ جب تک امّی میز پر آئیں سب اپنی اپنی کرسی پر بیٹھ چکے تھے۔
”چلو بچو! ناشتا شروع کرو۔“ امّی جان نے سب کو اشارہ کیا۔
ناشتے کے بعد سب نے امّی جان کے ساتھ مل کر گھر کے کام ختم کروائے۔
”اچھا بچو! اب میں جانے کی تیاری کرتی ہوں۔ ندا مکس سبزی کا سالن رکھا ہوا ہے ڈونگے میں، چار شامی کباب بھی ہیں فریج میں۔ دوپہر کو روٹی بنا کر کباب تل لینا اور سالن گرم کر کے اس کے ساتھ کھا لینا۔ چھوٹے بہن بھائیوں کا دھیان رکھنا۔ شام تک میں واپس آجاؤں گی۔“امّی جان نے ندا کو تفصیلی ہدایات دیں۔
”امّی! میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔“ سب سے چھوٹی نور نے کہا۔
”نور بیٹا! آج آپ کو نہیں لے جا سکتی،پھر کسی دن ہم سب چلیں گے نانی امّاں سے ملنے۔“
”آج کیوں نہیں؟“ نور نے ضدی لہجے میں کہا۔
”بیٹا! آج نانی اماں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ نانی نے رات کو فون پر بتایا تھا کہ تمھاری ممانی اور بچے بھی موسمی بخار میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں اچھا نہیں لگتا نا کہ ہم سب وہاں چلے جائیں۔میں جاتی ہوں ان سب کے لیے کوئی یخنی وغیرہ بنا دوں گی اور ان کی خیریت بھی معلوم ہو جائے گی۔“ امّی جان نے پیار سے سمجھایا تو نور مان گئی۔
امّی جان کے جانے کے بعد ندا اور اس کے سارے بہن بھائی لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ ندا اور اس کے بھائی آپس میں گپ شپ کرنے لگے اور نور قالین پر بیٹھ کر اپنے کھلونوں سے کھیلنے لگی۔
دوپہر ایک بجے سب نے ”بھوک بھوک“ کا شور مچایا تو ندا اُٹھ گئی۔
”تم لوگ ہاتھ دھو کر میز سیٹ کرو، میں تب تک کھانا تیار کر کے لاتی ہوں۔“
دونوں بھائی اُٹھ گئے البتہ نور بیٹھی رہی۔ ندا باورچی خانے میں گئی۔ اس نے روٹیاں بنا کر ہاٹ پاٹ میں ڈالیں،ہلکی آنچ پر سالن گرم ہونے کے لیے رکھا اورکباب تلنے کے لیے فرائنگ پین میں تیل ڈال کر گرم کرنے لگی۔اسی وقت اطلاعی گھنٹی بجی۔
”ناصر دیکھو ذرا، باہر کون ہے؟“ ندا نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔
ناصر نے دروازہ کھولا تو سامنے ساجدہ خالہ کھڑی تھیں۔ناصر سلام دعا کے بعد ان کو اندر لے آیا۔
”بھئی! تمھاری امّی کدھر ہیں؟“ خالہ نے لاؤنج میں بیٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ندا نے ساجدہ خالہ کی آواز سنی تو چولھے کی آنچ دھیمی کر کے باہر آئی۔ساجدہ خالہ ندا کی امّی کی ماموں زاد بہن اور ان کی گہری دوست تھیں۔اکثر ان سے ملنے آتی رہتی تھیں۔ہمیشہ فون کر کے آتی تھیں۔ آج یوں اچانک آگئی تھیں۔
”السلام علیکم خالہ جان!“
”وعلیکم السلام ندا! امّی کہاں ہیں؟“
”خالہ! امّی تو نانی امّاں کی خیریت معلوم کرنے گئی ہیں۔ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ شام کو آئیں گی۔“
”اللہ خیر کرے، کیا ہو گیا پھوپھو جان کو؟“ ساجدہ خالہ پریشان ہوئیں۔
”موسمی بخار ہے شاید۔“
”اوہ اچھا، اللہ صحت دے انھیں،کل جاؤں گی میں ان کی طرف۔اچھا میں چلتی ہوں پھر، فون کر لیتی آج بھی تو اچھا تھا۔بس اِدھر آئی تھی کسی کام سے تو سوچا تم لوگوں سے ملتے ہوئے جاؤں۔“ساجدہ خالہ اُٹھ گئیں۔
”ارے نہیں خالہ جان! ایسے کیسے جا رہی ہیں آپ۔بیٹھیے پلیز کھانے کا وقت ہے،آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیے۔“ ندا نے پیار اور ادب سے کہا۔
ندا کے اصرار پر خالہ کو ماننا ہی پڑا۔
ندا جلدی سے باورچی خانے میں گئی اور اپنا باقی کام مکمل کر کے بھائیوں کی مدد سے کھانا میز پر لگا دیا۔ ناصر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پلیٹ میں چار کی بجائے پانچ شامی کباب تھے۔
خیر سب خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ ندا خود بھی کھانا کھا رہی تھی اور نور کو بھی کھلا رہی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد خالہ چائے پی کر رخصت ہو گئیں تو ناصر ندا کے سر ہو گیا۔
”باجی! امّی نے کہا تھا کہ کباب چار ہیں مگر پلیٹ میں تو پانچ کباب تھے۔ کباب چار سے پانچ کیسے ہو گئے؟“ناصر نے پوچھا تو ندا ہنسنے لگی۔
”میں نے جادو منتر کیا تو کباب پانچ ہو گئے۔“
”بتائیں نا باجی۔“
ندا یہ بات بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ ناصر ٹلنے والا نہیں تھا۔
ؔ”میں نے ڈبل روٹی کے دو ٹکڑوں کو اوپر نیچے رکھ کر کباب کی شکل دی اور اسے بیسن لگا کر تل لیا۔ خالہ اور تم سب کے بعد وہ کباب میں نے اپنی پلیٹ میں ڈال لیا۔ بس اتنی سی بات تھی۔“ ندا مسکرائی۔
”ہیں تو آپ نے کباب کی بجائے ڈبل روٹی کھائی ہے؟“ناصر حیرت سے بولا۔
”ہاں!دیکھو خالہ ہمارے ساتھ کھانا کھا رہی تھیں۔ہو سکتا تھا کہ پلیٹ میں چار کباب دیکھ کر خالہ کباب نہ لیتیں اور اگر ہم بار بار کہہ کر انھیں کباب دے دیتے تو وہ شرمندہ ہو جاتیں کہ اُنھوں نے ہمارا حصہ کھا لیا۔اس لیے میں نے ایسا کیا۔“ ندا نے پوری بات بتائی۔
”اگر وہ ڈبل روٹی کا ٹکڑا خالہ اُٹھا لیتیں تو؟“ ناصر نے پوچھا۔
”کیسے اُٹھا لیتیں؟ جب میں نے انھیں کباب سرو کیے تو ڈبل روٹی والے کباب کو کنارے پر کر کے اس پر غیر محسوس انداز میں انگوٹھا رکھ دیا تھا تاکہ خالہ اسے اُٹھا نہ سکیں۔“ ندا نے خوش ہو کر بتایا۔
”اس سے اچھا تھا خالہ کھانے کے وقت نہ ہی آتیں۔“ ناصر کو اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اُنھوں نے کباب کھایا اور ندا رہ گئی تھی حالانکہ ندا کو کباب بے حد پسند تھے۔
”بری بات ناصر،ایسے نہیں کہتے۔امّی ابّو کہتے ہیں کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں کرنا چاہیے۔“ندا نے اسے پیار سے سمجھایا۔
شام کو جب امّی واپس آئیں تو ناصر نے انھیں ساری بات بتائی۔
”تم نے آج عقل مندی کا ثبوت دے کر مجھے خوش کر دیا ہے۔آؤ میں تم لوگوں کو ایک واقعہ سناؤں۔“ امّی جان نے ندا کو شاباش دی اور ان سب کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
”ایک دفعہ ایک مسافر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم نے صحابہؓ سے پوچھا: میرے اس مہمان کی خدمت کون کرے گا؟ایک صحابی حضرت ابو طلحہ ؓنے کہا:”میں اس کی خدمت کروں گا“۔ وہ مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے آئے اور اپنے بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کے مہمان ہیں۔کھانا مہمان کی خدمت میں پیش کیا گیا۔دونوں میاں بیوی بھی مہمان کے ساتھ بیٹھ گئے اور چراغ کو بجھا دیا۔چراغ اس لیے بجھا دیا کہ کھانا تھوڑا تھا اور سب کے لیے ناکافی تھا۔مہمان نے آرام سے کھانا کھایا اور میاں بیوی نے یہ ظاہر کیا کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔جب صبح ہوئی تو حضرت ابو طلحہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کی خدمت میں حاضر ہو اتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم نے فرمایا رات تمھاری مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو خوب پسند آئی۔“ امّی نے واقعہ ختم کیا۔
”تم اپنی خالہ کی مہمان نوازی کر کے نیکی کی ہے، آج رات کا کھانا ندا کی پسند سے بنے گا۔یہ ندا کا انعام ہے۔بتاؤ ندا آج رات کو کیا پکائیں؟“ امّی جان نے اعلان کیا۔
”چکن پلاؤ۔“ سب بہن بھائیوں نے یک زبان ہو کر کہا تو امّی مسکرا دیں۔ جانتی تھیں کہ چکن پلاؤ ان سب کو بہت پسند تھا۔
”چلو آج چکن پلاؤ کے ساتھ سوجی کا حلوا بھی بناؤں گی کیونکہ یہ ندا کو بہت ہی پسند ہے۔“ امّی جان نے سب کو پیار سے دیکھ کر کہا تو سب نے”یا ہو“ کا نعرہ لگایا۔امّی رات کے کھانے کی تیاری کے لیے باورچی خانے میں چلی گئیں اور وہ سب کھانے کا انتظار کرنے لگے۔
Allah ki Rehmat kahani
Nazeer Fatima ki kahaniyan
Bed time stories in urdu
Stories for kids in urdu
Stories for elders in urdu
Stories for children in urdu