تحریر:علی اکمل تصور
”امی جان! آپ مجھے کیوں روک رہی ہیں؟“
”اس میں تمھاری بہتری ہے بیٹا!“
”آپ کیوں نہیں سمجھتیں کہ میں اب بچہ نہیں رہا۔“
”میں سمجھتی ہوں بیٹا!سمجھتی ہوں کہ اب تم بڑے ہو گئے ہو مگر تم سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے کہ میں تمھاری بھلائی چاہتی ہوں۔“
”مجھے تو لگتا ہے کہ آپ مجھے قید میں رکھنا چاہتی ہیں۔“
”تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو،ماں ہوں تمھاری۔“
”تو پھر مجھے جانے کی اجازت دیجیے نا! مجھے بھی حق ہے کہ سیر کروں، دنیا دیکھوں۔“
”میں نے تمھیں کب دنیا دیکھنے سے روکا ہے، مگر اپنی دنیا دیکھو نا…تم تو دوسری دنیا دیکھنے کی بات کر رہے ہو، وہ دنیا جو بہت خوف ناک ہے۔ جہاں ایک بار جانے والا کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔“
”میں ضرور واپس لوٹوں گا، کیوں کہ میں کسی کے کام میں مداخلت نہیں کروں گا۔“
”یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ تمھارے ابو بھی یہی کہہ کر گئے تھے، آج تک واپس نہیں لوٹے اور ہم اکیلے رہ گئے۔“
”یہ بات آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی، اب تو میں ضرور جاؤں گا اور ابو کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کروں گا۔“
”میں ڈرتی ہوں کہ کہیں تم بھی اپنے ابو کی طرح کھو نہ جاؤ۔ اب میری زندگی میں تمھارے سوا باقی رہا ہی کون ہے۔ وہ مخلوق بہت خوف ناک ہے، فوراً قید کر لیتی ہے۔“
”آپ مذاق کر رہی ہیں، مجھے ڈرانے کے لیے یہ سب کہہ رہی ہیں۔ بھلا ہم سے زیادہ خوف ناک کون ہو سکتا ہے۔ مین نے بچپن میں اپنے بزرگوں سے کہانیاں سنی ہیں کہ اِس دنیا پر ہماری ہی حکومت تھی۔ ہم جسے چاہتے تھے، اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ اس مخلوق کا جینا مشکل کر رکھا تھا ہم نے، اب کیا ہو گیا؟“
”میں نہیں جانتی کہ اب کیا ہو گیا، میں کبھی اس دنیا میں گئی نہیں ہوں مگر جو خوش قسمتی سے واپس لوٹے ہیں، اُنھوں نے خبر دی ہے کہ اب اس دنیا کی مخلوق پہلے جیسی نہیں رہی، اب وہ دنیا بدل چکی ہے۔“
”اگر ایسا ہے کہ تو پھر مجھے جانے دیجیے، میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں اور اب تو میرے پاس ابو کو لانے کا مقصد بھی ہے۔“
”ٹھیک ہے پھر جاؤ، اپنا خیال رکھنا۔“
”میری پیاری امی! اب میں چلتا ہوں۔“ اتنا کہہ کر وہ ہوا میں اُڑ گیا۔
اُس کا نام بھاشلو تھا۔ وہ کوہِ قاف کے جنات کے سب سے شرارتی قبیلے کا لڑکا تھا۔ کوہِ قاف کے پہاڑوں پر سارا سارا دن آوارہ پھرتا، دوسرے جنات کو تنگ کرتا اور اب اُس کے دل میں انسانی دنیا کی خواہش سما گئی تھی۔ امی سے باتوں باتوں میں اُسے معلوم ہوا تھا کہ اُس کے ابو بھی کسی انسانی بستی میں گئے تھے اور پھر واپس لوٹ کر نہیں آئے۔ اب اُسے ایک مقصد بھی مل گیا تھا۔ اُس نے بچپن میں انسانوں کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ انسان ایک کم زور مخلوق ہے۔ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے، جب کہ جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور جنات میں طاقت زیادہ ہے۔ یہ دھواں بن کر اُڑ سکتے ہیں، غائب ہو سکتے ہیں، شکل بدل سکتے ہیں، لیکن…اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اُس کی امی نے اُسے اتنا کیوں ڈرایا۔ اُس نے سوچ لیا تھا کہ انسانوں کی دنیا میں جا کر وہ شرارتیں بھی کرے گا اور اپنی شکل بھی نہیں بدلے گا۔ اب اُس کا سفر جاری تھا۔ وہ بادلوں کے اوپر پرواز کرر ہا تھا۔ اُس نے غوطہ لگایا، نیچے ایک گنجان شہر موجود تھا۔ یہ صبح کا وقت تھا، وہ آن کی آن میں ایک جگہ پر اُتر گیا اور پھر فوراً ہی اُس نے جناتی صورت اختیار کر لی۔ بڑی بڑی سرخ انگارہ آنکھیں، سیاہ رنگ، سر پر کسی پہاڑی بکرے کی مانند سینگ، موٹے بھدے ہونٹ۔
یہ وقت بچوں کے سکول جانے کا تھا۔ سامنے سے بچوں کی ایک ٹولی آ رہی تھی۔ بچے اُسے دیکھ کر رُک گئے۔ بھاشلو اُمید کر رہا تھا کہ بچے اُسے دیکھ کر ڈر جائیں گے مگر اگلا لمحہ غیر متوقع تھا۔ بھاشلو کو دیکھ کر تمام بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ایک لمحے کے لیے تو بھاشلو پریشان ہو گیا کہ یہ کیا ہوا، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ جدید دور کے بچے ہیں۔ بچوں کو ڈرانے کے لیے بھاشلو نے دوسرا حربہ آزمایا۔ وہ کسی جانور کی طرح غرایا، پھر وہ حیران رہ گیا، بچے بھی غرا کر اُس کی نقل اُتار رہے تھے، پھر بچے اُسے نظر انداز کرتے ہوئے کھیلتے کودتے آگے بڑھ گئے۔
”امی ٹھیک ہی کہتی ہیں۔“ اُس نے جیسے خود سے بات کی، پھر اُس نے انسانی شکل اختیار کر لی۔ اب وہ ایک منچلا لڑکا نظر آ رہا تھا۔
”اب کوئی خطرہ نہیں۔“ اُس نے سوچا۔ اچانک ہی اُس کے کانوں سے ایک تیز سیٹی کی آواز ٹکرائی۔ ساتھ ہی گڑگڑاہٹ بھی سنائی دی۔ اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا اور پھر لرز کر رہ گیا، اُس کے سر کے اوپر سے ہوائی جہاز گزر رہا تھا۔
”لوہے کا پرندہ، لوہے کا پرندہ!“ وہ یہ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا اور سڑک کنارے ایک درخت پر پناہ لی۔ وہ انسانی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ وہ ایک شاخ سے چمٹا ہوا تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہاں وہ خطرے میں ہے۔ اگلا قدم اُٹھانے سے پہلے وہ حالات کا مشاہدہ کرنا چاہتا تھا۔ اب دن کا آغاز ہو چکا تھا۔سڑک پر پوں… پوں… پاں… پاں کرتی گاڑیوں کا طوفان امڈ آیا۔ بھاشلو کے خوف کا عالم تو وہی جانتا تھا۔ ایسی بلائیں تو کوہ قاف میں بھی نہیں تھیں۔ وہ سارا دن درخت پر دُبکا رہا اور یہ بات سوچتا رہا کہ اگر نیچے اُترا تو کسی لال، پیلی ’بلا‘ کے نیچے آ کر کچلا جائے گا، جب کہ ابو کو تلاش بھی کرنا تھا۔ ابو کی تلاش کے لیے اُس کے پاس ایک خاص عمل تھا جس کے ذریعے اُسے علم ہو جاتا کہ ابو کہاں پر ہیں، مگر ابھی تو وہ بس خوف زدہ تھا۔ اُسے امی کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ اب اُسے احساس ہو رہا تھاکہ ابو بھی اس دنیا میں آ کر پھنس گئے ہوں گے۔ اب وہ رات ہونے کا انتظار کر رہا تھا مگر یہاں بھی اُس کا اندازہ غلط تھا۔ جیسے جیسے رات ہو رہی تھی، رونق میں اضافہ ہور ہا تھا۔ اب اُس کے پاس ایک ہی طریقہ تھا۔ وہ دھواں بن کر اُڑ گیا۔ دھویں کی یہ لہر اب کسی ویرانے کی تلاش میں تھی۔ جلد ہی وہ ایک سنسان مقام پر اُتر گیا۔ یہ ایک قبرستان تھا۔ چہار سو خاموشی تھی۔ یہاں تو دن میں آتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں، رات میں کون آتا۔ وہ ایک جگہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اپنے خاص عمل کے ذریعے وہ ابو کو تلاش کرنے لگا۔ پھر اُسے اپنے ابو کے ’سگنل‘ مل گئے۔ وہ کسی گہری تاریک اور تنگ سی جگہ پر موجود تھے۔ اُس نے پوچھا:
”ابو جی! کیسی طبیعت ہے؟“
”کچھ مت پوچھو بیٹا! ایک عرصے سے یہاں قید ہوں۔ میری زندگی اب ایک سزا بن چکی ہے۔“
”ہوا کیا تھا ابو؟“
”کیا بتاؤں، مجھے اپنی طاقت پر بڑا ناز تھا۔ اپنی طاقت کے غرور میں، میں انسانی دنیا میں انسانوں کو تنگ کرنے کے لیے آیا تھا، پھر میں نے ایک انسان کو اپنے قابو میں کر لیا۔ اُس کے بعد میں نے بہت فساد مچایا، گھر والوں کا جینا مشکل کر دیا۔ پھر ایک نیک انسان اِس گھر میں آیا۔ اُس نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ ہماری تخلیق آگ سے ہوئی ہے، پھر بھی مجھے آگ لگ گئی۔ میں فرار ہونا چاہتا تھا، مگر اُس بزرگ نے میرے فرار کے تمام راستے بند کر دیے اور پھر مجھے شیشے کی ایک بوتل میں قید کر دیا۔ اب میں یہاں قید ہوں۔ تم اِس دنیا میں کیوں آئے ہو؟ واپس لوٹ جاؤ میرے بچے!یہاں قدم قدم پر خطرہ ہے۔“
”میں آپ کو لینے آیا ہوں اور آپ کو لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ میں آ رہا ہوں ابو…میں آ رہا ہوں۔“
”رک جاؤ بیٹا! جہاں میں موجود ہوں وہاں تم نہیں آ سکتے۔ واپس لوٹ جاؤ۔“
”نہیں، میں آ رہا ہوں۔ ایسی کون سی جگہ ہے جہاں میں نہیں پہنچ سکتا، میں آ رہا ہوں۔“
”بے وقوفی کی بات مت کرو، یہاں کوئی جن نہیں آ سکتا۔ واپس چلے جاؤ۔“
”میں آ رہا ہوں۔“ بھاشلو نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور پھر اُس نے دوڑ لگا دی۔ جہاں اُس کے ابو موجود تھے، اُسے سمت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ یہ جگہ قریب ہی بہت گہرائی میں تھی۔ پھر وہ ایک مقام پر رُک گیا۔ یہاں خشک میدان ختم ہو رہا تھا اور اُس کی منزل گہرائی میں تھی مگر جانے کیوں اُس کی آنکھوں میں خوف کے سائے اُتر آئے۔ کلیجہ منہ کو آ گیا۔ ابو سچ کہتے تھے۔ وہ کیا، کوہ قاف کا کوئی طاقت ور سے طاقت ور جن بھی اُس کے ابو کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ کسی کو تنگ کرنے اور شرارت کرنے کا انجام بھیانک ہی ہوتا ہے۔ اب وہ انسانی دنیا میں نہیں رُک سکتا تھا۔ وہ برق رفتاری سے کوہ قاف کی طرف پرواز کرنے لگا۔
وہ اپنی امی کے سامنے پہنچ گیا۔ اُسے سلامت دیکھ کر امی خوش تو ہوئیں مگر بھاشلو کے ابو کو ہمراہ نہ دیکھ کر اُنھیں دُکھ ہوا۔ پھر بھاشلو نے اپنی امی کو ساری کہانی سنائی اور آخر میں بولا:
”ابو کی مدد کوئی بھی نہیں کر سکتا، کوئی بھی نہیں۔“
”کیوں؟“ امی بولیں۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بھاشلو بولا:
”امی جان!جہاں خشک میدان ختم ہوتا ہے، وہاں سمندر شروع ہوتا ہے۔ ہم جنات آگ سے بنے ہیں اور پانی آگ کو فنا کر دیتا ہے۔ ابو شیشے کی ایک بوتل میں قید ہیں اور بوتل سمندر کی تہہ میں موجود ہے۔ جب قدرت کو منظور ہو گا تب ابو کو رہائی ملے گی۔ اُس وقت اُنھیں شرارت کرنے اور انسانی مخلوق کو تنگ کرنے کی سزا مل رہی ہے۔“
بھاشلو کی باتیں سن کر امی کو دکھ ہوا مگر اس بات کی خوشی بھی ہوئی کہ کوہ قاف سے ایک شرارتی جن لڑکا انسانوں کی بستی میں گیا مگر اب جب جو لوٹا تو وہ ایک اچھا لڑکا بن چکا تھا۔ کیوں کہ اُس نے مخلوق کو تنگ کرنے والے کا انجام دیکھ لیا تھا۔