بوڑھا گورکن…خوف ناک کہانی

تحریر:فلک زاہد

”موت برحق ہے، ایک دن تو بہرحال ضرور آنی ہے۔“ بوڑھے گورکن نے ایک سرد آہ بھر کر کہا اور پھر اپنے پالتو کتے ٹامی سے مخاطب ہوا:
”ٹامی! تم تو جانتے ہی ہو کچھ لمحوں کے بعد پھر سے ہیلووین کی ہولناک رات کا آغاز ہوجائے گا۔“
ٹامی زبان نکالے اس کی بات اس انداز سے سن رہا تھا جیسے سب سمجھ رہا ہو۔
”کچھ کہہ نہیں سکتے، ہم ہر سال کی طرح اس بار بھی زندہ بچ پائیں گے یا نہیں؟ کیوں ٹامی تم کیا کہتے ہو؟“
بوڑھے گورکن کی باتیں سن کر ٹامی نے رونی سی آواز نکال کر سر کو اداسی سے جھکا لیا۔ شاید وہ آنے والی رات کی ہولناکی سے سہما اور گھبرایا ہوا تھا۔
بوڑھا گورکن رات کی تنہائی میں اس وقت اپنے پالتو کتے ٹامی سے مخاطب تھا جو عرصہ دراز سے اس کی تنہائیوں کا بہترین ساتھی تھا۔ یہی ایک رفیق تھا جو اس کی خوشی میں خوش اور غم میں اس کے ساتھ روتا تھا۔ وہ اس کا وفادار دوست و رازداں تھا۔
”ارے ٹامی تم تو ابھی سے گھبرا گئے۔ نہ جانے آج کی رات ہمارے لیے کیا قسمت لکھے ہوئے ہے؟ کیا معلوم اس بار بھی ہم ان شیطانوں کو چکما دینے میں کامیاب ہو جائیں جیسے ہمیشہ دیتے آئے ہیں یا پھر اس بار وہ شیطان ہمیں چکما دے ڈالیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن میرے عزیز دوست! میں تمھارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، ہر اس پل کے لیے جب مجھے کسی کی ضرورت تھی اور تم میرے پاس تھے۔ تم نے اس سارے عرصے میں میرا خوب ساتھ نبھایا۔ میں اپنی ساری زندگی کے لیے تمہارا احسان مند ہوں۔“بوڑھے گورگن نے کہا تو ٹامی جوش سے اپنی دم کو ادھر ادھر ہلانے لگا اور زبان باہر نکال کر زور زور سے ہانپنے لگا۔ بوڑھے گورگن نے آگے بڑھ کر ٹامی کے سر کو شفقت سے سہلایا اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ پھر وہ صندوق سے کچھ چیزیں نکالنے لگا۔
”جیسا کہ تم جانتے ہو آج ہیلووین کی رات ہے یعنی آج پھر سے مردے قبروں سے نکل کر زندہ ہو جائیں گے۔ ہر بدروح آج رات انتقام کے لیے یا پھر کسی زندہ انسان کا خون پینے کے لیے بےچین ہو گی مگر ہم ہمیشہ کی طرح ان بدروحوں کو پھر سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوں گے، ہاہاہا۔“ بوڑھے گورکن کے بھاری قہقہے قبرستان میں موجود اس چھوٹی سی جھونپڑی میں گونجنے لگے۔
”میرے ہاتھ میں لہسن کے غنچے ہیں، میں ان کو دروازوں اور کھڑکیوں کے گرد رکھ رہا ہوں تا کہ آج رات کوئی مردہ، بدروح، چڑیل وغیرہ ہماری اس جھونپڑی کے اندر داخل نہ ہو سکے۔“ بوڑھے گورکن نے کہہ کر لہسن کے غنچوں کو جھونپڑی کی واحد کھڑکی اور دروازے کے گرد اچھے سے باندھ کر حصار قائم کر دیا۔ اس کے بعد اس نے بڑی سی چاندی کی صلیب صندوق سے نکال کر سامنے لکڑی کی چھوٹی سی میز پر رکھ دی اور کلہاڑی بھی اس کے ساتھ ہی رکھ چھوڑی۔
”ہمارا کام مکمل ہوچکا ٹامی! اب ہمیں آرام کرنا چاہیے۔“ بوڑھے گورکن نے کہہ کر آخری بار دروازے کو چیک کیا، وہ اچھے سے بند تھا۔ اس کے بعد کھڑکی بند کی اور پھر جھونپڑی میں موجود واحد لالٹین بجھا دی جس سے جھونپڑی میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔
—°°°—
ہیلووین کی ہولناک رات کا آغاز ہوچکا تھا۔ شہر میں تو ہیلووین کی رونقیں عروج پر تھیں مگر شہرِ خموشاں میں ہیلووین کی رات خود میں تمام تر خوفناکی، وحشت اور دہشت لیے ہوئے تھی۔ آج کی رات قبرستان مردہ نہیں تھا بلکہ آج کی رات قبریں گویا سانس لے رہی تھیں۔ ہر قبر کی ایک الگ کہانی و داستاں تھی۔ زیادہ تر قبریں بہت قدیم اور خستہ تھیں جن کے کتبے ٹوٹے ہوئے تھے۔ چند قبریں نئی بھی تھیں جو اپنے اندر بےپناہ پراسراریت لیے ہوئے تھیں۔ آج آسمان پر چاند بھی کالے بادلوں کی اوٹ میں ڈرا سہما بیٹھا ہوا تھا جس وجہ سے اس کی چاندنی پر رات کا گہرا اندھیرا غالب تھا۔ اس گھمبیر سناٹے اور اندھیرے میں قبروں کے کتبے عجیب عفریت نما لگ رہے تھے۔ قدیم و بوڑھے درخت الگ ہی سر جھکائے ماتم کناں تھے۔ یہ ایک قدیم وسیع و عریض قبرستان تھا جس کا واحد گورکن وہ بوڑھا آدمی تھا جو اس وقت قبرستان کی واحد جھونپڑی میں اپنے پالتو کتے ٹامی کے ساتھ پڑا سو رہا تھا۔ سالہا سال سے آباد یہ قبرستان اس وقت رات کے پرہول اندھیرے میں سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اس دلدوز سناٹے کو دور کسی آوارہ کتے کی آواز نے چیرا جو کسی بھیڑیے کی طرح رویا تھا۔ اس کی پکار کے جواب میں جھونپڑی میں موجود ٹامی جو رات کی خوفناکی کے باعث اب تک سو نہیں سکا تھا، اس نے بھی اسی انداز میں منہ کو اوپر اٹھا کر رونی سے آواز نکالی۔ اس کے اس طرح بولنے پر بوڑھا گورکن ہڑبڑاتا ہوا نیند سے جاگ گیا اور اس نے پاس پڑی لالٹین جلائی۔جھونپڑی میں روشنی ہوئی تو ڈرے سہمے ٹامی کی گویا جان میں جان آئی اور وہ چاروں ٹانگوں پر کھڑا ہوکر بوڑھے گورگن کی طرف دیکھ کر ہانپنے لگا۔ بوڑھے گورگن نے جو اس کی یہ حالت دیکھی تو کہنے لگا:
”میں جانتا ہوں تم خوف زدہ ہو اور سو نہیں پا رہے لیکن میں تمہیں بتا بھی چکا ہوں اور تمہارے سامنے حفاظت کے حصار بھی باندھ چکا ہوں تو پھر کیا پریشانی ہے؟“
معاً باہر زور سے بادل گرجے اور بجلی بھی اتنی زور سے کڑکی کہ ٹامی سہم کر بوڑھے گورکن کی ٹانگوں سے آ کر لپٹ گیا۔ باہر یک دم ہی تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے تھے جن سے قدیم و بوڑھے درختوں کی شاخیں بری طرح جھولنے لگی تھیں۔ موسم کے تیور خطرناک حد تک خراب ہو چلے تھے۔ تیز ہوائیں طوفان کا روپ دھارنے لگی تھیں۔ بادلوں کی گرج سماعت شکن تھی اور بجلی اس قوت سے چمکتی تھی کہ لحظہ بھر کے لیے آنکھیں چندھیا سی جاتی تھیں۔
”ڈرو نہیں پیارے ٹامی، کچھ نہیں ہوتا۔ یہ رات بھی آخر گزر ہی جانی ہے، چاہے جتنی مرضی خوفناک ہو۔“ بوڑھا گورکن کہہ کر ٹامی کے سر کو تسلی کے انداز میں سہلانے لگا۔
دفعتاً رات کے اس پہر کوئی زور سے دروازہ پیٹنے لگا۔ بوڑھے گورکن نے ہراساں نگاہوں سے دروازے کی جانب دیکھا۔ اس کا دل اس کی پسلیوں میں شدت سے دھڑکنے لگا تھا۔ دروازہ پیٹے جانے کا انداز ایسا تھا گویا باہر جو کوئی بھی تھا بہت عجلت میں تھا۔ بوڑھے گورکن نے اپنی بھاری مگر کرخت آواز کے ساتھ باآواز بلند پوچھا:
”کون ہے؟“
”گورگن انکل یہ میں ہوں سیم۔ جلدی باہر آئیے ایک ضروری کام ہے۔“دروازے کے باہر سے ایک لڑکے کی آواز ابھری جس کی آواز میں گھبراہٹ و سراسیمگی نمایاں تھی۔
سیم کی آواز سن کر بوڑھے گورکن کی جان میں جان آئی مگر اگلے ہی لمحے اس کی پیشانی پر ناگواری کی شکنیں ابھر آئیں۔
”کیا کروں میں اس لڑکے کا، جب دیکھو کوئی نئی مصیبت کھڑی کر کے آجاتا ہے۔“ بوڑھا گورکن غصے سے بڑبڑاتا ہوا میز کی جانب بڑھا۔ میز پر موجود چاندی کی صلیب اٹھا کر گلے میں پہنی اور پھر لالٹین بائیں ہاتھ میں اٹھا کر دروازے کی جانب بڑھا۔ دروازے کے گرد لہسن کے غنچوں سے قائم کردہ حصار توڑ کر لہسن کے وہ غنچے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈالے اور دروازہ کھول دیا۔ لکڑی کا بنا جھونپڑی کا وہ خستہ و کمزور دروازہ چرچراہٹ کی آواز سے کھل گیا۔ ٹامی بھی سہما ہوا بوڑھے گورکن کی ٹانگوں سے لپٹا لالٹین کی روشنی میں نووارد کو دیکھ رہا تھا۔ آنے والا اکیس بائیس سالہ نوجوان تھا جو ہیلووین کے کسی عجیب و غریب لباس کی بجائے عام پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں۔
”بولو کون سی مصیبت نازل ہو گئی ہے جو رات کے اس پہر آ دھمکے ہو۔“ بوڑھا گورکن ہنوز غصے سے بولا۔
”گورکن انکل ایک تو تم ہر وقت غصے میں رہتے ہو۔ اب سنو! ہیلووین پارٹی کے دوران اپنا ایک لڑکے سے جھگڑا ہو گیا۔ میرا دماغ گھوم گیا اور وہ مارا گیا۔ اب اس کی لاش کو ٹھکانے لگانا ہے۔ منہ مانگے دام دوں گا۔“
وہ کھلنڈرا اور لاابالی سا نوجوان لاپروائی سے بولا۔
”تم جیسے شخص سے یہی امید تھی مجھے، بولو! کہاں ہے لاش؟“ بوڑھا گورکن غصے و ناگواری سے بولا۔
وہ لڑکا ہنسا۔ ”آج صبح جس لڑکی کو دفنایا ہے اس کی قبر کے پاس رکھی ہے لاش۔“
”ٹھیک ہے…تم جاؤ وہاں، میں قبر کھودنے کے لیے کدال وغیرہ لے کر آتا ہوں۔“ بوڑھے گورگن نے کہا اور ایک تھیلے میں ضروری ساز و سامان رکھنے لگا۔ اس کام سے فراغت پانے کے بعد بوڑھا گورکن لالٹین اور تھیلا اٹھائے جھونپڑی سے باہر چلا آیا۔ ٹامی بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی تھا۔ وہ آج صبح ہی دفنائی جانے والی لڑکی کی تازہ قبر کی جانب چلنے لگا۔ ٹامی اس کے ساتھ ساتھ ہی چل رہا تھا۔ موسم کے خراب تیور اس پر اچھے خاصے اثر انداز ہوئے پڑے تھے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد بوڑھا گورکن جب اس تازہ قبر کے پاس پہنچا تو وہاں نہ کوئی لاش تھی نہ ہی دور دور تک اس لڑکے سیم کا کوئی اتا پتا تھا۔
”کہاں رہ گیا یہ کم بخت؟“ بوڑھے گورکن کا پارہ چڑھنے لگا تھا۔
اچانک کچھ فاصلے سے کئی لوگوں کی آوازیں ابھرنے لگیں، یوں لگتا تھا گویا وہ سب مل کر آپس میں لڑ رہے ہوں۔ بوڑھا گورکن ساز و سامان سے لدا تھیلا وہیں چھوڑ کر آوازوں کی سمت کا تعین کر کے اس جانب چل پڑا۔ ٹامی بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں لالٹین کی روشنی میں قبرستان کے اس حصے کی جانب بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ اندھیرے میں چار پانچ لوگ مل کر کسی ایک شخص پر بری طرح تشدد کر رہے ہیں۔ وہ شخص زمین پر گرا پڑا تھا اور وہ سب لوگ مل کر لاتوں گھونسوں سے اس کی درگت بنا رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے منہ سے یہ جملے بھی ادا کر رہے تھے:
”اس شخص کی وجہ سے ہم ناحق مارے گئے۔ آج ہاتھ آ گیا ہے تو چھوڑیں گے نہیں۔“
بوڑھے گورگن نے جو یہ صورتِ حال دیکھی تو اس نے باآواز بلند ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا:
”رک جاؤ تم سب۔ کون ہو تم لوگ اور اس بے چارے کو اتنی بری طرح کیوں پیٹ رہے ہو؟“
بوڑھے گورگن کے چلانے پر وہ سبھی اس شخص کو پیٹنے سے رک گئے اور بوڑھے گورگن کی جانب پلٹے۔ لالٹین کی زرد و مدھم روشنی میں بوڑھے گورگن نے جو ان سب افراد کے چہروں اور زمین پر گرے شخص کو دیکھا تو خوف سے اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ ٹامی بھی سہم کر گویا رونے لگا۔
وہ سب کے سب سفید کفن میں ملبوس تھے۔ ان کے چہرے لٹھے کی مانند سفید تھے۔ آنکھوں کی جگہ دو سیاہ گڑھے تھے جن میں ہلکی سی بھی سفیدی نہیں تھی۔ یہ سب وہ مردہ لوگ تھے جنہیں آج سے کئی سال قبل بوڑھے گورگن نے ایک گینگ سے موٹی رقم کے عوض اپنے ہاتھوں سے رات کے اندھیرے میں قبرستان کی اس سیاہ مٹی کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ سبھی لوگ بےقصور تھے۔ انہیں ناجائز بے ہوشی کی حالت میں زندہ دفن کیا گیا تھا اور یہ بات یہ بوڑھا گورگن اچھے سے جانتا تھا۔ ہیلووین کی رات کا آغاز ہوچکا تھا چنانچہ قبرستان کے تمام مردے اپنا بدلہ لینے کے لیے جی اٹھے تھے۔ زمین پر گرے شخص کو دیکھ کر تو بوڑھے گورگن کی آنکھیں خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ وہ شخص بوڑھا گورگن خود تھا جو زمین پر خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس سارے منظر کو دیکھ کر بوڑھے گورکن کو ساری بات کی سمجھ آ گئی تھی۔ روحیں اس بار اس کو چکما دے کر جھونپڑی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ یعنی وہ لڑکا سیم خود نہیں آیا تھا بلکہ کوئی روح اس کا روپ دھار کر بوڑھے گورگن کا قائم کردہ حصار توڑنے میں کامیاب ہو چکی تھی اور بوڑھا گورکن آج پہلی بار ان کے جال میں پھنس چکا تھا۔ بوڑھے گورگن نے فوراً سے پہلے اپنی جیبوں کو ٹٹولا، وہاں لہسن کے غنچے موجود پا کر اس کی جان میں جان آئی اور پھر اس کے گلے میں صلیب بھی لٹک رہی تھی۔
وہ تمام مردے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر زور سے چلائے۔ ان کی آواز اس قدر دہشت ناک تھی کہ بوڑھا گورگن اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنا کر الٹے قدموں وہاں سے پلٹا اور اپنی جھونپڑی کی جانب جانے والے راستے کی طرف دوڑ لگا دی۔ ٹامی بھی اس کے ساتھ ہی دوڑا تھا۔ بوڑھے گورگن کے اندر خلافِ معمول پھرتی امڈ آئی تھی۔ جب موت سر پر کھڑی ہو تو انسان زندگی بچانے کے لیے آخری سانس تک تگ و دو کرتا ہے۔ بوڑھے گورگن کو بھی اپنی زندگی محبوب تھی چاہے وہ بوڑھا ہوچکا تھا، پاؤں قبر میں لٹکائے بیٹھا تھا مگر وہ ان روحوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر کر عبرت کا نشان نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس کی ساری زندگی اسی قبرستان میں گزر گئی تھی۔ قبرستان کی اس گھور تاریکی میں اس نے ایسے ایسے ہولناک حادثات رونما ہوتے دیکھے تھے کہ اگر عام انسان دیکھ لے تو اس کی روح تک کانپ جائے مگر وہ ایک گورگن تھا، اپنی جوانی کے دنوں سے وہ کئی ناجائز دھندوں میں ملوث رہا تھا۔ اس نے اپنے قبرستان میں بہت سے غلط لوگوں کو کئی غلط کاموں کی اجازت دے رکھی تھی جن کے بدلے میں وہ ان سے موٹی رقم بٹورتا تھا۔ اس لیے ہر سال ہیلووین کی رات کو وہ اپنی حفاظت کا خصوصی انتظام کرتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انتقام کی پیاسی روحیں اس کی جان لینے کی ہر ممکن کوشش کریں گی لیکن اس بار وہ ان کے فریب میں آ گیا تھا، لہٰذا اسے اپنی آخری سانس تک ان روحوں سے مقابلہ کرنا تھا۔ اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرنی تھی۔ وہ آسانی سے ہار نہیں مان سکتا تھا چنانچہ وہ دیوانہ وار بھاگتا رہا۔ اس کی رفتار اپنی عمر کی نسبت غیر معمولی تیز تھی۔ ٹامی بھی زبان کو باہر لٹکائے اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا مگر یہ کیا؟ اس بوڑھے گورکن نے اس وسیع و عریض قبرستان میں خود کو گم پایا۔ اسے اپنی جھونپڑی کہیں نہیں مل رہی تھی نہ ہی رات کی اس گھور تاریکی میں دور دور تک کہیں دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا؟ وہ اس قبرستان کے چپے چپے سے واقف تھا۔ جوانی سے لے کر اب تک ایک طویل عمر اس نے ان قبروں کے درمیان گزاری تھی۔ بھلے اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا، اس کی نظریں کمزور ہوچکی تھیں مگر اب بھی رات کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آنکھیں بند کرکے وہ کسی قبر کی بھی نشاندہی کر سکتا تھا اور آنے والوں کی رہنمائی کر سکتا تھا۔ تو پھر ایسا کیسے ممکن تھا کہ اسے اپنی جھونپڑی دکھائی نہ دے؟ یقیناً یہ روحوں کا فریب نظر تھا۔ انہوں نے اس کی نگاہوں سے جھونپڑی کو اوجھل کر دیا تھا۔ خزاں کی خنکی بھری رات میں اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں اتر آئیں۔ اب صحیح معنوں میں اس کا دل خوف سے دھڑکنے لگا تھا اور ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑنے لگی تھی۔ قبرستان کا ماحول تو ویسے ہی سرد ہوتا ہے، اوپر سے اکتوبر کی اس ہیلووین شب نے اس سرد ماحول میں کچھ اور اضافہ کر دیا تھا۔ تاحد نگاہ صرف قبریں ہی قبریں تھیں جن کے کتبے دل پر ہیبت طاری کرتے تھے۔ وہ بوڑھا گورکن جس نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ ان مردہ لوگوں میں گزارا تھا آج اس کا سامنا حقیقی خوف سے ہوا تھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ بدحواسی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا رہا مگر چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے، کہاں جائے۔ یکبارگی اسے خیال آیا کہ اسے قبرستان سے ہی باہر نکل جانا چاہیے۔ اس خیال کے تحت وہ قبرستان سے باہر جانے والے راستے کی طرف لپکا کہ معاً اس کے پیر کسی چیز سے ٹکرائے اور وہ منہ کے بل زمین پر آ گرا۔ لالٹین اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر کچھ فاصلے پر جا گری۔ اس نے جو لیٹے لیٹے فوری مڑ کر دیکھا تو دہشت کا خوفناک ناگ کنڈلی مارے اس کے دل میں آ بیٹھا۔ آسمان پر بھی بادل شیر کی مانند دہاڑے تھے اور بجلی بھی پوری قوت سے آسمان کا سینہ چیرتی ہوئی چمکی تھی جس کی روشنی میں ٹامی نے بھی اسے دیکھا اور وہ خوف کے مارے بری طرح بھونکنے لگا۔ وہ سفید کفن میں ملبوس ایک مردہ عورت تھی جو قبر سے آدھی باہر نکلی ہوئی تھی۔ اس کے بال لمبے، گھنے اور سیاہ تھے۔ اسی نے اپنے سرد مگر سخت ہاتھوں سے بوڑھے گورکن کا پیر مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا جس کے باعث وہ ٹھوکر کھا کر اس بری طرح سے گرا تھا۔ بوڑھا گورگن اسے دیکھ کر حلق پھاڑ کر چلایا جس کے ساتھ ہی وہ عورت اونچے اونچے قہقہے لگانے لگی۔ بوڑھا گورکن اس کی گرفت سے اپنا پاؤں چھڑوانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا مگر عورت کی گرفت مضبوط تھی۔ جبکہ ٹامی بھی بوڑھے گورکن کا کوٹ اپنے منہ میں لے کر اس کو پیچھے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ عورت مسلسل بلند و بانگ قہقہے لگا رہی تھی اور اس کے یہ بےہنگم قہقہے رات کی اس تاریکی میں اور قبرستان کی اس خاموش میں ماحول کو مزید دہشت ناک بنا رہے تھے۔ بوڑھا گورکن اس عورت کو اچھے سے پہچانتا تھا۔ یہ وہ عورت تھی جس کی قبر کے ساتھ بوڑھے گورکن نے ایک کالا جادو کرنے والے شخص کو چند روپے کی خاطر بےحرمتی کرنے کی اجازت دی تھی۔ آج یہ عورت بھی اپنا اتتقام لینے کے لیے جاگ گئی تھی۔ بوڑھا گورکن پاؤں چھڑوانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ فاصلے پر پڑی لالٹین اٹھانے کی بھی ہمت کر رہا تھا۔ جلد ہی لالٹین بوڑھے گورگن کے ہاتھ میں آ گئی جس کو پوری شدت سے بوڑھے گورکن نے اس عورت کے سر پر دے مارا۔ لالٹین کے شیشے ٹوٹ گئے اور وہ بجھ گئی، جس کے ساتھ ہی اس عورت کے حلق سے قہقہے بھی بلند ہونا بند ہوگئے اور وہ ایک خوفناک چیخ مار کر واپس قبر میں جا گری۔ بوڑھے گورکن کا پاؤں آزاد ہوچکا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھا اور اندھیرے میں ہی گرتا پڑتا جیسے تیسے قبرستان سے باہر جانے والے راستے کی طرف دوڑتا رہا مگر یہ کیا؟ قبرستان کا آہنی گیٹ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بھی اس کی جھونپڑی کی طرح غائب ہوچکا تھا۔ بوڑھا گورکن اس صورتِ حال سے بری طرح خوف زدہ و پریشان ہوگیا۔ بھاگنے کی وجہ سے اس کا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔ وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنا سانس بحال کرنے لگا۔ ٹامی بھی اس کے ساتھ کھڑا ہانپ رہا تھا۔ معاً اسے اپنے عقب سے کسی بھیڑیے کی طرح غرانے جیسی آواز سنائی دی۔ بوڑھا گورگن ٹھٹک گیا اور دہشت زدہ ہوکر آہستہ آہستہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت کی۔ بوڑھے گورگن سے کچھ فاصلے پر دو سرخ انگارہ آنکھیں دبیز اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔ بوڑھا گورگن سہم گیا، شاید وہ دو آنکھیں کسی بھیڑیے ہی کی تھیں کیونکہ اندھیرے میں غرانے کی آواز وہیں سے ابھر رہی تھی مگر یہاں بھیڑیا کہاں سے آ گیا تھا،یہ سمجھ سے بالاتر تھا۔ یقیناً یہ روحوں کا ہی کام تھا۔ بوڑھے گورگن نے فوراً سے بیشتر اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر لہسن کے غنچوں کی موجودگی کا یقین کرنا چاہا مگر یہ کیا…اس کے کوٹ کی اندرونی جیب سے لہسن کے غنچے غائب تھے۔ ایسا کیسے ممکن تھا؟ بوڑھا گورگن خوف سے تھرتھر کانپنے لگا۔ غالباً جب وہ منہ کے بل زمین پر گرا تھا تو ممکن ہے اس وقت وہ لہسن کے غنچے اس کی جیب سے نکل گئے ہوں۔ بوڑھے گورکن کی پیشانی عرق آلود ہوچکی تھی۔ آج سب کچھ ہی اس کے خلاف ہو رہا تھا۔ دفعتاً فضا میں کئی بھیڑیوں کے غرانے کی آوازیں ایک ساتھ ابھریں تو بوڑھا گورگن دہشت سے کانپنے لگا۔ اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا تو اب وہاں دو چمکتی آنکھوں کی بجائے کئی سرخ آنکھیں گہرے اندھیرے میں چمکنے لگی تھیں۔ اگلے ہی لمحے بوڑھے گورگن کو احساس ہوا کہ وہ ان سرخ انگارہ آنکھوں کے گرد گھر چکا ہے۔ چاروں طرف سے بھیڑیے کے غرانے کی خوفناک آوازیں ابھر رہی تھیں جو قبرستان کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں اور ماحول کو شدید ہولناک بنا رہی تھیں۔ جب ان تمام سرخ انگارہ آنکھوں اور بوڑھے گورگن کے درمیان کچھ فاصلہ سمٹا تو بوڑھا گورگن انگشت بدنداں رہ گیا۔ وہ سب بھیڑیے نہیں تھے بلکہ سفید کفن میں ملبوس مردے تھے جن کے حلق سے نکلتی یہ کھڑکھڑ کی آوازیں بھیڑیے کی آوازوں سے مشابہ تھیں، انہی کی سرخ انگارہ آنکھیں تھیں جو اندھیرے میں بوڑھے گورگن کو گھور رہی تھیں اور اب اس کو چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لے چکی تھیں۔ بوڑھا گورگن سامنے موجود ہر مردے کو اچھے سے پہچانتا تھا۔ ان سب کے ساتھ اس نے کوئی نہ کوئی زیادتی یا ظلم کر رکھا تھا۔ بوڑھے گورگن نے دہشت سے لرزہ براندام ہوتے ہوئے اپنے گلے میں لٹکی صلیب کو اتار کر ہاتھ میں پکڑا اور اپنے چاروں طرف موجود مردوں کو دکھانے لگا مگر لمحہ بہ لمحہ بوڑھے گورگن اور اس کے پالتو کتے ٹامی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا تھا جسے دیکھ کر ٹامی روتے ہوئے بوڑھے گورگن کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ مردوں پر کوئی اثر نہ ہوتا دیکھ کر بوڑھے گورگن نے صلیب والا ہاتھ نیچے کر لیا اور ٹامی سے بولا:
”لگتا ہے موت ہمیں لینے آ گئی ہے آج۔معلوم نہ تھا ہمارا انجام ان کے ہاتھوں ایسا بھیانک ہوگا۔ بہرحال جدائی کی گھڑی آ گئی ہے ٹامی۔ یہ میرے تم سے آخری الفاظ ہیں۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔“
—°°°—
اگلے دن یہ خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ پرانے قبرستان کا واحد بوڑھا گورگن ہیلووین کی رات مر گیا۔ ساتھ اس کا پالتو کتا ٹامی بھی مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔

فلک زاہد کی مزید خوف ناک کہانیاں پڑھنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

https://asaanurdu.com/mujassama-saaz-story-in-urdu-by-falak-zahid/

1 thought on “بوڑھا گورکن…خوف ناک کہانی”

Leave a Comment